پشاور(نمائندہ )رضیت باللہ (سابق ضلعی نائب صدر پی ٹی آئی چترال ) ،محمد حسین شاہ ( سابق سیکرٹری سپورٹس اینڈ کلچر ملاکنڈ ریجن )،شہاب الدین (جنرل سیکرٹری یوتھ اینڈ ڈویلپمنٹ فورم چترال ) نے گذشتہ روز پشاور میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ کہ آپ کو معلوم ہے کہ صوبائی حکومت نے چترال میں قائم دو یونیورسٹی کیمپسز کو مرج کرکے ضلع چترال کیلئے الگ یونیورسٹی قائم کرنے کی منظوری ADP No. 552دیدی ہے جس سے چترال کے ہزاروں طالبعلموں کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوا جس کیلئے ہم قائد تحریک انصاف عمران خان ٗ وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور صوبائی وزیر مشتاق غنی کے مشکور ہیں ۔ تاہم اس سلسلے میں ضلع چترال کے مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی خاتون ایم پی اے وپارلیمانی سیکرٹری محترمہ بی بی فوزیہ پچھے 3سالوں سے مختلف فورموں میں جو کوششیں کررہی تھیں اور بجٹ اجلاس سے 3 دن قبل قائد عمران خان ٗ وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور ہائیر ایجوکیشن کے منسٹر مشتاق غنی سے ملاقات کرکے ٹھوس موقف اپنا کر چترال کیلئے الگ فل فلیج یونیورسٹی کو ADP میں شامل کرواکر چترال کے عوام اور بالخصوص چترال کے طلباء وطالبات کا دل جیت لیا جس کی وجہ سے اب ان کے گھر کے دہلیز پر اعلیٰ ڈگری کا حصول کم خرچوں میں ممکن ہوسکے گا اور ساتھ ساتھ ADP No.807 کے ذریعے ریسکیو 1122 کی منظوری کرواکر چترال جیسے دور دراز علاقوں میں ایمرجنسی کی صورتحال میں درپیش مسائل کا حل بھی ممکن ہوگا ۔اُنہوں نے کہا جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ضلع چترال انتہائی دور آفتادہ اور رقبے کے لحاظ سے خیبرپختونخوا کا سب سے بڑا ضلع ہے ۔ بڑا ضلع ہونے اور قدرتی آفات کی زد میں ہونے کے باوجود بجٹ میں پوری طرح نظرانداز کیا گیا جس کیلئے ہم سخت آوا ز میں احتجاج بھی بلند کرتے ہیں ۔ کیونکہ ضلع چترال گزشتہ 3 سالوں سے مسلسل سیلابوں اور تباہ کن زلزلوں کی وجہ سے تباہ وبرباد ہوچکا ہے لہٰذا ہمیں توقع تھی کہ چترال کو آفت زدہ قرار دیا جاتا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا جس کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں ۔ اپرچترال کے اکثر علاقے اور کیلاش ویلیز کے روڈ سیلاب برد ہونے کی وجہ سے ابھی تک بحال نہیں ہوسکیں ۔جبکہ اپر چترال کا واحد بجلی گھر بھی سیلاب برد ہونے کے بعد پچھلے ڈیڑھ سال سے بند پڑا ہے اور ہزاروں لوگ بغیر بجلی کے سخت وقت گزارنے پر مجبور ہیں اور اپر چترال ہی میں 2 مختلف ناقص پلوں کے حادثوں میں قیمتی جانوں کا ضیاع بھی ہوچکا ہے جس میں کوشٹ پل اور کشم ٗ موڑکہو روڈ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ سخت اذیت میں مبتلا ہیں مگر افسوس کہ چترال کے عوام کی قیمتوں سے ووٹوں سے منتخب ایم این اے و ایم پی ایز اور ضلعی حکومت بالکل خاموش ہے جس کی بھی مذمت کرتے ہیں ۔ لہٰذا ہماری گزارش ہے کہ صوبائی حکومت چترال کو (Block ADP) اور (Umbrealla Scheme) میں شامل کریں اوروزیراعلیٰ خیبر پختونخوااپنا تمام صوابدیدی فنڈ بھی چترال منتقل کریں ۔ یاد رہے کہ جنگلات کی کٹائی کی مد میں 1984 سے لیکر اب تک تقریباً 5 ارب روپے ضلع چترال کی رائلٹی بھی صوبائی حکومت کے ذمے واجب الادا ہے ۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ صوبائی حکومت فوری طور پر ان 5 ارب روپوں کوبھی ضلع چترال کیلئے ریلیز کریں اور تحریک انصاف کے کارکنوں نے جو آواز اٹھائی ہے اس پر لبیک کہہ کر چترال کے سنگین مسائل کو حل کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی ۔