339

شادی کے نام پر فراڈ کرنے والے چترالی گینگ کی کاروائیوں کی جوڈیشل انکوائری کرکے ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے ،چوہدری انورحسین

چترال ( محکم الدین ایونی) میر پور آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے چوہدری انور حسین نے وزیر اعظم ، وزیر داخلہ ،چیف جسٹس آف پاکستان ، آئی جی خیبر پختونخوا اور ڈی آئی جی سے پُر زور اپیل کی ہے ۔.کہ شادی کے نام پر اُن کے ساتھ فراڈ کرنے والے چترالی گینگ کی کاروائیوں کی جوڈیشل انکوائری کرکے ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے ۔ تاکہ شریف خاندانوں کی عزتیں نیلام نہ ہونے پائیں ۔ چترال پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ۔ کہ چترال میں حمید احمد ،سید گل نامی لوگوں نے چترال سے تعلق رکھنے والی خورشیدہ بی بی کو اپناقریبی رشتہ دار ظاہر کرکے ایک فراڈ کے تحت دو لاکھ روپے حق مہر کے عوض اُس کے ساتھ نکاح کروایا ۔ اور اپنی ہمراہی میں اُسے میرے گھر میر پور آزاد کشمیر چھوڑ آئے ۔ لیکن تین مہینے بعد میرے لندن جانے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سید گل میری بیوی اور اُس کے والدین جو اس گینگ کے لوگ ہیں ۔ میرے گھر سے سات لاکھ روپے نقد ، ڈھائی ہزار پاؤنڈ ، آٹھ تولے سونا ، قیمتی گھڑی اور تین موبائل چرا کر رفو چکر ہو گئے ۔ اور چترال آکر ایک سازش کے تحت تنسیخ نکاح کا مقدمہ درج کیا ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ میرے ساتھ ابتدا ہی میں دھوکا کیا گیا ۔ کیونکہ اس گینگ خورشیدہ بی کو کنواری قرار دیا تھا ۔ جبکہ اس سے پہلے اُس نے کئی شادیاں کی تھیں ، انہوں نے کہا کہ دستیاب دستاویزات کے مطابق ایک ہی خاتون چھ ناموں سے مختلف واردات کرتی رہی ہے ۔ جس میں پروین ، حسینہ بی بی ، خورشیدہ بی بی ، خورشیتا بی بی اور فاطمہ بی بی جیسے نام شامل ہیں ۔ اس فراڈ کی تما م حقیقت واضح ہوتی ہے ۔ چوھدری انور نے کہا ۔ کہ ہر کسی کو اپنی عزت پیاری ہے ۔ لیکن میں کڑوا گھونٹ اس لئے پی رہا ہوں ۔ کہ اس گینگ کی حقیقت کو لوگوں کیلئے آشکار کروں ۔ تاکہ گینگ کے یہ لوگ مزید چترال کی بہن بیٹیوں کو اپنے نرغے میں نہ پھنسا سکیں ۔ انہوں نے خورشیدہ بی بی کے ان الزامات کی مکمل تردید کی ۔ کہ انہوں نے خورشیدہ بی بی کو اغوا کرایا اور اپنے گھر میں قید میں رکھا ۔ اور مبینہ طور پر اُن کو بغیر نکاح کے رکھا گیا ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ وہ وسائل والا تعلیم یافتہ ، انگلینڈ نیشنلٹی کے حامل علاقے میں اثرو رسوخ کے مالک شخص ہیں ۔اس لئے وہ ایسا کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ نیز اگر انہوں نے خورشیدہ کے الزامات کے مطابق انہیں اغوا کیا تھا ۔ تو انہوں نے واپس چترال آکر اُن کے خلاف عدالت میں تنسیخ نکاح کا مقدمہ کیونکر درج کیا ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے ۔ کہ وہ میری بیوی ہے ۔ اور میں نے شریعت کے مطابق اُن سے نکاح کیا ہے ۔ چوھدری نے کہا ۔ کہ اس خاتون نے اس سے پہلے اٹھارہ شادیاں کی ہیں ۔ اور ہر مرتبہ مختلف ناموں سے گینگ کے مشورے سے نام بدلتی رہی ۔ جس میں اُن کا باپ شیردولم اور والدہ برابر کی شریک ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ یہ خورشیدہ بی بی نہیں بلکہ ایک بہت بڑا نیٹ ورک ہے ۔جس کو انجام تک پہنچانے کا انہوں نے تہیہ کیا ہوا ہے ۔ انہوں نے میڈیا کے سامنے نکاح نامہ ، گینگ کی آپس میں کی گئی ٹیلیفون ریکارڈ ،شناختی کارڈ فارم اور دیگر دستاویزات بطور ثبوت پیش کئے ۔ اور کہا ۔ کہ فراڈ کے تمام ریکارڈ میرے پاس محفوظ ہیں اور میں کسی صورت اُن کو بھاگنے نہیں دونگا ، کیونکہ میری خاندانی عزت تار تار ہوئی ہے ۔ اور میں اُن کو ہر گز چھوڑنے والا نہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ انہوں نے عدالت کو تما م حقیقت سے آگاہ کر دیا ہے ۔ اور اُنہیں امید ہے ۔ کہ عدالت انصاف کا فیصلہ کرے گی ۔ لیکن وہ نتیجہ نکلنے تک یہ مقدمہ چترال کے شریف خاندانوں کیلئے لڑیں گے ۔ چوھدری انور نے کہا ۔ کہ چترال میں بچیوں کی ضلع سے باہر شادی روکنے کیلئے تنظیم دعوت عزیمت کا قیام خو ش آیند ہے ۔ اس میں نیک اور شریف لوگ ہیں ۔ لیکن اس میں کالی بھیڑیں بھی ہیں ۔ جو بھتہ لے کر شریف لوگوں کے خلاف کام کر رہے ہیں ۔ اس لئے اس تنظیم کو اُن ممبران سے ہو شیار رہنا چاہیے ۔ تاکہ بدنامی سے بچ سکیں ۔ انہوں نے خورشیدہ بی بی کی طرف سے لگائے گئے اس الزام کو بھی بے بنیاد قرار دیا ۔ کہ چوہدری انور اُنہیں قتل کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے ۔ اور کہا ہم لوگوں کو زندگی دینے کیلئے کام کرتے ہیں ۔ ہم کسی کے قتل کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ۔ کہ اگر چترال کے باعزت ذمہ دار لوگ خورشیدہ بی بی کیلئے ضمانت دیں ۔ کہ وہ آیندہ ایک شریف گھریلو خاتون کی حیثیت سے اُن کے ساتھ رہے گی ۔ تو وہ اُسے واپس لے جانے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں ۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر مطالبہ کیا ۔ کہ اُنہیں انصاف فراہم کیا جائے ۔ اور اس گینگ کو اُن کے کئے کی سزا دی جائے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں