Mr. Jackson
@mrjackson
مضامین

داد بیداد..جھنجھوڑنے والی باتیں..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ نے ری پبلکن پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےسفارتی اداب کو بالائےطاق رکھ کر کھری کھری باتیں کی ہیں جن کو اگر جھنجھوڑنے والی باتیں کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا ان کی پوری تقریر کاخلاصہ یہ ہے کہ نیو ورلڈ آرڈر اخلاقی اقدار کا مجموعہ نہیں تجارتی اصولوں کافارمولا ہے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کا کلیہ ہے،اسرائیل کو امریکہ جو امداد دیتاہے وہ امریکی ٹیکس دہندگان کامال نہیں عرب ممالک سے آیا ہوا مال ہے ہم اپنے پلّے سے اسرائیل کو کچھ نہیں دیتے جب سیاست پر چرچ کی گرفت ڈھیلی پڑگئی تو حکومتیں سیکولر ہوگئیں مذہب کو علحیدہ کرنے کے بعد خداوند ی احکام اور اخلاقی اقدار کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں رہا ایران کے ساتھ ہمارا یہ جھگڑا نہیں کہ اس نے ہمارے اقدار پر حملہ کیا بلکہ اصل جھگڑا چوہدراہٹ کاہے ہم امریکی چودھراہٹ کے سامنے کسی کو دیوار بننے نہیں دیتے پرنٹ اور الیکٹر انک میڈیا میں امریکی صدر کی تقریر کو بڑی پذیرائی ملی ہے ہم پسند کریں یا نہ کریں امریکہ موجودہ زمانے کی ایک حقیقت ہے اس حقیقت سے آنکھیں چرانا منا سب نہیں بلکہ آنکھیں چار کرنا ہی وقت کا تقاضا ہے بین الا قوامی تعلقات کے عمومی تقاضوں کے مطابق کسی بھی ملک کااعلیٰ عہدیدار کھل کر بات نہیں کرتا سفارتی زبان میں اشاروں اور کنایوں کے ذریعے اظہار خیال کرتا ہے صدرٹرمپ نے اپنی عادت اور روایت پر عمل کرتے ہوئے دل کی ہر بات کو زبان پر لاکر عام کر دیا ہے اُن کے ناقدین اس کا برا منائینگے اور ان کے حامیوں کی نظر میں یہ باتیں آنے والے دنوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہونگی ہم لوگ ہزاروں کلو میٹر دور بیٹھ کر امریکی صدر کی باتوں کو عرب قوموں کے لئے بالخصوص اور امت مسلمہ کے لئے بالعموم دعوت فکر اور دعوت بیداری قرار دیتے ہیں جو کچھ انہوں نے کہا وہ ہمیں پسند ہو یا نہ ہو بات سچ ہے مگر بقول پروین شاکر ”بات ہے رسوائی کی“ صدر ٹرمپ کو ہم یہ کریڈٹ دے سکتے ہیں کہ اس نے جھوٹ بولنے کے بجائے سچ بولنے کو ترجیح دی ان کی تقریر میں ایسی کوئی بات نہیں جو ہمارے لئے نئی ہو یا انکشاف کا درجہ رکھتی ہو جو کچھ ہوتا آیا ہے اور جو کچھ ہورہا ہے وہی اس تقریر میں ہے فرق یہ ہے کہ پہلے اس کو راز میں رکھا جاتا تھا اب ان رازوں سے پردہ اٹھا یاگیا جو ہمیں برا لگا، ہم اس کے عادی نہیں فریب کھانے کے عادی ہیں صدر ٹرمپ نے اپنی پارٹی کے اجلاس میں 400سالوں کی تاریخ کے چیدہ چیدہ حوالے دیے انہوں نے کہا کہ 1717میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا قیام عمل میں آیا یہ نئے دور کا آغاز تھا 1778ء میں ڈالر کے نام سے ہماری کرنسی وجود میں آئی جس کو دنیا پر حکمرانی کرنی تھی اس کرنسی کو راستہ دینے کے لئے بڑے انقلاب کی ضرورت تھی چنانچہ 1789ء میں انقلا ب فرانس نے دنیا کو زیرو زبر کر کے ڈالر کو راستہ دیا اس کے بعد دنیا پر دو چیزوں کی حکمرانی قائم ہوئی ایک کا نام دولت ہے دوسری کا نام ذرائع ابلاغ ہے انیسویں صدی نے ہم کو مضبوط ہونے میں مدد فراہم کی، بیسویں صدی کی دو عالمی جنگوں نے ہمیں دنیا کی قیادت کے منصب پر فائز کیا، اکیسویں صدی تک آنے سے پہلے ہم نے دنیا کو نیو ورلڈ آرڈر کا تحفہ دیا اب دنیا نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر عمل پیرا ہے علامہ اقبال نے 100سال پہلے بڑی بات کہی تھی ان کا یہ شعر زبان زد عام ہے ”تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا کہہ ڈالے قلندر نے اسرا ر کتاب آخر“ اگر چہ ہم صدر ٹرمپ کو قلندر نہیں مانتے تاہم ان کی باتوں سے قلندر انہ فکر جھلکتی نظر آتی ہے انہوں نے امریکہ کے حوالے سے 400سالوں کی تاریخ کا ذکر کیا ہے ہم اگر اسلامی سلطنتوں کی 1400سالہ تاریخ کا جائزہ لے لیں تو یہ بات کُھل کر سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کی باہمی لڑائی سے زیادہ نقصان اسلامی سلطنتوں کو کسی دشمن نے نہیں پہنچا یا تین خلفائے راشدین مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے، اموی حکومت کا تختہ مسلمانوں نے الٹ دیا، عباسی حکومت کو مسلمانوں نے طشتری میں رکھ کر تاتاریوں کے سامنے سرنگوں کیا، مرا کش، سسلی اور سپین میں اسلامی سلطنتوں کو مسلمانوں نے خود تہس نہس کر دیا، خلا فت عثمانیہ پر خود مسلمانوں نے شب خون مارا، اکیسویں صدی میں عربوں کی باہمی لڑائیوں نے عراق، لیبیا، شام، تیونس، مصر، یمن، ایران، افغانستان اور وطن عزیز پاکستان کا برا حال کر دیا یہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا ٹرمپ اگر اس کا ذکر لے بیٹھا ہے تو یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے، بیداری کی دعوت ہے مزید تباہی سے بچنے کے لئے جھنجھوڑ نے والی بات اور تنبیہہ بھی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button