315

کسٹم ایکٹ کا نفاذمگر عوام نہیں مانتے۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

مالاکنڈڈویژن کے عوام کی مشکلات ہیں کہ کم ہونے کانام نہیں لے رہی ہیں۔ 28جولائی 2010کوتباہ کن سیلاب آیاتھاجس نے مالاکنڈ ڈویژن بھر کے ا نفراسٹرکچرکوتہس نہس کررکھ دیاتھا یہاں کی سڑکیں، پل،دکانیں،مکانات،بجلی اورٹیلی فون کے نظام سمیت بڑے پیمانے پر سرکاری اور نجی املاک تباہ کن سیلاب کے بے رحم موجوں کے نذرہوگئے تھے۔ سیلاب کاقصہ پارینہ نہیں ہواتھااور اس کی تباہ کاریوں کا خوفناک منظر ابھی ذہنوں میں نقش تھاکہ بدقسمت عوام کے مشکلات کی رہی سہی کسرزلزلہ جیسی قدرتی آفت نے آکرپوری کردی۔یہ تومختصرذکرتھا پچھلے چندسالوں کے دوران جنم لینے والے حالات اور پیش آنے واقعات کاجن کے باعث یہاں کی مقامی معیشت بھی بری طرح متاثر رہی اورعوام گھمبیرمسائل اور سنگین مشکلات میں جکڑے رہے لیکن دوسری جانب اگر وسائل اور مسائل کے تناظرمیں دیکھاجائے توسات اضلاع سوات،بونیر،شانگلہ، مالاکنڈایجنسی،دیرلوئر،دیراپراورچترال پرمشتمل مالاکنڈڈویژن رقبے اور آبادی کے لحاظ سے صوبہ خیبرپختونخوا کا سب سے بڑا مگرسہولیات کے حوالے سے پسماندہ علاقہ ہے ۔حکمرانوں نے یہاں کی ترقی کے وعدے ہر دورمیں کئے ہیں لیکن وہ وعدے کبھی ایفانہ ہوسکے ۔اس وقت سڑکوں اور پلوں کی تعمیر میں بڑاہاتھ پاک فوج کاہے اور دیر لوئر میں خزانہ بائی پاس پل کے ایک حصے کی حال ہی میں تعمیر اس کی واضح دلیل ہے۔انفراسٹرکچرمیں مالاکنڈڈویژن کے عوام جن سہولیات سے محروم ہیں ان میں تعلیم اور طبی سہولیات ،سڑکیں ، سوئی گیس بجلی کی ترسیل وغیرہ قابل ذکر ہیں جبکہ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور کم وولٹیج کے مسائل بھی درپیش ہیں جبکہ یہاں میں روزگارکے بھی ذرائع نہیں ہیں۔ ایسے میں توہونایہ چاہئے تھاکہ عوام کی ان مشکلات اور حالت زارکا احساس کرتے ہوئے حکومت وقت یہاں کی پسمادگی دورکرنے کے لئے خصوصی ترقیاتی منصوبوں اور مقامی معیشت اٹھانے پرتوجہ مرکوزکرتی مگرشائد یہاں الٹاگنگابہتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد جب سوات دیراور چترال کی مقامی ریاستیں پاکستان میں ضم ہوگئی تھیں تب سے لے کراب تک یہاں کسی قسم کابراہ راست ٹیکس لاگونہیں تھااوریہ شائد حکومت پاکستان اوریہاں کے ریاستی حکمرانوں کے مابین کوئی تحریری یازبانی معاہدہ ہی وہ وجہ تھی جس کے تحت اس علاقے کوٹیکس کی چھوٹ دے کرٹیکس فری زون کی حیثیت دی گئی تھی مگراب یہاں کی وہ حیثیت نہیں رہی کیونکہ چندماہ قبل گورنرخیبرپختو نخواکی جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے تحت یہاں کسٹم ایکٹ نافذکردیاگیاہے۔اگرچہ یہ اقدام وفاق نے خیبرپختونخواحکومت کی جانب سے بھیجی گئی سمری کومنظورکراتے ہوئے اٹھایاہے لہٰذاصرف وفاق کو ذمہ دارنہیں ٹہرایاجاسکتابلکہ اس اقدام کاجتناذمہ دار وفاق ہے خیبرپختونخوامیں تبدیلی کی دعویدار اور علمبردارپی ٹی آئی کی صوبائی حکومت بھی اتنی ہی ذمہ دارہے اور یہ کہاجاسکتاہے کہ جب اگلے الیکشن میں یہاں کے عوام ملک کے سیاسی مستقبل کافیصلہ کریں گے تو وہ اس اقدام کے ذمہ داروں کے ساتھ شائد ایک جیساسلوک کرتے دکھائی دیں گے تاہم قطع نظراس کے کہ ایساکیوں ہوا،کس نے کیااور کس کی ایماء پر ہواجبکہ کوئی مانے یانہ مانے مگرحقیقت احوال یہ ہے کہ یہاں عملاََ ٹیکس لاگوہوگیاہے ۔یہاں کے سیاسی جماعتوں،تاجرتنظیموں اور عوامی حلقوں نے شروع دن سے کسٹم ایکٹ قبول کرنے سے انکارکیاتھااور احتجاجی تحریک شروع کردی تھی جبکہ عوامی نیشنل پارٹی نے ڈویژنل گیٹ وے چکدرہ میں اس معاملے پر ڈویژن کے سطح پر ایک کل جماعتی کانفرنس کابھی انعقاد کیاتھا جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین ، منتخب ممبران اسمبلی،تاجر اوروکلاء تنظیموں کے رہنماؤں سمیت ہرمکتبہ فکرسے تعلق رکھنے والوں نے شرکت کی تھی اوران کی وہ تحریک شائد اس وقت طول پکڑتی مگروزیراعظم نوازشریف اوران کے بعدتحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اوروزیراعلیٰ پرویزخٹک کے مالاکنڈڈویژن کے دورے متوقع تھے اور اس امر کودیکھتے ہوئے کہ کسٹم ایکٹ کے نفاذکے اقدام سے عوام میں شدید غم وغصہ پایاجاتا ہے حکمرانوں کے دورے بظاہر یہی پیغام دے رہے تھے کہ وہ شائد اس اقدام کی واپسی کااعلان کرنے آرہے ہیں ان توقعات اور امیدوں کے پیش نظراحتجاجی تحریک بڑی حد تک پس منظرمیں چلی گئی تھی مگروزیراعظم ، وزیراعلیٰ پرویزخٹک اور پی ٹی آئی کے سربراہ نے دوروں کے بعدجب عوام کو مایوسی ہوئی اورانہیں لگاکہ حکمران ان کے دکھوں کامداواکرنے نہیں بلکہ ان کے تازہ زخموں پر نمک ڈالنے کے لئے آئے تھے تواحتجاجی تحریک نے دوبارہ سراٹھاتے ہوئے سیاسی اور تاجر تنظمیوں پر مشتمل انٹی کسٹم ایکشن کمیٹی کوجنم لیاجبکہ صوبائی جنرل سیکرٹری سردارحسین بابک کی سربراہی میں عوامی نیشنل پارٹی اس معاملے پر غوروخوص کے لئے12جولائی کوچکدرہ میں ایک اور اے پی سی بلائی جس میں متفقہ طورپر انٹی کسٹم ایکشن کمیٹی کوفیصلوں کااختیاردیاگیااور بااختیارہونے کے بعد18 جولائی کوفضل رحمان نونو کی سربراہی میں سوات میں ایکشن کمیٹی کے ہونے والے اجلاس جس میں کمیٹی کے تمام ممبران شریک تھے میں چند ایک فیصلے کئے گئے جن کے مطابق 24جولائی کومالاکنڈڈویژن کے تمام منتخب اراکین قومی وصوبائی اسمبلی اور سینیٹرزکا چکدرہ میں اہم اجلاس ہوگا ۔27 جولائی کوڈویژن بھرمیں مکمل شٹرڈاؤن اور5اگست کوپہیہ جام ہڑتال کی جائے گی جبکہ یہ بھی فیصلہ ہواکہ 10اگست کوڈویژن بھرکے عوام وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کارخ کریں گے اور پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاجی دھرنادیں گے۔ایک طرف حکومت کسٹم ایکٹ نافذکرچکی ہے تودوسری جانب سراپااحتجاج عوام اس کی واپسی کے لئے بضد ہیں ایسے میں کیاعوامی احتجاج کے سامنے حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبورہوکر یہ اقدام واپس لے لے گی یاکامیاب ہوگی یہ احتجاج دبانے اور اپنافیصلہ منوانے میں اس کافیصلہ آنے والاوقت کرے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں