داد بیداد۔۔۔قصہ پشوری۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
دل پشوری کی طرح قصہ پشوری بھی مستعمل ہے مگر مشہور نہیں ہمارے دوست قاری اسحاق مرحوم پیپل منڈی میں ہوا کر تے تھے وہ کہا کر تے تھے آؤ بیٹھو قھوہ پیو اور قصہ پشوری سن کے جاؤ تم بھی کیا یا د کروگے، قاری صاحب نے 1930کا پشاور دیکھا تھا آج ان کے دوستوں کو اس بات کا دکھ ہے کہ انہوں نے 2004کا پشاور نہیں دیکھا پیپل منڈی، ڈھکی نعلبندی، ڈھکی دالگران، مو چی لڑہ اور قصہ خوا نی میں بجلی کے جو تار جگہ جگہ لٹک رہے تھے وہ زیر زمین چلے گئے آج بجلی ہے تاروں کا ڈر اور خو ف نہیں پشاور کے بزرگ شہریوں کو بہت کچھ یا د ہے جو نئی نسل نے نہیں دیکھی، سحری جگا نے والوں کی نعت خو انی بزر گوں کو نہیں بھولتی، صبح سویرے مشکی ما ما کے ہاتھ سے گلیوں میں پا نی کا چھڑ کاؤ بزر گوں نے نہیں بھولا آج بی آر ٹی میں سفر کر تے ہوئے بزر گوں کو پشاور کا تانگہ بہت یا د آتا ہے تانگہ اگر چہ جدید ترین بس سروس کا مقا بلہ نہیں کر سکتا اور دونوں کا موا زنہ بھی نہیں ہو سکتا اس کے باوجود تانگہ ایک تہذیب اور ثقا فت کی علا مت ہے پشاور کا تانگہ پورے بر صغیر میں مشہور تھا پرانے فلمی گیت میں آتا ہے تانگہ پشوری میرا گھوڑا لا ہوری میرا بیٹھو میاں جی بیٹھو لا لا میں ہوں البیلا تانگے والا، آج بھی اسلا م اباد اور لا ہور کے عجا ئب گھروں میں پشاور کا سجا ہوا تانگہ تاریخی نوا درات میں سے ایک نا در و نا یاب نمو نے کے طور پر مو جو د ہے، یہ وہ تانگہ ہے جس کی دھوم کا بل سے دہلی تک سنی جا تی تھی 1930ء میں ہشتنگری سے صدر کا کرایہ ایک آنہ تھا، چھ سواریاں پوری ہو تیں تو کوچوان اپنے گھوڑے کو تھپکی دیکر کہتا چل میرے شہزادے اور تانگہ چل پڑ تا یہ اُس زما نے کی بہتر ین سواری سمجھی جا تی تھی 40سال بعد 1970میں تانگہ کے کرایے بڑھ گئے اب ہشتنگری سے صدر تک ایک روپیہ ہر سواری سے لیا جاتا تھا یوں چھ روپے پورے ہونے پر تانگہ روانہ ہو ا کر تا تھا اس طرح تانگہ، گھوڑا، کوچوان، لگا م اور چا بک کا ایک الگ کلچر تھا ایک منفرد ثقا فت تھی شہر کے اندر ہشتنگری، نذر باغ، شعبہ بازار، ڈبگری، کا بلی، گنج، سر آسیا، رامداس وغیرہ میں تانگہ سٹینڈ ہوا کر تے تھے جہاں گھوڑوں کے لئے چارہ اور پا نی کا انتظام ہوتا تھا صدر میں سب سے مشہور تانگہ سٹینڈ آج کا سٹیڈیم چوک تھا سنہری مسجد روڈ پر خا لصہ سکول کے سامنے تا نگہ سٹینڈ تھا، لا ل کڑ تی میں تانگہ سٹینڈ تھا اس طرح جگہ جگہ تانگہ سٹینڈ قائم تھے، مضا فات میں رہنے والے شر فا اور خوا نین کے اپنے سپیشل تانگے ہوا کر تے تھے، خوا تین کے لئے تانگوں کے چاروں طرف پردے ہوتے تھے ایک دور تھا جب پبی، شبقدر، جمرود اور چارسدہ سے لو گ تانگوں پر شہر آتے جا تے تھے اُس وقت کا کوچوان بی آرٹی کے سٹیشن منیجر کی طرح اہم آدمی ہو اکرتا تھا ہم نے لڑ کوں، بالوں کو سپیشل تانگہ لیکر مال روڈ پر دوڑا تے ہوئے با رہا دیکھا ہے اکثر کو چوان سواریوں کو لیکر بھی آپس میں تانگے دوڑا نے کا مقا بلہ کر تے تھے، حفیظ جا لندھری کسی شہر کے کو چوان کا ذکر کر ہے سواری بٹھا کر وہ دوسرے کوچوان کے ساتھ مقا بلے پر اتر آیا اس طرح تانگہ دوڑا تے ہوئے خطر نا ک خطرناک رفتار پکڑ نے لگا تو حفیظ جا لندھری نے کو چوان سے کہا بھئی ایسا نہ کرو، یہ خطرناک کام ہے، یہ بات سن کر کوچوان نے گھوڑے کی لگام کھینج لی اور دوسرے کوچوان کو آواز دی ”اگر میری سواری میں تھوڑی غیر ت ہوتی تو میں تمہیں دکھا تا کہ تانگے کی دوڑ کس طرح ہوتی ہے“ تانگوں کے گھوڑے موٹے تازے تندرست بھی ہوا کر تے تھے لاغر اور کمزور بھی ہو تے تھے مضا فات سے شہر آنے والے شرفاء جب کسی کو چوان کے گھوڑے کو پسند کرتے تو کوچوان کو کرا یہ کے ساتھ مناسب انعام دیکر کہتے شا باش بیٹا گھوڑے کا خوب خیال رکھو، اگر میرے دوست قاری اسحاق آج بقید حیات ہوتے تو میں انہیں بی آر ٹی میں شہر سے حیات اباد تک گھما کے لاتا اور ہشتنگری سے شعبہ بازار اور سٹیڈیم چوک تک ماضی کے ہر تانگہ سٹینڈ پر لے جا کر ان کو دکھاتا کہ اب یہاں تانگوں، گھوڑوں اور کوچوانوں کی جگہ موبائل فون کی دکانیں کھل گئی ہیں یہ بھی قصہ پشوری ہے۔