63

داد بیداد۔۔۔۔شراکت داری اور تر قی۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

خبر آئی ہے کہ عالمی بینک نے خیبر پختونخوا کی عمو می ترقی اور ضم اضلا ع میں خصو صی منصو بوں کے لئے صو بائی حکومت کے ساتھ نئی شراکت داری (Partnership) پر رضا مندی ظا ہر کی ہے اس سلسلے میں بینک حکام نے محکمہ منصو بہ بندی و تر قیا ت کے افیسروں کے ساتھ مذا کرات کا پہلا مر حلہ ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ سے شروع کیا ہے یہ بہت اچھی خبر ہے اس خبر سے یہ اُمید پیدا ہو گئی ہے کہ عالمی سطح پر نئی حکومتوں کو پذیرائی مل رہی ہے اندرونی افرا تفری اور انتشار میں کمی آگئی تو مزید پذیر ائی مل جا ئیگی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مو جودہ دور میں دنیا سمٹ کر ایک گاوں بن چکی ہے اس عالمی گاوں میں مختلف مما لک کے درمیان با ہمی تعاون کی طرح عالمی اداروں کے ساتھ قومی حکومتوں کے تعاون کی بھی خا ص اہمیت ہے اس طریقے سے حکومتوں کو عالمی اداروں کا تعاون حا صل ہو تا ہے گذشتہ پون صدی کے اندر سما جی شعبے کے کئی بڑے مسائل پر اس قسم کے تعاون سے قابو پا یا گیا ہے اس کو ترقی کے لئے عالمی شراکت داری کا نا م دیا جا تا ہے اخبارات میں ابتدائی میٹنگ کے حوالے سے جو خبریں آئی ہیں ان خبروں کی رو سے ترقی کے لئے اشتراک کے لئے مختلف شعبوں کی نشان دہی کی گئی ہے ان میں مو سمیا تی تغیر اور ما حو لیا تی مسا ئل سے نمٹنے کا کام سر فہر ست ہے اس کے بعد کمیو نی کیشن یعنی بنیا دی ڈھا نچے کی تر قی مثلا ً سڑکیں آتی ہیں پلوں کا نمبر بھی آتا ہے، تیسرا شعبہ زراعت اور آب پا شی ہے اس میں سیلاب سے بچاؤ کے حفاظتی بندھ بھی شامل ہیں، اس کے بعد انسا نی وسائل پر تو جہ دی گئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ عالمی مارکیٹ میں جن شعبوں کے ما ہرین اور کاریگر وں کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے ان شعبوں کے تر بیت یا فتہ کا ریگر اور ما ہرین کی کھیپ تیار کر کے ان کے ذریعے زر مبا دلہ کما نے کے لئے ایک سال سے لیکر چار سال تک کے مخصوص کورس ڈیزائن کر ائے جائینگے، کورس مکمل کرنے والوں کو عالمی مارکیٹ کے لئے قابل قبول سر ٹیفکیٹ، ڈپلو مہ اور ڈگریاں دی جائینگی، انسا نی وسائل کی ترقی کا دوسرا شعبہ روایتی تعلیم بھی ہے اس شعبے میں بھی عالمی بینک صو بائی حکومت کو تعاون فراہم کر ے گا سر دست اس شراکت داری میں عالمی بینک کی طرف سے ملنے والے تعاون کا حجم ڈالروں یا پا کستانی کرنسی میں سامنے نہیں آیا ابھی تخمینے اور اندازے تیار کرنے کا کام ہو رہا ہے اس مر حلے پر ما ضی سے کچھ سبق سیکھنا چاہئیے مثلاً 1990ء کی دہا ئی میں پرائمیری تعلیم کے شعبے میں اصلا حا ت کے لئے عالمی بینک کا بہت بڑا پرو گرام آیا تھا اس پرو گرام کے ڈیزائن میں خا میاں تھیں ان خا میوں کی وجہ سے پرو گرام ختم ہو تے ہی نیب (NAB) حرکت میں آگئی مقد مات شروع ہو ئے گرفتا ریاں عمل میں لائی گئیں، عالمی سطح پر صو بائی حکومت کی بڑی بد نا می ہوئی اس طرح کی بد عنوا نیوں کا راستہ پہلے ہی روکنا ہو گا اور پرو گرام کے بنیا دی ڈیزائن میں بد عنوا نیوں کے رو ک تھا م کا طریقہ کار وضع کرنا ہو گا، بین لاقوامی اور عالمی امداد دہندہ گان کی طرف سے قرض یا گرانٹ کی صورت میں جو امداد آتی ہے اس میں امداد کا زیا دہ حصہ مشینری اور نئی گاڑیوں کی خریداری، پنچ ستاری ہو ٹلوں میں ورکشاپ، اندرون ملک اور بیرون ملک سیر سپا ٹوں کے ساتھ بڑی بڑی کوٹھیوں کے کرایوں میں خر چ ہو جا تا ہے اصل مقصد اور کام کے لئے پوری رقم کا ایک چو تھائی بھی نہیں بچتا، یہ نا کام تجربہ بار بار دہرا یا گیا ہے نئی شراکت داری کے لئے دونوں طرف کام کرنے والے حکام کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئیے کہ کورونا کی وباء کے بعد دنیا بھر میں کساد بازاری آئی ہے خیبر پختونخوا خا ص طور پر متا ثر ہوا ہے اس لئے امداد گرانٹ کی صورت میں ہو یا قرض کی صورت میں ہو دونوں صو رتوں میں ہدف کے آخرے سرے (Tail end) پر اس کا تین چو تھا ئی حصہ پہنچنا چاہئیے تا کہ اس کے مثبت اثرات نما یا ں طور پر نظر آئیں Tangible impactسب کے سامنے ہو، اور آنے والے سالوں میں لو گ خود ان کا موں کی تعریف کریں، ٹارگٹ کے آخرے سرے پر کچھ نظر نہ آئے تو اس کا فائدہ نہیں ہوتا ترقی کے لئے عالمی بینک کے ساتھ صو بائی حکومت کی نئی شراکت داری خو ش آئیند ہے خدا کرے کہ ہماری ہماری قیا دت بے لوث خدمت کے جذبے کے تحت اس پر عمل در آمد کر ائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں