Mr. Jackson
@mrjackson
مضامین

تاریخ کے محسن……….. شمس الرحمن تاجک

کچھ لوگ افراد یا نسلوں کے نہیں بلکہ تاریخ کے محسن ہوتے ہیں۔ تاریخ کے ان محسنوں کا نسلوں کی آبیاری میں ایک مسلمہ کردار ہوتا ہے، جسے چاہتے ہوئے بھی آپ اگنور نہیں کرسکتے۔ لاکھ اختلاف ہو، کسی بھی سطح کی ناپسندیدگی ہویا پھر ذاتی دشمنی۔ عمر دراز کے اس اسٹیج پر جب آپ پہنچتے ہیں جہاں میچور ہونے کے دعوے کے بجائے انسان واقعی میچور ہوجائے تو پھر پلٹ کر اپنے گزرے لمحوں کو ایک نظر ضرور دیکھتا ہے اور گزرے ان لمحوں کے بہت سارے ولن اب زندگی کے سب سے بڑے محسن نظر آرہے ہوتے ہیں۔ اور بہت سارے محسنوں کا بھیانک چہرہ زندگی کو بدمزہ کرنے لگتا ہے۔
ضروری نہیں کہ جب آپ تاریخ لکھنے بیٹھ جائیں تو ہر تاریخ رقم کرنے والی شخصیت آپ کو دستیاب ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جسے ہم تاریخ رقم کرنے والا سمجھ بیٹھے ہوں وہ تاریخ کے شطرنج کا صرف ایک مہرہ ہو۔ زندگی کے ہر اسٹیج کا ولن اور ہیرو الگ ہی ہوتا ہے بلکہ ہر لمحے کا۔ ضروری نہیں جو لمحہ موجود کا ولن ہے وہ زندگی بھر ولن ہی رہے نہ آپ کا ہیرو مستقل ہوتا ہے۔ انسانی عمر کے ساتھ عقل بھی پختگی کے مراحل طے کررہا ہوتا ہے۔ عمر کے ساتھ بڑھتی ہوئی عقل کی اس پختگی نے کم از کم میرے لئے اس واحد شخص کو اچھائی کے اس اسٹیج پر براجمان کیا ہے جہاں صرف آسمان ہے، جہاں صرف کامیابی ہے، جہاں صرف نیک نامی ہے۔ اس ایک شخص کو دیکھنا ہو یا آسمان پر پھیلے ہوئے روشنی کے کسی بھی مسافر کو۔ ہمیشہ اوپر دیکھنا پڑتا ہے۔
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ہم ہر کامیاب شخص کے گزر جانے کا انتظار کررہے ہوتے ہیں تاکہ ہم اس کے بارے میں جو کچھ اچھا ہے، وہ بیان کرسکیں، وہ لکھ سکیں اور وہ دنیا کو بتا سکیں۔ بہت سوچنے کے بعد بھی کہ ہم زندہ فرشتوں اور معاشرے کے لئے رول ماڈل کا درجہ رکھنے والے افراد کو ان کی زندگی میں ہی وہ عزت و تکریم کیوں نہیں دے پاتے۔صرف ایک بات سمجھ آتی ہے کہ ہم بطور معاشرہ منافقت کے رویے کا شکار ہیں۔ ہم کسی بھی زندہ شخص کی تعریف کرکے اسے معاشرے میں عزت دیتے ہوئے دیکھنا برداشت نہیں کرسکتے۔ اس کے بجائے اگر ہم ان کی زندگی میں ان کی کامیابیوں کے بارے میں معاشرے کی نئی نسل کو آگاہ کریں تونئی نسل کچھ اور کرے یا نہ کرے اس شخصیت سے مل کر اس کی علم و آگاہی سے مستفید تو ہوسکتی ہے۔ ایسے جہاندیدہ شخصیت سے ملنا ہی ایک پوری نسل کے لئے اعزاز کی بات ہے جس نے کئی نسلوں کو کامیابی کے راستوں پر گامزن کرنے میں ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر کردار ادا کیا ہے۔
گرم چشمہ میں آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول کی افتتاحی تقریب کے دوران جیسے ہی پنڈل میں داخل ہوا ایک جانی پہچانی آواز سماعت سے ٹکرائی۔ ”اے ڈاق ہایا گیے“ سکول کے زمانے میں یہ جملہ دہشت کی علامت ہوا کرتا تھا مگر آج اعزاز لگا کہ نسلوں کے ایک محسن باقاعدہ آواز دے کر اپنے پاس بلا رہے تھے۔ دوڑے دوڑے ان کے پاس پہنچے۔ کرسی پر براجمان اس شخصیت کے سامنے جب ان کے زانو کی سطح تک جھک گئے سامنے سے ایک تھپڑسے نوازا گیا۔ تھپڑ کیوں مارا، ساتھ میں کیا بولا، کیا حکم صادر ہوا۔ یہ سب یاد نہیں کیونکہ ہم اس وقت ان گزرے لمحوں میں کہیں کھو گئے جب اس مہربان شخصیت نے ہمیں پہلی دفعہ قلم پکڑا کر حکم دیا تھا کہ”کتاب سے نقل کرکے نہیں، نہ ہی کسی سے پوچھ کر لکھنا بلکہ جو کچھ تمہارے ذہن میں آرہا ہے وہی لکھو“۔ ہم نے ضرور کچھ لکھا ہوگا اور ظلم کا یہ سلسلہ مہینوں جاری رہا کہ اپنا لکھو، رٹہ رٹایا چھاپ کر مت لایا کرو۔سلسلہ چل نکلا۔ ان کی طرف سے رہبری بھی جاری رہی۔ ہم نے الفاظ جوڑنے کا ہنر سیکھ لیا۔ اس ہنر میں کوئی یکتائی نہ سہی مگر اپنے دل کی بات ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بیان کرنا بھی ہمارے لئے بہت بڑی بات ہے۔ یہ سب کچھ اسی مہربان شخص کے ظلم نے سیکھایا۔
جب ہم خیالوں کی دنیا سے واپس آئے تو حکم ہوا کہ اسٹیج پر چلے جاؤ۔ حکم کی تعمیل ہوئی ہم اسٹیج پر پہنچ گئے۔ پنڈال پر نظر دوڑائی۔وادی لوٹ کوہ کے کامیاب ترین لوگ کثیر تعداد میں پنڈال کو رونق بخش رہے تھے۔ اس تقریب کا حصہ بننے والے یقینا اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کی وجہ سے یہاں مدعو تھے۔ یہ تمام افراد معاشرے کے مطمئن اور آسودہ حال لوگ ہیں۔ یہ سب زندگی کو اس کی تمام تر رنگینوں کے ساتھ انجوائے کررہے ہیں ان کامیاب افراد کی نسلیں ملک کے اعلی تعلیمی اداروں کے ساتھ بین الاقوامی اداروں میں یا تو تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں یا وہ بھی کامیابیان سمیٹنے کے بعد ملک اور ملک سے باہر بہترین اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں جس سے ان کی خاندانوں،معاشرے اور ملک کی عزت افزائی ہورہی ہے۔ مگر ان تمام افراد کی کامیابیوں کا اصل کردار اسی پنڈال میں انتہائی سادگی سے ایسے بیٹھے ہوئے تھے جیسے وہ ان تمام کامیاب افراد۔ مجھے ان کیسے واقفیت ہی نہیں رکھتے۔ان کے پرسکون چہرے پر بے تحاشا پیار آیا اور نسلوں کے اس محسن کو دیکھ کر تشکر کے آنسو رخساروں پر کب روان ہوئے پتہ ہی نہیں چلا۔
یہ شخصیت چترال کے تمام بڑے اداروں کے سربراہوں کے بیچ اس طمطراق سے بیٹھے ہیں کہ انہیں کون آرہا ہے اور کون جارہا ہے، سے کوئی سروکار نہیں،انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب کہ پنڈال میں آنے والے تمام افراد ان کی دست بوسی کے لئے ان کے پاس جاتے ہیں۔انہیں سلام کرتے ہیں وہ ایک شان بے نیازی سے سب سے ملتے ہیں۔ان کا چہرہ دیکھیں تو وہی سنجیدگی، وہی وقار جو ان کا ہمیشہ سے خاصا رہا ہے۔ نسلوں کی کامیابی کے ذمہ دار اس شخصیت کو دلی سکون اور ذہنی راحت تو بھر پور طریقے سے نصیب ہوئی ہوگی۔ وہ اسٹیج پر کھڑے ہوکر پنڈال کی طرف دیکھیں گے تو انہیں اپنی کامیابیوں پر کتنا فخر ہوتا ہوگا۔ ایک باپ اپنے بیٹے کی کامیابی پر کتنا فخر کررہا ہوتا ہے اس تناظر میں اس شخصیت کی بے کراں خوشیوں کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہے۔
تو میرے پیارے استاد، میرے رول ماڈل، اور وادی لوٹ کوہ کے واحد محسن ”صمد گل سر“ جو خدمات آپ نے وادی لوٹ کوہ کے بچوں کی کامیابی کے انجام دیئے ہیں اس کی اس دنیا میں کوئی قیمت لگانا ممکن ہی نہیں ہے۔ شخصیات افراد کے محسن ہوا کرتے ہیں آپ نسلوں کے محسن ہیں۔ اللہ تبارک و تعالی آپ کا سایہ دیر تک ہمارے سروں پر برقرار رکھے۔ آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button