عصمت عیسیٰ ایڈوکیٹ کی وفات سے ہمار صو بہ ایک عالم، فلسفی اور قانون دان سے محروم ہو گیا مرحوم کو عربی، انگریزی اور فارسی پر عبور حاصل تھا، وہ مشہور حریت پسند رہنما انیسویں صدی کے چھاپہ مار جنگجو اور شمشیر زن محمد عیسیٰ کے پڑ پوتے تھے ضلع چترال بالا کے تاریخی گاوں اجنو کے بائیکے قبیلے میں استاذ الاساتذہ مصطفیٰ کمال کے گھر 1950ء میں پیدا ہوئے اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کے بعد خیبر لاء کا لج پشاور یو نیور سٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری لی، سرکاری مقدمات کی پیروی کرنے والے پراسیکیو شن برانج میں ملازمت اختیار کی اور پبلک پراسیکیوٹر کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ لے لی، انشااللہ خان انشاء کے سوانح نگار نے لکھا ہے کہ ان کی نثر نگاری کو شاعری نے سر اٹھانے نہیں دیا اور ان کی شاعری کو نواب سعادت حسین خان کے در بار نے نگل لیا، یوں ان کا علم و فضل اشکار نہ ہوسکا، عصمت عیسیٰ کے ساتھ بھی ایسا ہی سانحہ ہوا، سرکاری دفتر کے مقدمات کی بھول بھلیاں، فوجداری عدالتوں میں پے درپے پیشیاں اور مکھی پر مکھی مارنے کی دفتری روایت نے انہیں سر اٹھانے نہیں دیاجب بھی ملتے کسی اہم کتاب کے مطالعے کاحال بتاتے اور کہتے ریٹائرمنٹ کے بعد چار مو ضوعات پر لکھوں گا اور جم کر لکھوں گا، ابن تیمیہ اور مولانا مودودی کے افکار کا موازنہ ان کا پسندیدہ موضوع تھا اسلامی فقہ میں شہادت اور جر ح و تعدیل کے ضوابط ان کا دوسرا موضوع تھا،انگریزوں کی غلامی کے سماجی اور سیاسی اثرات پر وہ کام کر رہے تھے اسی طرح فتاوائے عالمگیری کی روشنی میں دور حاضر کے معاشرتی مسائل کی گتھیاں سلجھانے میں ان کی عرق ریزی بے مثال تھی، ریٹائرمنٹ کے بعد مختلف بیماریوں نے ان کے گھر کا راستہ ڈھونڈلیا، بیماریوں کو دور کرنے کے لئے انہوں نے قانون کی باقاعدہ پریکٹس شروع کی تو مقدمات کی اتنی بھرمار ہوئی کہ سر کاری ملازمت سے زیادہ مصروف رہے، قلم کاغذ، کمپیوٹر اور لائبریری سے رشتہ جوڑنے والے تھے کہ داعی اجل کاپیغام آیا نظیر اکبر ابادی نے کہا تھا ”سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لادچلے گا بنجا رہ“ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے میں نے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا بڑے لوگوں کے ساتھ ایساہی المیہ ہوتا ہے ان کے ساتھ میری پہلی ملا قات 1969ء میں ہوئی تھی جب میں اینگلوور نیکلر ہائی سکول چترال میں دسویں جما عت کا طالب علم تھا ہمارے سکول کے تین کمروں میں انٹرمیڈیٹ کالج قائم ہوا تو عصمت عیسیٰ فرسٹ ائیرمیں داخل ہوئے سیداحمد خان ان کے بڑے بھائی تھے تاہم سکول اور کالج میں دونوں ہم جماعت تھے،عصمت عیسیٰ ہم نصا بی سر گرمیوں اور تقریری مقابلوں میں نمایاں مقام رکھتے تھے،اسلامیہ کالج گئے تو اسلامی جمعیتہ طلبہ کے سر گرم کارکن بنے، ہم نے انہیں پر جوش نعرے لگاتے ہوئے سنا، جو کام بھی کر تے پورے جو ش و خروش کے ساتھ دل لگا کر انجا م دیتے تھے اور یہ وصف ان کے پڑ دادا محمد عیسیٰ سے وراثت میں ملاتھا محمد عیسیٰ کا نام شجاعت اور بہادری میں ضرب المثل کا درجہ رکھتا ہے چترال اور غذر میں بہادر اور نڈر بچے کو شیر نہیں کہتے ”محمد عیسیٰ“ کہتے ہیں، کابل کے امیر شیر علی خان کو قند ھار کی مہم پیش آئی تو محمد عیسیٰ کو اپنے لشکر کے قلب میں رکھا میمنہ کے میدان میں انہوں نے بہادری کے جوہر دکھائے ان کا بڑا کمال یہ تھا کہ وہ تلوار چلاتے تو ان کی آنکھ نہ جھپکتی یہ خصوصیت بڑے بڑے سورماوں میں ہوا کرتی تھی 1895ء میں چترال انگریزوں کی کا لونی میں شامل ہوا تو ان کے ساتھی جنگجو گرفتار ہو ئے، محمد عیسیٰ نے جلا وطنی اختیار کی دیا مر میں بقیہ زند گی آزاد سانس لیتے ہوئے گذاری اوروہیں مدفون ہوئےعصمت عیسیٰ مرحوم غیرت اور خوداری کے پیکر تھے، مولاناشبلی نعمانی اور علامہ اقبال کے ہاں خودی کے جو تصورات ہیں، ان تصورات کو عزیزرکھتے تھے وہ کہا کرتے تھے کہ علامہ اقبال کاشاہین میرے پڑ دادا کے کر دار کی عکاسی کرتا ہے علامہ اقبال کا شعر اکثر دہرا تے ”غیر ت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں، پہنا تی ہے درویش کو تاج سر دارا“ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مرض المو ت کا حملہ ہوا ساڑھے تین ما ہصاحب فراش رہنے کے بعد 19جو لائی 2024ء کو 74سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا، بیماری کے دوران جب بھی مجتبیٰ کمال اور صلا ح الدین سے بات ہوئی ان کی قوت ارادی کا تذکرہ ہوا ان کی موت نے ایک علمی شخصیت کو ہم سے چھین لیا، اللہ پا ک ان کی روح پُر فتوح کو جنت کی آسائشیں اور راحتیں نصیب کرے (آ مین)