داد بیداد۔۔مون سون کی شجر کاری۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

قیام پاکستان سے پہلے جولائی اور اگست کے مہینوں میں میدانی اضلاع اور ڈویژنوں کے حکام مون سون کی شجر کاری مہم چلایا کرتے تھے، لاہور، گوجرانوالہ، ٹنڈو آدم، ایبٹ اباد اور بنوں جیسے ڈویژنوں میں لا کھوں پودے لگائے جاتے تھے ان کو تین ما ہ بارش کا پانی ملتا تھا تو جڑیں مضبوط ہوتی تھیں، اگلے سال پتے، شگوفے اور کونپلیں نکل آتی تھیں، انگریزوں نے ملک کے دوسرے حصوں کے لئے موسم بہارکی شجرکاری کاپروگرام وضع کیاتھا چترال، غذر، وزیر ستان اور دیگر علاقے مون سون سے باہر واقع ہیں ان علاقوں میں مو سم بہار کی شجر کا ری مہم چلائی جاتی تھی آج کے اخبارات میں خبر آئی ہے کہ شمالی وزیرستان اورچترال لوئیر میں سرکاری میٹنگ ہوئی، مون سون کی شجر کاری کے لئے سکول، کالج اور یونیورسٹی کے ہر طالب علم کو 10پو دے دینے کا حکم دیاگیا، وہ پودے لگا کر تصویر رپورٹ کے ساتھ پیش کرینگے تو ہر پودے کے عوض 10روپے یعنی 10پو دوں کے لئے 100روپے دیئے جا ئینگے یہ الگ بات ہے کہ روپے چند سال بعد ملینگے اور 10جو تے گھسانے کے بعد ہی ملینگے مگر یہ چنداں ضروری بات نہیں اصل بات یہ ہے کہ چترال، غذر، یا سین، اشکو من اور وزیرستان جیسے کئی اضلاع میں مون سون کی کوئی بارش نہیں ہوتی، جو لائی اور اگست میں زمین پانی کو ترستی ہے ایسے اضلاع میں مون سون کی شجر کاری ضائع جائیگی سارے پودے دومہینوں میں سوکھ جائینگے اس مہم کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا مگر یہ بات میں کیوں لکھ رہا ہوں محکمہ ماحولیات، محکمہ موسمیات، محکمہ جنگلات سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے افیسر یہ بات کیوں نہیں کہتے؟ سوال سو ملین ڈالر کاہے اور جواب دو سو ملین ڈالر کا آئیگا جواب یہ ہے کہ ہمارا دفتری نظام برباد ہو چکا ہے دفتروں میں بھونڈی نقالی کے سوا کچھ نہیں ہو تا اسلام اباد، لاہور یا کراچی میں ایک افیسر نے مراسلہ بھیجا مون سون کی شجر کاری مہم چلاؤ اور اپنی رپورٹ بھیجو کہ کتنے پودے لگائے گئے لوئیر چترال اور وزیرستان کے ڈپٹی کمشنروں نے لاہور اور ایبٹ اباد کی انتظامیہ کو دیکھ کر میٹنگ بلائی میٹنگ میں ذیلی محکموں کو اہداف دیئے گئے محکمہ تعلیم ایک لاکھ 60ہزار پودے، محکمہ صحت 40ہزار پودے محکمہ پو لیس 20ہزار پودے دیگر محکمے 4لاکھ پودے کل ملاکر 6لاکھ پودے لگائے جائینگے ایک پودا بھی جڑنہیں پکڑے گا، پتے نہیں لائیگا 6لا کھ پودے ایک ضلع میں ضائع ہوئے مون سون سے محروم 14اضلاع میں 84لا کھ پودے ضائع ہوئے، ایک سال کی بات نہیں یہ پودے ہر سال ضائع ہو تے ہیں، ہرسال یہ پودے کیوں لگا ئے جاتے ہیں؟ اوپر سے اندھوں نے حکم بھیجاہے ماتحت اندھے اس حکم کو بجالاتے ہیں اس طرح کے حکم کی ایک اور مثال ہے پشاور یو نیورسٹی اور صدر بازار میں پیلے رنگ کی کار کا داخلہ منع ہے، 20سال پہلے ایک جگہ دھماکہ ہوا دھماکہ میں پیلی ٹیکسی استعمال ہوئی تھی اوپر سے حکم دیا پیلی کار کا داخلہ منع ہے گویا دہشت گرد 20سال بعد بھی پیلی کار میں گھوم رہاہے ایک اور مثال ہے دسمبر 2015ء میں پشاور صدر کے آرمی پبلک سکول میں فائرنگ ہوئی ڈیڑھ سو بچے اور ان کی استا نیاں شہید ہو گئیں اوپر سے حکم آیا تمام سکولوں کی چھتوں پر مورچے قائم کرو، دروازوں پر ریت کی بوریوں کے الک الک بنکر قائم کرو، حکم پر اس طرح احمقا نہ عمل ہوا کہ 14000فٹ کی بلندی پر واقع وادی بروغل کے پرائمیری سکول میں بھی مورچے بنائے گئے، بچے حیران ہوئے توان کوبتایاگیاکہ سکول پرحملہ ہونے والاہےحالا نکہ یہ دنیا کا سب سے زیادہ پُر امن گاوں ہے حکام بالا نے آنکھیں بند کر کے حکم دیا ما تحتوں نے آنکھیں بند کر کے اس احمقانہ حکم پر عمل کرکے معصوم بچوں کو خوف زدہ کردیا، حکام کو پُر امن اور بد امن اضلاع کی تمیز نہیں تھی، شجر کاری والے اناڑی حکام کو مون سون والے اضلاع اور مون سون سے محروم اضلاع کی تمیز نہیں وہ چترال، غذر، وزیر ستان اور دیگر اضلاع کے لئے مو سم بہار کی شجر کاری کی تجویز پیش کرنے کی اہلیت اور صلاحیت سے محروم ہیں اس لئے ہرسال خشک پہاڑی علاقوں میں مون سون کی شجرکاری کے نا م پر 84لا کھ پو دے ضائع ہوتے ہیں۔