207

انقلاب کی آمد آمد۔۔۔۔۔۔پروفیسررفعت مظہر

میاں نوازشریف کی نااِہلی پر ہم بہت خوش تھے کیونکہ پھلتا پھولتا اور آگے بڑھتا پاکستان ہمیں ہرگز قبول نہیں۔ اگر پاکستان میں راوی چین ہی چین لکھنے لگے تو پھر ہم اپنے کالموں کا پیٹ بھرنے کے لیے تڑپتا ،پھڑکتا اور مچلتا مواد کہاں سے لائیں گے اور ہم جیسے لکھاریوں کو گھاس کون ڈالے گا؟۔ ایسی صورت میں تو ہمارے پیارے نیوزچینلز کا کاروبار بھی ایسے ہی ’’کریش‘‘ کر جائے گا جیسے پاناما افراتفری پر اسٹاک مارکیٹ کریش ہوئی۔ تڑپتی پھڑکتی خبر نہ ملنے پرنیوزچینلز پر ایسی ’’بریکنگ نیوز‘‘ چلنے لگیں گی کہ ایک’’ کھوتی ریڑھی‘‘ فُٹ پاتھ سے ٹکرا گئی جس سے ’’کھوتی‘‘ شدید زخمی ہوگئی لیکن ریسکیو ٹیمیں بَروقت امداد کو نہ پہنچ سکیں۔ یا پھر ایسی بریکنگ نیوز کہ چلتی بس کا ٹائر پھٹ گیا ،لوگوں نے سمجھا کہ بم دھماکہ ہو گیا اِس لیے سبھی نے ’’ دُڑکی‘‘ لگادی۔ ایسی بریکنگ نیوز پر بھی نیوزچینلز باہم ’’گُتھم گُتھا‘‘ ہو جائیں گے کہ سب سے پہلے ’’اُس‘‘ نے نیوز بریک کی۔ اِسی لیے ہم خوش تھے کہ چلو میاں نوازشریف کی نااہلی پر جو افراتفری کا عالم ہوگا وہ ہمارے کالموں کا پیٹ بھرتا رہے گا۔
میاں نوازشریف نااِہل تو ہوگئے لیکن فرق ’’کَکھ‘‘ بھی نہیں پڑا۔ وہی مسلم لیگ نون کی حکومت ،وہی وزیر ،وہی مشیر۔ فرق صرف اتنا کہ اب وزیرِاعظم ہاوس ’’جاتی امرا‘‘ منتقل ہوگیاہے جہاں بیٹھ کر میاں نوازشریف حکومت کی باگ ڈور سنبھالے دشمنوں کا مُنہ چڑا رہے ہیں۔ اگر پانچ رکنی بنچ کو کوئی ’’کھڑاک‘‘ کرنا ہی تھاتو وہ پوری نوازلیگ پر ہی پابندی لگا دیتا۔ یہ تو بہرحال بنچ کے دائرۂ اختیار میں ہے کہ جو چاہے اُس کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔ اگر پاناما کی بجائے اقامہ پر میاں نوازشریف کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہے اور اُس فیصلے پر فوری عملدرآمد بھی ہوجاتا ہے تو پوری نوازلیگ پر پابندی لگانے کی صورت میں بھلا کسی کی مجال تھی جو چون وچراں کرتا۔ ایسی صورت میں فیصلہ بھی تاریخ کے پَنّوں پر ’’ڈبل سنہری حروف‘‘ میں لکھا جاتا اور اقوامِ عالم کو بھی پتہ چل جاتا کہ ہماری عدلیہ کتنی طاقتور ہے۔ اب میاں نوازشریف نے اِس فیصلے کے خلاف نظرِثانی کی تین اپیلیں دائر کی ہیں۔ بنچ کے پاس یہ سنہری موقع ہے کہ وہ میاں نوازشریف کو تو نااہل قرار دے ہی چکا ، اب نظرِثانی کی آڑ میں پوری نوازلیگ ہی کو ’’پھڑکا‘‘ دے تاکہ نہ رہے بانس ،نہ بجے بانسری‘‘۔
میاں نوازشریف کی نااہلی کے بعداُن کی مقبولیت نے ہمیں ’’وَخت‘‘ میں ڈال دیا کیونکہ نااہلی کے بعد میاں نوازشریف اپنی مقبولیت کی انتہاؤں کو چھونے لگے اور ہم جَل بھُن کر سیخ کباب ہو گئے۔ جب ہم نے سُنا کہ اسلام آباد سے لاہور تک لاکھوں افراد نے ریلی میں جذباتی شرکت کی اور ہر جگہ میاں صاحب کا والہانہ استقبال ہوا تو قریب تھا کہ ہمیں دِل کا دَورہ ہی پڑ جاتا ۔ لیکن اللہ بھلا کرے ہمارے مُرشد کا ،جنہوں نے بَروقت اعلان فرما کر ہمیں دارِفانی سے کوچ کرنے سے بال بال بچا لیا۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ یہ بھی ’’مُرشد‘‘ کی کرامت ہے جو آج ہم زندہ سلامت ہیں۔ مُرشد نے یہ اعلان فرمایا کہ میاں نوازشریف کی ریلی میں تو صرف پانچ سے سات ہزار تک لوگ تھے۔ہمیں یقین ہے کہ ریلی میں موجود شرکاء کی تعداد پانچ ہزار ہی ہوگی لیکن مُرشد اَز راہِ مروت اِس تعداد کو سات ہزار تک لے گئے ۔ شاید اِس کی وجہ یہ ہو کہ کسی زمانے میں مُرشدشریف فیملی کے ’’نمک خوار‘‘ رہ چکے ہیں اور مروت بھی کوئی شے ہوتی ہے۔حضرت شیخ الاسلام کی دو خوبیوں کا تو ہر کوئی معترف ہے۔ پہلی یہ کہ اُن کا فرمایا ہوا ہمیشہ’’ مستند‘‘ ہوتا ہے اور دوسری یہ کہ اُن کی زندگی میں’’ جھوٹ‘‘ کا دور دور تک نام ونشان نہیں ملتا۔ وہ جو لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ مُرشد ’’جھوٹ بولنے کے نفسیاتی مریض‘‘ ہیں ہمیں یقین ہے کہ یہ بھی مُرشد کے خلاف شریف برادران کی گھناؤنی سازش ہی ہوگی۔ بھلا ایک ہزار ضخیم کتابوں کے مصنف شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری کی زبان سے جھوٹ کیسے نکل سکتا ہے۔
کچھ حاسد اور بَدباطن نون لیگئیے مولانا کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ مولانا ہزار، ہزار صفحات پر مشتمل ہزار کتابیں بھلا محض چھ سالوں میں کیسے تحریر فرما سکتے ہیں جبکہ خود مولانا کے فرمان کے مطابق وہ ایک سال میں چھ ماہ تک تو خطبات کے سلسلے میں ’’اپنے دیس‘‘ سے باہر محوِ سفر رہتے تھے۔ اِس لحاظ سے تو وہ ایک دِن میں ایک کتاب کے مصنف ٹھہرے جو ناممکن ہے ، اِس لیے وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ مولانا اپنے کشف وکرامات کے زور پر ایک دِن میں ایک تو کیا ،100 کتابیں بھی لکھ سکتے ہیں۔ بھائی عطاالحق قاسمی (جن کا میں بہت زیادہ احترام کرتی ہوں) نے اپنے گزشتہ کالم میں مُرشد کی ایک ویڈیو کا ذکر کیا ہے لیکن دست بستہ عرض ہے کہ ہم ایسی ویڈیوز ہرگز نہیں دیکھتے جو مُرشد کے خلاف بطور سند استعمال کی جا سکتی ہوں کیونکہ زانوئے تلمذ تہ کرنے کا یہی تقاضا ہے کہ ہم کسی بھی صورت میں یہ ماننے کو تیار نہ ہوں کہ ’مُرشد‘‘ جھوٹ بھی بول سکتے ہیں۔ ہم اب بھی یہی کہتے ہیں کہ مولانا کے فرمان کے مطابق میاں نوازشریف کی ریلی میں پانچ سے سات ہزار تک ہی ’’بیوقوف لوگ‘‘ شریک تھے۔ یہ تعداد اتنی زیادہ نہیں کہ اُس پر ’’ایویں خوامخواہ‘‘ پریشان ہوا جائے۔ اتنے لوگ تو لال حویلی والے ’’جُماں جنج نال‘‘نے بھی 13 اگست کو لیاقت باغ میں اکٹھے کر لیے تھے۔ اب وہی جماں جنج نال مُرشد کے دھرنے میں شرکت کے لیے لاہور پہنچ چکا ہے حالانکہ پاکستان عوامی تحریک نے اُسے شرکت کی دعوت تک نہیں دی۔
مُرشد کی مقبولیت سے گھبرا کر نون لیگیوں نے لاہور ہائیکورٹ سے حکمِ امتناعی حاصل کر لیا ہے۔ جواز یہ بنایا گیاکہ مال روڈ پر ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق کسی جلسے جلوس یا دھرنے کی اجازت نہیں لیکن
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سَو بار کر چکا ہے تُو امتحاں ہمارا
یہ دھرنا تو ہوگا ،استنبول چوک میں کرسیاں لگ چکیں اور مُرشد کا کنٹینر بھی نئی ٹیپ ٹاپ کے ساتھ وہاں پہنچ
چکا البتہ ہم نے دھرنے میں شرکت کا فیصلہ منسوخ کر دیا ۔ وجہ اُس کی یہ کہ نون لیگ میاں نوازشریف کی نااہلی پر ’’ تَپی‘‘ بیٹھی ہے ۔اِس لیے ہمیں یقین ہے کہ وہ ’’پھینٹی پروگرام‘‘ پر عمل درآمد کے لیے پَر تول رہی ہوگی اور ہمارا فی الحال پھینٹی کھانے کا کوئی پروگرام نہیں۔اِس لیے اب ہم ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر ہی دھرنے میں شرکت کریں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں