184

نیا انتخابی شوشہ۔۔۔۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

نیا انتخابی شوشہ آگیا ہے ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ حکومت آنے والے انتخابات کے لئے نگران کابینہ اور نگران حکومت کا سلسلہ ختم کرنے پر غور کررہی ہے موجودہ حکومتیں اپنی جگہ رہینگی اور انہی حکومتوں کے ہوتے ہوئے انتخابات بھی ہونگے پاکستان میں سیاسی بلوغت نہیں ہے جمہوری کلچر نہیں ہے سیاسی نظام مستحکم نہیں ہے جمہوری رویہ اختیار کرنے والے سیاستدان نہیں ہیں ایسے حالات میں نگران حکومتوں کے بغیر انتخابات کی کیا وقعت اور کیا اہمیت ہوگی؟ اس پر غور کرنے اور سوبار سوچنے کی ضرورت ہے پاکستان کا موجودہ معاشرہ جہالت کی اس سطح پر ہے جس سطح پر پتھر کے زمانے میں غاروں کے اندر رہنے والے مردم خور قبائل ہوا کرتے تھے یہ جملہ مبالغہ آرائی پر مبنی نہیں یہ پاکستانی معاشرے ، پاکستانی سیاست اور پاکستانی جمہوریت کی سچی تصویر کشی ہے چار مثالیں سامنے رکھیں امریکہ میں نومبر کے مہینے کی کسی بھی تاریخ کو نئے صدر کا انتخاب ہوتا ہے وہ جنوری کے تیسرے ہفتے تک انتظار کرتا ہے دو ماہ بعد اُس کی حلف برداری ہوتی ہے کیا پاکستان کا کوئی سیاستدان دو ماہ تک انتقالِ اقتدار کا انتظار کرے گا؟ ہرگز نہیں اس کے کارکن انتخابات کے دوسرے دن ایوانِ صدر پر حملہ کرینگے اور سبکدوش صدر کو باہر نکال دینگے یا قتل کرکے اپنا صدر اس کی جگہ بٹھا دینگے بھارت میں انتخابات 8مرحلوں میں ہوتے ہیں 7مرحلوں میں مختلف ریاستوں کے اندر پولنگ ہوتی ہے پولنگ کے بعد ووٹوں کے صندوق ہر ریاست کے ہر پولنگ سٹیشن سے نئی دہلی بھیجے جاتے ہیں ان کو ویر ہاوس میں رکھا جاتا ہے 7مراحل مکمل ہونے کے بعد آٹھویں مرحلے میں ووٹوں کی گنتی شروع ہوتی ہے گنتی کے بعد نتیجہ آتا ہے کیا پاکستان میں اس کا امکان نظر آتا ہے؟سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہمارا سیاستدان پولنگ سٹیشن پر گنتی کو تسلیم نہیں کرتا ریٹرننگ آفیسر کے دفتر میں دو بارہ گنتی کو تسلیم نہیں کرتا وہ ایک ماہ یا ڈیڑھ ماہ بعد اسلام آباد کے مرکزی دفتر میں ہونے والی گنتی کو کیسے تسلیم کرے گایہاں تعلیم کی کمی ہے جمہوری رویوں کا فقدان ہے جمہوری کلچر نہیں ہے ہمارا لیڈر پڑھا لکھا بھی ہو اس کا رویہ ان پڑھوں کی طرح جہالت اور جاہلیت پر مبنی ہوتا ہے تیسری مثال لے لیں افغانستان ،ایران اور ترکی میں انتخابات ہوتے ہیں ایک پارٹی اکثریت لے لیتی ہے مگر اس کے ووٹ 51فیصد فیصد سے کم ہوتے ہیں الیکشن کمیشن دو امیدواروں کے درمیاں رن آف ووٹ کرواتا ہے ساستدان ماں لیتے ہیں کیا ہمارا کوئی لیڈر اس قانون کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہوگا؟ ہرگز نہیں ہمارے کسی بھی لیڈر سے اس جمہوری رویے کی توقع نہیں کی جاسکتی ہمارا کوئی بھی لیڈر اس کو تسلیم نہیں کرے گا چوتھی مثال لے لیں امریکہ میں ہیلری کلنٹن پرائمری ووٹ میں شکست کھا کر صداراتی الیکشن کی دوڑ سے باہر نکلتی ہے مگر باراک اوبامہ صدر منتخب ہوکر ہیلری کلنٹن کو اپنا وزیر خارجہ نامزد کرتے ہیں کیا پاکستان کا کوئی لیڈر اس قسم کے دل گردے کا مالک ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں ! اس کی کوئی امید ہی نہیں کی جاسکتی ایسے حالات میں نگران حکومت کے بغیر انتخابات کو اور انتخابی نتائج کو بھلا کو ن تسلیم کرے گا؟ یہاں وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے پی پی پی اپوزیشن کی بڑی جماعت اور مستقبل کی حکمران جماعت ہے وہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کو کبھی تسلیم نہیں کریگی صوبہ سندھ میں پی پی پی کی حکومت ہے ایم کیو ایم اپوزیشن کی بڑی جماعت ہے خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے جمعیتہ العلمائے اسلام (ف) اپوزیشن کی بڑی جماعت ہے یہ دونوں جماعتیں ان حکومتوں کے ذریعے ہونے والے انتخابات کو تسلیم نہیں کرینگی اس لئے جس نے بھی نگران حکومتوں کے بغیر انتخابات کرانے کا شوشہ چھوڑا ہے اس نے زمینی حقائق کا مشاہدہ نہیں کیا ہمارا کلچر جمہوریت کا کلچر نہیں، جہالت کا کلچرہے جاہلیت کا کلچر ہے اس لئے پاکستان میں نگران حکومت کی نگرانی کے بغیر انتخابی نتائج کو ایک جماعت بھی تسلیم نہیں کرے گی اس کے لئے ہمیں امریکہ ، ترکی ، ایران اور بھارت کے برابر نہ سہی کم از کم افغانستان کے برابر جمہوری رویہ اپنانا پڑے گاورنہ نگران حکومتیں ہمارے مقدر کا حصہ رہینگی اور ہم انتخابات کے لئے نگران حکومتوں کے محتاج رہینگے علامہ اقبال نے آنے والے دور کے سیاسی لیڈروں کی صلاحیت اور استعداد کا اندازہ لگاکر ہماری جمہوریت کو ایک شعر میں یوں بیان کیا تھا
گریز از طرزِ جمہوری غلامِ پختہ کارے شو کہ از مغز دوصد خر فکرِ انسانی نمی آید

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں