210

صدابصحرا ۔۔۔خدمت یا حکومت ۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ

کوئٹہ میں نوجوانوں کے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو ٹوک الفاظ میں اپنا موقف دہرایا ہے کہ فوج کو حکومت کرنے کا کوئی شوق نہیں فوج آپ کی خدمت کے لئے ہے حکومت کرنا سیاستدانوں اور منتخب نمائیندوں کا کام ہے مگر منتخب ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ منتخب ہونے والا قانوں کو پاوءں تلے روندے اور اپنی من مانی کرے (خدا ناخواستہ ایسا ہوا توحکومت واجب ہو جائیگی ) بعض اوقات اصل بات قو سین میں لکھی جاتی ہے وطن عزیز پاکستان میں دو باتیں ہمیشہ متنازعہ رہی ہیں حالانکہ دونوں میں تنازعہ والی کوئی بات نہیں ایک بحث یہ ہے کہ قائد اعظم مذہبی ریاست چاہتے تھے یا سیکولر ریاست کے علمبردار تھے اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے اگر قائداعظم مذہبی ریاست کے علمبردار ہو تے تو متحدہ ہندوستان کے علمائے کرام ضرور مسلم لیگ کا ساتھ دیتے مسلم لیگ کے مقابلے میں کانگریس کا ساتھ کبھی نہ دیتے پس بات واضح ہے قوسین میں لکھا جانا چاہیے کہ قائدا عظم سیکولر پاکستان چاہتے تھے جہاں تمام مذاہب اور فرقوں ،مسلکوں کے لوگ امن اور محبت سے زندگی گذار سکیں دوسری بحث یہ ہے کہ جمہوریت اچھی ہے یا آمریت ؟اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ 70 سالوں میں پاکستانی قوم نے جمہوریت کا کوئی تجربہ نہیں کیا ،دو قسم کی آمریتیں ہی دیکھی ہیں ’’ سول آمریت اور فوجی آمریت ‘‘ایک زمانہ تھا جب ہماری فوجی چھانیوں میں وردی کو خاکی اور سول کو مفتی کہا جاتا تھا اب زمانہ بدل گیا کسی بڑے سکول، ہسپتال ،مسجد یا مارکیٹ میں خودکش دھماکہ ہو جائے ،دہشت گردی کی واردات ہوجائے تو سہولت کاروں میں مفتی کا نام آتا ہے اسلئے مفتی کا لفظ معتبر نہیں رہا اب سول اور ملٹری کے الفاظ چل رہے ہیں جمہوریت پسندی کے حوالے سے بے شمار لطیفے اور حکایتیں مشہور ہیں پولینڈ کی ایک حکایت کا بڑا چر چا ہے یہ اس وقت کی بات ہے جب پولینڈ میں کمیونسٹ حکومت تھی اور سٹالن کے دور جیسا سخت گیر نظام تھا ایک بچے نے سکول میں آکر اپنے استانی کو بتایا کہ ہماری بلی نے چار بچے دیئے ہیں چاروں کٹر کمیونسٹ ہیں استانی بہت خوش ہوئی ایک ہفتہ بعد انسپکٹر آیا تو استانی نے اس بچے کو بلایا اور کہا کہ بلی کے بچو ں والا قصہ سناؤ بچے نے کہا سر !ہماری بلی نے چار بچے دئیے ہیں اور چاروں کے چاروں جمہوریت پسند ہیں ٹیچر نے کہا ،ایک ہفتہ پہلے تم نے کہا تھا وہ کمیونسٹ ہیں بچے نے معصومیت سے جواب دیا پہلے آنکھیں بند تھیں اب چاروں کی آنکھیں کھل گئیں ہیں یہ حال ہمارے جمہوریت پسندوں کا ہے مگر ان کا مسئلہ یہ ہے کہ جمہوریت کا کوئی نمونہ انکے سامنے نہیں ظاہر ہے پڑوسی ملک سے نریندر مودی کی جمہوریت ہم درآمد نہیں کر سکتے اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ہم امریکہ سے جمہوریت کا چر بہ لاکر اپنے ہاں چلائیں برطانیہ کا سسٹم بھی ہمیں راس نہیں آئے گا بھارت میں اگر چائے فروش کا بیٹا وزیر اعظم بنتا ہے تو برطانیہ میں بس ڈرائیور کا بیٹا سٹی میئر منتخب ہوتا ہے اس قسم کے انتخابات ہمیں راس نہیں آتے ہمارے انتخابات کا تجربہ ہی نرالا ہے ایک وزیر نے حلف اُٹھانے کے بعد دفتر میں قائد اعظم کی تصویردیکھ کر سیکرٹری کو حکم دیا اس کی جگہ میری تصویر لگا دو ایک اور منتخب وزیر کا قصہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں موصوف نے ایک ٹھیکہ دار کے ساتھ 10 کروڑ کے پراجیکٹ میں 20 لاکھ روپے کمیشن طے کیا اور فائل پر لکھا ’’منظور ‘‘تین دن انتظار کے باؤ جود ٹھیکہ دار نے 20لاکھ نہیں بھیجے ’’وزیر بے تدبیر ‘‘پریشان ہوا چپڑاسی نے پریشانی کی وجہ پوچھی وزیر نے وجہ بتائی تو چپڑاسی نے کہا فائل منگواکر منظور سے پہلے نا لگا کر نا منظور لکھو وزیر موصوف نے ایسا ہی کیا ٹھیکہ دار کو معلوم ہوا تو پیسے لیکر دوڑا دوڑاآیا وزیرنے ’’حق حلال کی کمائی‘‘وصول کر کے فائل واپس منگوائی اور چپڑاسی سے پوچھا اب کیا حکم ہے ؟چپڑاسی نے کہا ’’شرط بنا منظو ر ‘‘لکھو نا منظور سے پہلے ’’شرط ب ‘‘لگا دو چنانچے بغیر شرط کے فائل منظور ہوگئی آرمی چیف کا بیان ایسے وقت پر آیا ہے جب پاکستان میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں نے ملکر پاک فوج کے لئے حکومت کا راستہ ہموار کیا ہے مگر فوج حکومت کی جگہ خدمت پر یقین رکھتی ہے کیا حکومت کے ذریعے خدمت نہیں ہو سکتی ؟ ہمارا 70سالہ تجربہ یہی ہے کہ حکومت کے ذریعے خدمت نہیں ہو سکتی ہمارے ہاں حکومت کو ہر دور میں خدمت کی ضد کے طور پر دکھا یا گیا ہے مرزا غالب نے کہا
چلتا ہو ں تھوڑی دور ہر ایک راہروکے ساتھ
پہچانتا نہیں ابھی رہبر کو میں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں