400

مذہبی ہم آہنگی، رواداری اور پر امن بقائے باہمی..چترال کے خصوصی تناظر میں ۔۔۔۔۔تحریر:ڈاکٹر ظہیر الدین بہرام

نو (9) دسمبر 2017ء بروز بدھ اسماعیلی فرقے کے روحانی پیشوا اور انچاسویں امام شاہ کریم الحسینی آغا خان چہارم نے چترال کا دورہ کیا اور دو مقامات گرم چشمہ اور بونی میں اپنے پیروکاروں کو دیدار کا شرف بخشا۔ دونوں مقامات پر اپنے پیروکاروں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے تعلیم کی اہمیت پر زور دیا اورامن وامان کو علاقے کی ترقی کے لئے ناگزیر قرار دیا اور کہاکہ اسلام امن ومحبت کا دین ہے اور ہمیں اسے دوسروں تمام چیزوں پر مقدم رکھنا چاہئے۔

پرنس کریم آغا خان اس سے قبل بھی  کم از کم دو مرتبہ چترال کا دورہ کرچکے ہیں لیکن اس مرتبہ ان کے دورے کی خاص بات یہ تھی کہ اسماعیلی برادری  کے ساتھ ساتھ سنی مکتب فکر کے لوگوں نے  بھی ان کا پرتپاک استقبال کیا اور  اسماعیلی برادری کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے سر آغا خان کے لیے تہنیتی بیانات اور خیر مقدمی پیغامات کا سلسلہ دورے سے کافی پہلے سے شروع کیا ہوا تھا۔ اس سلسلے میں نہ صرف سنی مسلک کے سیاسی وسماجی شخصیات نے مثبت کردار ادا کیا بلکہ اہل سنت کے دینی جماعتوں اور  اکثر علماء کی طرف سے بھی انتہائی رواداری اور وسعت نظر  کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ رواداری اور بھائی چارہ اس بہتریں ماحول میں دونوں مکاتب فکر کے چند نادان عناصر کی طرف سے غیر ذمہ دارانہ بلکہ مجرمانہ رویے کے اظہار نے ماحول کو  وقتی طور پر کشیدہ بنایا ہوا ہے۔ امید ہے کہ چترال کے باشعور لوگ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے امن و امان،  بھائی چارہ اور رواداری کے ماحول کو یقینی بنائیں گے۔

اس سلسلے کا آغاز اسماعیلی طبقے کی طرف سے سوشل میڈیا پر کھل کر  اپنے امام کے لیے ایسے جذبات کا اظہار کیا گیا  اور  ایسے القابات واصطلاحات  کا استعمال کیا گیا جو اسماعیلیوں  کے ہاں تو شاید حاضر امام کے ساتھ عقیدت اور  محبت کا اظہار تھا لیکن اس میں اہل سنت والجماعت والوں کے لیے دل آزاری اور اشتعال دلانے  کا پورا سامان موجود تھا کیونکہ وہ ایسے جذبات صرف ابنیاء کے لیے رکھتے ہیں اور کسی بھی دوسری شخصیت کے لیے  ان اصطلاحات اور القاب کے استعمال کو جائز نہیں سمجھتے۔ اس لیے اہل سنت کی طرف سے عمومی طور پر جذبات کے اظہار کے اس انداز اور انبیاء کے لیے مخصوص القابات کو امام کے لیے استعمال پر  ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا اور  بعض لوگوں کی طرف سے ردِ عمل میں مظاہروں اور سوشل میڈیا پر جوابی تبصروں کی صورت میں سامنے آیا۔

اس سلسلے میں دونوں مکاتب فکر کے پیروکاروں اور ان کے زعماء کے لیے چند باتیں  قابل توجہ ہیں:

  • سب سے اہم بات یہ ہے بلا شبہ شان رسالت تمام مسلمانوں کے لیے سب سے اہم امر ہے اور تمام اہل ایمان حرمت رسول ﷺ کے لیے جان دینے اور لینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے عقیدت اور محبت ہر مسلمان کے ایمان کا تقاضہ ہے۔ عام حالات میں بھی کوئی انسان اپنے محبوب ترین ہستی کے بارے میں کوئی بری بات برداشت نہیں کر سکتا تو جس ہستی کے لیے محبت کے ساتھ  ساتھ عقیدت کا جذبہ بھی ہو اور اس سے محبت ایمان کا حصہ بھی ہو تو اس  ہستی کے بارے میں کوئی توہین آمیز بات یا حرمت کے منافی رویہ کیسے قابل برداشت ہو سکتا ہے۔ لہذا کسی مسلمان سے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے کہ وہ شان رسالت کے بارے نرمی دکھائے یا حرمت رسول ﷺ کے منافی بات پر خاموش رہے۔
  • کسی مسلمان کے لیے رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر عقیدت اور محبت کسی بھی ہستی کے لیے جائز نہیں۔ کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا فیصلہ ہے جس کے سامنے نہ اپنی مرضی چلتی ہے اور نہ کوئی اور  جذبہ کام آتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ  کا فرمان ہے:

قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ ﴿االتوبة ٢٤ترجمہ: اے نبیؐ، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما ئے ہیں، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔

ایکاور آیت میں ارشاد ربانی ہے: النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ . . .  ﴿الأحزاب ٦﴾  ترجمہ: بلاشبہ نبی تو اہل ایمان کے لیے اُن کی اپنی ذات پر مقدم ہے۔

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللّه عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: “لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكونَ أحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِه وَالنَّاسِ أَجْمَعينَ“. متفق عليه.

ترجمہ: انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں تم میں سے کسی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوگا جب تک میں ان کے لیے ان والدین، بچوں اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ بنوں۔

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ، أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ.” صحيح البخاري كِتَاب الْإِيمَانِ حدیث رقم ۱5

ترجمہ: انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس انسان کے اندر تین صفات پائے جائیں تو وہ ایمان کی حلاوت کو پا گیا، ایک یہ کہ اس کے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ﷺ سب سے زیادہ محبوب  ہستیاں ہوں، اور جس سے بھی محبت کرے صرف اللہ کے لیے محبت کرے، اور کفر میں واپس جانے کو اتنا ناپسند کرے جتنا کوئی آگ میں ڈالے جانے کو نا پسند کرتا ہے۔

عن عبدالله بن هشام أن عمر بن الخطاب قال للنبي صلى الله عليه وسلم “لأنت يا رسول الله أحب إليَّ من كل شيء إلا من نفسي”، فقال: “لا والذي نفسي بيده، حتى أكون أحب إليك من نفسك”، فقال له عمر: “فإنك الآن والله أحب إليَّ من نفسي”، فقال: “الآن يا عمر”.

ترجمہ: عبد اللہ بن ھشام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ  سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ یقینا آپ میرے لیے میری جان کے علاوہ ہر  چیز سے زیادہ محبوب ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ نہیں مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے جب تک میں تیرے لیے تمہاری نفس سے بھی زیادہ  تمہیں محبوب نہ ہوں  (تو تیرا ایمان  کامل نہیں ہوگا)، تو سیدنا عمر نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ اب آپ میرے لیے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہستی ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر  (رضی اللہ عنہ) اب ٹھیک ہے (تم نے صحیح رویہ اپنایا)۔

ان واضح قرآنی  آیات اور احادیث  کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کسی مسلمان کے دل میں کسی بھی شخصیت یا چیز  کے لیے  رسول اللہ ﷺ سے زیادہ  محبت وعقیدت اور ایمان یکجا نہیں ہو سکتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ پر ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے سب سے بڑھ کر  ان سے عقیدت و محبت کا اظہار کیا جائے ورنہ ان ﷺ  پر ایمان کا دعویٰ صحیح نہیں سمجھا جائے گا۔

  • یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ کس چیز کو گستاخئ رسول ﷺ قرار دیا جائے اور کس بات کو حرمتِ انبیاء (بشمول  رسول اللہ ﷺ)کے منافی کہا جائے؟ شان رسالت میں بدکلامی، معروف معنوں میں توہین کا ارتکاب اور گالم گلوچ (العیاذ  باللہ)  کو گستاخئ رسول ﷺ  کہنے میں کوئی کلام نہیں  اور اس کے مرتکب کو توہین رسالت کا مجرم قرار دینے میں کسی کو ابہام نہیں، نیز  اس کے نتیجے میں مسلمانوں کا مشتعل ہونا اور فوری طور پر  انتہائی سخت رد عمل کے اظہار کو بھی ایک فطری امر اور جذبہ ایمانی کا تقاضا  کہنے میں کوئی ابہام نہیں۔  جرم کا ارتکاب ثابت ہوجائے تو گستاخئ رسول کے  ملعون مرتکب  کو اپنی بات سے رجوع کرنے کا موقع بھی نہیں دیا جا تا بلکہ اسے نشان عبرت بنایا جاتا ہے (فتح مکہ کے موقع پر توہین رسالت کے مجرمین کو عام معافی سے مستثنی قرار دینا اور غلاف کعبہ میں بھی پناہ لینے کے باوجود ان کو قتل کرنے کا حکم اس کی واضح مثال ہے)۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا محض انکار کرنا   توہین رسالت نہیں  گردانا جاتا ہے اور نہ ہی نبوت کا جھوٹا دعوی کرنا گستاخئ رسول ﷺ کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح اگر توہین رسالت کا ارتکاب واضح نہ ہو یا جہاں تاویل کا امکان موجود ہو  تو محض شبہہ کی بنیاد پر کسی کو گستاخ رسول قرار دے کر اس کے خلاف کار روائی نہیں  کی جاتی ہے۔
  • اس تفصیل میں جانے کی کوئی ضرورت کہ اسماعیلی مکتب فکر کے کیا نظریات ہیں اور حاضر امام کے ساتھ ان کی عقیدت اور محبت کا معیار اور مقدار کتنا ہےکیونکہ جاننے والے بہت کچھ جانتے ہوں گے اور تحریروں میں اس کا کسی نہ کسی صورت میں اظہار بھی ہوتا ہوگا جو دیگر مکاتب فکر کے نزدیک امام کے بارے میں حد درجہ  غلو اور غلط عقاید گردانے جاتے ہوں گے،  تاہم ان کے علانیہ موقف کے مطابق امام روحانی پیشوا اور مذہبی رہنما ہیں اور اسی حوالے سے ان کے پیروکار ان سے عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے فرامین پر عمل کرنے کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔لہذا  تمام تر خدشات اور  الزامات کے باوجود اسماعیلی فرقے کے لوگ کے دیگر فرقوں کی طرح مسلمانوں  میں شمار کیے  جاتے ہیں اور قانونا مسلمان ہی کہلاتے ہیں۔ لہذا  کسی انفرادی عمل اور  ایک آدھ غیر ذمہ دارانہ  حرکات کو بنیاد بناکر پوری برادری کو مجرم گردانا درست رویہ نہیں۔
  • چند ماہ قبل شاہی جامع مسجد چترال میں جب ایک اسماعیلی شخص کی طرف سے پیغمبری کا  جھوٹا دعویٰ کرنے کا واقعہ وقوع پذیر ہوا تو اس وقت بھی کچھ لوگوں نے اس کو گستاخئ رسول ﷺ قرار دے دیا تو راقم الحروف نے کئی تحریروں کے ذریعے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ نبوت کا دعویٰ بذات خود بہت بڑا جرم ہے لیکن اس کویکسر  گستاخئ رسول ﷺ قرار دینا صحیح نہیں۔ کیونکہ توہین رسالت کی صورت  میں فوری رد عمل کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا  نہ ہی  مجرم کو رجوع کرنے  کا موقع فراہم کرنا ضروری ہوتا ہے، جبکہ نبوت کے  جھوٹے دعویدار  کو قانونی مراحل سے گزارے بغیر  اور توبہ کا موقع فراہم کیے بغیر سزا دینے کا کوئی تصور نہیں۔
  • انبیاء علیہم السلام کے علاوہ کسی کے لیے ‘‘علیہ السلام’’ کے کلمات استعمال کرنے  کا مسئلہ تو پہلے سے اختلافی ہے۔ اہل تشیع  دختر رسول ﷺ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کی اولاد اور اپنے ائمہ کے لیے علیہ السلام استعمال کرتے ہیں جبکہ  جمہور اہل سنت کے نزدیک یہ اصطلاح انبیاء کے لیے مخصوص ہے۔ اب معاملے کی نزاکت کو جاننے کے باوجود  سر آغا خان کے لیے علیہ السلام کے الفاظ کا استعمال موقع محل کی مناسبت سے اشتعال انگیز  اور اہل چترال کی سنی اکثریت کے لیےباعثِ دل آزاری ہونے کی وجہ سے ایک غلط اور غیر دانشمندانہ حرکت تھی (اور اگر جان بوجھ کر یہ حرکت کی گئی ہے تو اس کو حالات خراب کرنے کی سازش بھی کہی جا سکتی ہے)، تاہم  اس فعل  کو انبیاء علیھم السلام  کی صریح توہین قرار دینا محل نظر ہے کیونکہ مختلف مکاتب فکر کے درمیان اختلافی مسئلے کے بارے میں حتمی رائے دینا  حکمت اور مروجہ مذہبی و اخلاقی اقدار  کے خلاف بات ہے۔
  • اسی طرح دونوں جہانوں کا سردار (سرکار دو عالم)  کا لقب مسلمانوں کی غالب اکثریت کے نزدیک صرف رسول اللہ ﷺ کے لیے مختص ہےاس لیے کسی اور کے لیے اس کا استعمال مسلمان معاشرے میں ناقابل قبول ہے۔ اب کوئی شخص نادانی میں ہز ہائی نس آغا خان کے لیے یہ لقب استعمال کرتا ہے تو اس کو بھی اکثریت کے لیے دل آزاری کا باعث اور فتنے کو دعوت دینے کے مترادف سمجھا جائے گالیکن اس کو  براہ راست توہین رسالت قرار دینا کچھ لوگوں کے نزدیک انتہائی اقدام ہے۔
  • چند اور امور بھی متنازعہ اور فتنہ انگیزی قرار دیے جا رہے  ہیں جن میں اسماعیلیوں پر اپنے امام کے بارے میں مبالغہ آرائی کرتے ہوئے شرکیہ کلمات کا کھلے عام اظہار الزام لگایا گیا ہے۔
  • یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اسماعیلی برادری کے لوگ اگر ان امور کو  اپنے حلقوں تک محدود رکھتے تو یقینا کسی کو بات کرنے کا موقع نہ ملتا لیکن جب کھلے عام ایسی باتیں کی جائیں تو پھر لوگوں کو اہلِ ایمان کے عقاید اور طرز عمل کے منافی باتوں کے  بارے میں سوالات اٹھانے سے کیسے منع کیا جا سکتا ہے۔ اب جو کام نہیں چاہیے تھا  وہ ہو چکا ہے۔ اس غلط کام کو نظر انداز کرنا اگر ممکن نہیں تھا تو  سوشل میڈیا پر طعن و تشنیع، مظاہروں اور ہڑتالوں کے بجائے قانونی کار روائی پر توجہ مرکوز کی جاتی تو اچھا ہوتا  کیونکہ اس سے معاملہ مذہب کے دائرے سے نکل کر سیاست کے حدود میں داخل ہونے کے خدشات جنم لیتے ہیں۔
  • یہ بات خوش آئند ہے کہ اطلاعات کے مطابق اسماعیلی برادری کی طرف سے بھی ان انفرادی حرکات سے براءت اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے اور اہل سنت کے سنجیدہ لوگ بھی معاملے کو خوش اسلوبی سے نمٹانے  کی کوشش کر رہے ہیں اور حالات کو خرابی سے بچانے کے لیے  مخلصانہ جد و جہد کر رہے ہیں نیز  انتظامیہ بھی فعال نظر آ رہا ہے۔ اس لیے قوی امید ہے کہ چترال کے پر امن ماحول کو مکدر ہونے نہیں دیا جائے گا۔ اب بات بات پہ اشتعال انگیزی اور شدت پسندی سے احتراز  کرنا چاہیے اور سازشی عناصر کو کشیدہ صورتحال سے فائدہ اٹھاکر فرقہ وارانہ فسادات بپا کرنے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔ چترال میں پہلے بھی سنی اسماعیلی فساد غلط فہمیوں اور پروپیگنڈے کی وجہ سے رونما ہوئے تھے  اور لوگ اس کے پیچھے سیاسی عوامل کا برملا اظہار کرتے تھے، اور اب بھی،  اللہ نہ کرے،   اگر کوئی فتنہ فساد پیدا ہوتا ہے تو اس کو مذہبی سے زیادہ سیاسی رنگ دیا جائے گا۔
  • یقینا لوگوں کو مذہبی معاملات میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور مذہب جیسے حساس امور میں غیر ضروری مہم جوئی سے احتراز کرنا چاہیے۔ اس معاملے میں کسی کے کوئی رعایت نہیں برتنی چاہیے اور سب کو قانون کے مطابق جوابدہی کے عمل سے گزارنا چاہیے لیکن بلا وجہ کی شدت پسندی اور اشتعال انگیزی ٹھیک نہیں۔
  • امن و امان قائم کرنا اور رواداری کا مظاہرہ کرناکسی ایک فریق پر لازم نہیں بلکہ یہ معاشرے کے ہر فرد کی ضرورت اور سب کی ذمہ داری ہے۔ فتنہ کھڑا کرنا  بہت آسان کام ہے اور اس کے محرک چند لوگ ہوتے ہیں لیکن  فتنے اور انتشار کا نقصان پورے معاشرے کو  بھگتنا پڑتا ہے۔  ناموس رسالت پر تو کوئی سودا بازی ہو سکتی ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی کو  رعایت نہیں دی جا سکتی لیکن اگر  توہین رسالت یا گستاخئ رسول ﷺ کا ارتکاب واضح نہ ہو یا جہاں تاویل کی گنجائش موجود ہو تو انتہائی ردِعمل اور  اشتعال انگیزی سے اجتناب برتنا چاہیے، تاہم  معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے قانونی کار روائی اور  اجتماعی  گرفت  بھی ضروری ہے۔

اللہ تعالی اپنے دین کا صحیح فہم ، اس پر عمل کی توفیق اور اس کو دوسروں تک پہنچانے  کا موقع نصیب فرمائے۔ اور وطن عزیز کے اس پُر امن ترین خطہ چترال کی امن و امان اور مذہبی رواداری  کو برقرار رکھے۔ آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں