345

آوی میں پیش آنے والا دل دہلانے دینے والا واقعہ……… کریم اللہ

حسنہ پروین والد مومن نظار بیگ سب ڈویژن مستوج کے خوبصورت تاریخی گاؤں آوی سے تعلق رکھنے والی دسویں جماعت کی طالبہ تھی ۔گرچہ والدین کی مالی حالت زیادہ بہتر نہیں تھیں پھر بھی انہوں نے اپنی اکلوتی بیٹی کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کا مصمم ارادہ کرچکی تھیں۔ اسی ہی گاؤں میں (چترال کے دوسرے علاقوں ی مانند)موٹر سائیکل سوار آوارہ گردی پر معمور چند ہوباش نوجوان روزانہ کئی دفعہ گاؤں کا چکر لگاتے تھے۔ 8ستمبر 2017ء کی رات حسنہ پروین اچانک گھر سے غائب ہوگئی۔بے چارہ والد بیٹی کو ڈھونڈتے نکلی لیکن گھپ اندھیرے میں اسے کہیں نہ ملنا تھا سو نہ ملی۔اور والد یہ کہتے ہوئے کہ شاید کسی کے ساتھ ان کی دوستی چل رہی ہو اوراسی وجہ سے انہیں گھر سے بھگا کے کسی نے لے گیا ہوگا، کل ضروراس کا پتہ چلے گا یہ سوچتے ہوئے مومن نظار بیگ گھر واپس آئی ۔ اگلی صبح ہوتے ہی وہ انتظار میں بیٹھ گئی کہ کہیں سے اس کے بیٹی کو بھگا کر لے جانے اور شادی کی اطلاع ضرور آئے گی ۔لیکن بیٹی کا کچھ پتہ نہ چل سکی ۔ایسی صورتحال میں والدین پہ کیا بیتی ہو گیاس کا اندازہ کوئی حساس دل انسان ہی لگاسکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں جب ہم نے حسنہ پروین کے والد مومن نظار بیگ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ 8ستمبر کی رات اس کی بیٹی حسنہ کو اسی ہی گاؤں کے چندجوانوں نے اغواء کر کے اپنے ساتھ لے گئے اور انہیں قتل کرڈالا۔انہوں نے بتایا کہ میں نے پولیس میں چار افراد اشتیاق اللہ ولد سید موسی خان سکنہ میراگرام نمبر 2یارخون، نوید الرحمن ولد سید وزیر شاہ سکنہ کروئے گلوغ آوی، شہزادہ آمین ولد شہزادہ عرب اورفیاض احمد ولد شاریکی خان سکنہ کروئے گلوغ آوی کے خلاف اغوا ء اور قتل کے مقدمات درج کئے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ چونکہ ان کی بیٹی کو گھر سے اغواء کرکے لے جایا گیا اور ان ہی کے علاقے میں وہ قتل ہوئے ۔پوسٹ ماٹم رپورٹ کے حوالے سے انہوں نے بتا یا کہ ابھی تک وہ رپورٹ مجھے نہیں ملی ہے کیونکہ یہ معاملہ پولیس تفیتش میں ہیں لہذا پوسٹ ماٹم رپورٹ بھی اسی تفتیشی ٹیم کے پاس ہے ۔ اس سلسلے میں ہم نے اپنے ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اس ظلم وناانصافی کا کھوج لگانے کی کوشش کی۔ہمارے ذرائع کے مطابق جب جوانی کے جوش میں مدہوش آوی کروئے گلوغ سے تعلق رکھنے والے ان نوجوانوں نے اس بیچاری لڑکی کو شادی کا جھانسہ دے کر رات کی تاریکی میں اپنے گھر پہنچا یاتو گھر والوں نے نام نہاد ناموس وغیرت کے بہانے ان کا نکاح پڑھا کر شادی سے مکر گئے۔ جس کی وجہ سے رات کی تاریکی ہی میں ان لڑکوں نے اسے بعض ذرائع کے مطابق چرون اویر اور بعض کے مطابق موردیر لے جایا گیا۔اس کے بعد کیا ہوا کسی کو کچھ پتہ نہیں البتہ کہا یہ جارہا ہے کہ اگلی صبح دوپہر کے وقت بونی سے آوی کی طرف آتے ہوئے اس لڑکی کو دیکھا گیا ان کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ پھر چند گھنٹو ں بعد ان کی لاش دریائے یارخون کی بے رحم لہروں نے آوی لشٹ کے صحرا میں نکالا،جبکہ لڑکی کی روح کب کے پرواز کرچکی تھیں۔ رات کی تاریکی میں اس معصوم لڑکی کے ساتھ کیا کچھ ہوتا رہا ۔کیاوہ جنسی ہوس میں پاگل پن کا شکار انسان نما درندوں کے ہاتھوں گینگ ریپ کا نشانہ بنی ؟ کیا اسے تشدد کا نشانہ بناکر دریا میں پھینکا گیا کچھ بھی علم نہیں۔بونی تھانے میں فون کرکے اس کیس سے متعلق دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ چونکہ ڈی پی او چترال کی قیادت میں ایک جے آئی ٹی اس کیس کی تفتیش کررہی ہے اور اس کیس میں زیر تفتیش چار ملزماں کے خلاف پرچہ بھی کاٹا گیا لیکن ایف آئی آر کی نوعیت سے متعلق پولیس حکام نے کچھ نہیں بتایا۔آوی میں پیش آنے والے اس دلخراش واقعے کو دو ہفتے بیت گئے ہیں لیکن اس کیس میں ابھی تک کسی قسم کی پیش رفت کی اطلاع نہیں۔ یہاں بنیادی طورپر چارمختلف نوعیت کے کیسزبن سکتے ہیں ۔ لڑکی کو گھر سے اغواء کرکے اپنے ساتھ لے جانے ، ان کو جنسی طورپر ہراسان کرنے (بعض ذرائع سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس لڑکی کے ساتھ مبینہ طور پر گین ریپ ہوئی ہے)،تشدد اورپھر قتل کرنے کے ۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ پولیس حکام کی جانب سے ابھی تک پوسٹ ماٹم رپورٹ کیوں ان کے والد کو نہیں دی گئی ہے ؟ کیا ریپ کی تفیتش کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ بھی کی جائے گی ؟پوسٹ ماٹم رپورٹ کو منظر عام پر نہ لانے میں کہیں کوئی سیاسی دباؤ تو نہیں ۔ البتہ لڑکی کے والدمومن نظار بیگ نے ان افواہوں کو یکسر مسترد کردیا جس میں یہ کہا جارہا ہے کہ اس کیس کے حوالے سے ان پر سیاسی دباؤ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایسی کوئی دباؤ کا ہمیں سامنا نہیں اور یہ باتین سراسر جھوٹ پر مبنی ہے ۔یہ کیس چترال پولیس کے لئے کڑا امتحان ہے ۔گزشتہ دوہفتوں میں اس کیس میں کیا پیش رفت ہوئی ؟پوسٹ ماٹم رپورٹ منظر عام پر لانا ،مزید دریچے کھولنے کے لئے تفتیش کا دائرہ کار بڑھانا اور ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج کووقت مقررہ پر منظر عام پر لانا چترال پولیس کی بنیادی ذمہ داری ہے اس سے وہ کس حد تک عہدہ براء ہوسکتے ہیں ، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ البتہ ماضی قریب و بعید میں چترال کے طول وعرض میں جنم لینے والے ایسے جرائم کا ابھی تک کوئی سراع نہ مل سکا۔ جس کی وجہ سے چترال پولیس پر سے عوام کا اعتماد اٹھتا جارہاہے ۔ اس ساری دل دھلا دینے والے واقعے میں جہاں والدین کی تربیت اور بے جا لاڈلا پن کا عمل دخل نمایاں نظر آتا ہے وہیں نام نہاد غیرت وناموس بھی اس معصوم لڑکی کی جان لینے والوں میں شامل ہے۔جن چار نوجوانوں کو اس کیس میں بطور ملزم پکڑا گیا ہے اس کے علاوہ ان کا خاندان بھی اس ظلم میں برابر کے شریک ہے۔ کیونکہ اگر ان کو بھگاکر لانے کے بعد ان کا نکاح پڑھایا جاتا تو شاید اس اندوہناک واقعے کی نوبت ہی نہ آتی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں