229

دادبیداد۔۔عبدالغنی دول ماما۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

20رمضان المبارک کا دن تھا عبد الغنی دول ماما کو ہسپتال سے گھر لائے چند روز ہوئے تھے کا فی کمزور ہو چکا تھا افطاری سے پہلے بیٹے سے کہا میری لاٹھی لے آؤ باہر نکلتا ہوں کمرے سے نکل کر چمن میں گیا تھوڑی دیر چہل قدمی کی پھر واپس کمرے میں آکر پلنگ پر بیٹھ گیا بیٹے سے پوچھا افطاری میں کتنا وقت رہ گیا، بیٹے نے کہا 15منٹ رہ گئے، اُس نے کہا 15منٹ میں تو بندہ اپنے پاک اللہ کے حضور حاضر ہوکر افطاری کرسکتا ہے یہ کہہ کر اُس نے سر ہانے پر سررکھا اپنے پاوں سیدھے کئے انگشت شہادت سے آسمان کی طرف اشارہ کرکے کلمہ طیبہ پڑھا اور ان کی روح پرواز کرگئی وہ کوئی بڑا عالم نہیں تھا صاحب جُبہ و دستار بھی نہیں تھا اس کے باوجود اپنے خالق اور مالک کے ساتھ اس کا ایسا تعلق تھا کہولیوں کی طرح موت کو گلے لگالیا علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
نشان مر د مومن بتو گویم
چومر گ آید تبسم برلب اوست

رحمن با با کا مشہور شعر ہے
پہ یو قدم تر عر شہ پوری رسی
ما لید لے دے رفتار د درویشانو
عبد الغنی دول ماما چترال کے خوب صورت گاوں بروز میں گل خان کے ہاں 1946میں پیداہوا ان کے والد اس وقت چترال سکاوٹس میں ملازم تھے، عبد الغنی دول ماما نے قرآن ناظرہ کے ساتھ واجبی تعلیم گاوں میں حاصل کی، وجیہہ صورت نوجوان تھے، سریلی آوازکے مالک تھے فی البدیہہ، شاعر اور گلوکار تھے ان کی مو نچھیں کانوں کو چھوتی تھیں اور قیامت ڈھاتی تھیں، ایک خوش آواز گلو کار کی حیثیت سے بہت جلد مشہور ہوئے، تلاش معاش کی فکر ہوئی تو پولیس میں بھرتی ہوئے، دل نہیں لگا تو نوکر ی چھوڑ دی، شہروں کی خاک چھانی واپس چترال آئے تو دوستوں نے اصرار کر کے جانباز فورس میں بھرتی کر وایا 1981ء میں ان سے میری پہلی ملاقات ہوئی تو جانباز فورس میں تھے ان کی ڈیوٹی چترال ائیر پورٹ پر لگی ہوئی تھی افغانستان میں روسی فو ج کی طرف سے فضائی حملوں کا خطرہ تھا انٹی ائیر کرافٹ گن کو 24گھنٹے الرٹ رکھا جاتا تھا گن کے اوپر کمیو فلاج تھا نیچے 6فٹ گہرا مورچہ تھا،رات کے مخصوص پہر بستی کے گیدڑ، لومڑ اور کتے ایک ساتھ بھونکتے تو لوگ سمجھ جا تے کہ دول ماما اپنے معمول کے لئے مورچے سے باہر آگیا ہے ان کے قریبی دوست بھی رات کے اُس پہردول ماما کے پاس آجاتے، معمول کے بعد دول ماما واپس مور چے میں اتر جاتے تو چاروں طرف خا مو شی چھا جاتی، دور دور کے لو گ دول ماما کو شادی بیاہ کے موقعوں پر تفریح کے لئے دعوت دیتے دول ماما 60کلو میٹر یا 100کلو میٹر دور بھی چلے جاتے ساری رات گاتے اور نا چتے ہوئے گذار تے صبح ان کے سامنے پیسے، ہتھیار رکھے جا تے، ان کو گھوڑا پیش کیا جاتا، گھوڑا دلہا کو بخش دیتے، ہتھیار بھی دلہا کو دے دیتے اور نقد انعامات دوسرے فنکاروں میں بانٹ دیتے، ان کا طرز ملنگوں والا اوران کااسلوب بادشاہوں والا تھا اسی حلیے میں علاقے کے سب سے بڑے عالم نقشبندی سلسلے کے صاحب طریقت بزرگ مولانا محمد مستجابؒ کی خد مت میں حاضر ہوتے حضرت سے دعا لیتے لطائف پر ضر بیں لگواتے تو لوگ حیراں ہوتے کہ یہ کیا کررہا ہے پھر ایک دن آیا جب دول ما ما نے مونچھیں کا ٹ کر داڑھی رکھ لی، سر پر سفید صا فہ کی پگڑی باندھی اور مو لانا الیاسؒ کی تبلیغی جماعت میں چار چلے لگا ئے، جنید جمشید کی طرح سابقہ معمولات کو ترک کر کے نئے معمولات کا راستہ اپنایا رومانوی شاعری کی جگہ صو فیانہ شاعری شروع کی، پہلے ان کے رومانوی گیتوں میں یہ گانابہت مشہور تھا
بو سونی اے تہ شیئلیوں کیہ انداز ہوئے
کا رہے ویلٹی نا گہہ کورہ ما یونو کہ ہواز گوئے
اب نئے رنگ وآہنگ میں ان کا کلام آنے لگا، اپنے مر شد مولانا محمد مستجابؒ کی جدائی پر انہوں نے طویل مر ثیہ پڑھا
اویونو مولانا مہ چھترارو لیگینہ
بغاؤ تھے دردانہ اوا بہچیتم دوندونہ
مولانا راہی اریر چھترار و خالی اریر
باد شاہی نو مشکیتائے تا نتے فقیری اریر
ایک صو فیانہ کلا م میں دنیا کی بے ثباتی اور مو ت کے وقت انسان پر بیتنے والی حالت کا ذکر یوں کر تے ہیں
دنیو کو روم نہ کو س پورہ بوئے
شیرین ژا نو تے سرا سیمہ بوئے
پونگو دو غورہ تھے نمو نہ بوئے
کوس سورہ کی ہائے ہتوت پتہ بوئے
غیچ ٹھخ بلا یو نی قالیب سمہ بوئے
ہر دی نو ہو بخیر تا نتے دمہ کوئے
دول ماما کا کلا م پڑھنے سے زیا دہ سننے سے تعلق رکھتا ہے 78سال کی عمر میں بھی ان کی آواز 16سال کے جوان کی طرح تھی اپنی سریلی آواز میں کلام سناتے تو سماں باندھ دیتے تھے ان کی وفات سے کھوار ادب کو جو نقصان ہوا وہ صدیوں پورا نہ ہو سکیگا ان کا آبائی گاوں بروز شاعروں کی سر زمین ہے شہزادہ تجمل شاہ محوی متوفی 1838ء سے لیکر رحمت شیر جہاں، عبد الحسین، مشرف خان، نعمت خان، رحمت الٰہی اور مہر بان الٰہی حنفی تک بروز کے شعراء کی پوری کہکشان ہمیں ملتی ہے حنفی کا تعلق نعمت خان کی تیسری نسل سے ہے، اس وقت ان کے والد رحمت الہٰی 91سال کی عمر کے ہیں اور حیات ہیں عبد الغنی دول ماما کے بڑے بیٹے رحمت غنی نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ان کے خاندان میں دول ماما کی علمی و ثقافتی میراث آگے برھے گی انہوں نے بتایا کہ توکل اور درویشی ان کے دادا گل خان کی میراث ہے جنہوں نے انگریزوں کے دور میں فو ج سے ریٹائر منٹ کے بعد پنشن لینے سے یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ گھر بیٹھ کر انگریز کا وظیفہ کس خو شی میں کھاونگا جب تک کام کیا تنخوا لے لی دول ما ما نے توکل اور درویشی میں نام کمایا اللہ پاک ان کی قبر کو جنت کا نمو نہ بنا کر دول ماما کی روح کو دائمی راحت نصیب کرے (آمین)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں