داد بیداد…صحافت میں ابہام…ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
کیا سم ظریفی ہے ابہام لکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہت مشکل لفظ لکھا، کنفیوژن لکھتا تو آسان اور عام فہم ہوتاحالانکہ کنفیوژن اردونہیں انگریزی ہے اورہمیں اردو سے بھی آسان لگتا ہے،صحافت میں ابہام یاکنفیوژن سوشل میڈیا کی وجہ سے پیدا ہوگیا ہے، سماجی رابطے کے ذرائع استعمال کرکے اپنی رائے دینے والوں کی تعداد ہرشہر میں اور ہرقصبہ یاضلع میں ہزاروں سے بھی زیادہ ہے، قاری حنیف ڈار اور رشید یوسفزئی سمیت سوشل میڈیا کے فعال شرکاء کو صحافی کہاجاتاہے اور کوئی بات کسی کے طبع نازک پہ گراں گذرے تو طعنہ دیتاہے کہ تم صحافی ہوکے یہ کیا کر رہے ہوں؟ اسی طرح اخبار کے کسی بھی صفحے پر کالم لکھنے والوں کو بلا امتیاز سب لوگ صحافی کادرجہ دیتے ہیں حالانکہ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا، شاعر کا خیال اپنی جگہ مگر یہاں دوستی سے صحافت مراد ہے، اس بات کو عام قارئین تک پہنچانے کے لئے، مسکین حجازی کا حوالہ بھی دیاجاسکتا ہے تاہم حوالے کے بغیربھی اس کی وضاحت کی جاسکتی ہے، پوری دنیا سے صحافیوں کی ٹریڈ یونین سرگرمیان اخبارات میں آتی ہیں ٹریڈ یونین کے اصول وضوابط کے مطابق کسی اخبار یا نشریاتی ادارے کے ”شعبہ خبر“ سے وابستہ پیشہ ور کارکن صحافی کہلاتا ہے، اخبار کے صٖفحات پر کالم لکھنے والا اگر پیشہ ور کارکن نہیں ہے تو وہ صحافی نہیں کہلاتا اگر مثال دینی ہو تو مرحوم رحیم اللہ یو سفزئی صحافی بھی تھے کالم نگار بھی تھے، سہیل وڑائچ صحافی بھی ہے کالم نگار بھی، ایاز امیر، سید مظہر علی شاہ اور ناصر علی سید بہت پایے کے لکھاری ہیں کالم نگار ہیں مگر ٹریڈ یونین کے حساب سے وہ صحافی نہیں کہلاتے کیونکہ اخباری صنعت کے کارکنوں میں شامل نہیں ہیں صحافی کی تعریف پر پورے نہیں اتر تے، موجودہ حالات میں اخباری کارکنوں نے اپنا یوٹیوب چینل کھولا ہوا ہے وہ یو ٹیو ب چینل کی وساطت سے صحافیوں میں شامل نہیں البتہ اخباری کارکن کے طور پر ٹریڈ یونین ان کو صحافی مانتی ہے مگر یو ٹیوب پر موجود لوگوں میں جن کا تعلق اخباری صنعت کے رجسٹرڈ کارکنوں سے نہیں ان کو ٹریڈ یونین صحافی تسلیم نہیں کرتی کیونکہ صحافت کا معیار یوٹیوب نہیں بلکہ اخباری صنعت ہے، اسی طرح فیس بک، انسٹا گرام، واٹس ایپ اور دیگر ذرائع پر پو سٹ لگا نے والا اگر اخباری صنعت سے وابستہ ہو تو صحافی کہلائے گا، اخباری صنعت سے منسلک نہ ہو تو صحافی کہلانے کا مستحق نہیں ہو گا ابہام اس لئے پیدا ہوا کہ ہم نے صحافت کا دائرہ اپنی طرف سے اپنی دانست میں وسیع کرکے دور دور تک پھیلادیا ہے فیس بک پر اپنی خواہش اور آرزو کے مطابق رائے دینے والے کو صحافی سمجھ کر اس پر جانبدار ہونے کا الزام لگا تے ہیں حالانکہ وہ اپنی خواہش کا اظہار کرتا ہے اور خواہش میں غیر جانبداری نہیں دیکھی جاتی، خواہش اور آرزو یک طرفہ بھی ہو سکتی ہے اور بسا اوقات ایسی ہی ہوتی ہے، یہ ہماری عمومی غلط فہمی ہے کہ ہم نے ہر لکھنے والے کی ہر تحریر کو صحافت کا درجہ دے کر ابہام پیداکیا ہے اخباری صنعت میں ٹریڈ یونین کا اپنا ضابطہ اخلاق ہے ضا بطہ اخلاق کی رو سے صحافی جب کسی واقعے کی خبر لکھتا ہے تو غیر جانبداری کے ساتھ لکھنا چاہئیے خبر کا رخ کسی کے حق میں یا کسی کے خلا ف موڑ دینا جانبد اری یا بد دیانتی میں شمار ہوتا ہے مثلا ً نائن الیون کی خبر نشر کرتے وقت جن صحافیوں نے خبر کے ساتھ افغانستان کا نام لیا اور فلسطینی عوام کی عید کی تصویریں لگا کر خبر کا رخ مسلمانوں کی طرف موڑ دیا وہ جا نبداری اور بد دیانتی تھی وطن عزیز پاکستان کی صحافت میں بھی اہم واقعات کی رپورٹنگ میں جانبداری کی مثالیں دی جاسکتی ہیں دوسرے ملکوں میں بھی ایساہوتا ہے اب اس ابہام کو ختم ہونا چاہئیے سوشل میڈیا اور اخباری صفحات میں اپنی رائے لکھنے والا ہر لکھاری کو صحافی قرار دینا غلط فہمی کا نتیجہ ہے صحافت باقاعدہ پیشہ ہے اور بہت کم لوگ اس پیشے سے منسلک ہوتے ہیں۔