207

عوام حکومتی پالیسی پر ریفرنڈم کر چکے…۔عرفان مصطفٰی صحرائی

ملک بھر میں تاجروں کی کامیاب ہڑتال کے باوجود حکومت ”میں نہ مانوں“کی رٹ لگائے بیٹھی ہے۔حالانکہ ملک بھر میں تاجروں کی ہڑتال کو روکنے یا ناکام بنانے کے لئے وزیر اعظم نے دس رکنی کمیٹی بنائی،جو بُری طرح ناکام ہوگئی۔پنجاب میں وزیر صنعت و تجارت میاں اسلم اقبال کی سربراہی میں قائم اس کمیٹی میں کئی وزیر اور مشیر شامل تھے،جنہیں وزیر اعظم کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے ہڑتال کو کسی طرح سے ناکام کرنے کا کام سونپا گیا تھا،لیکن ان وزراء اور مشیران کی قابلیت اور اہلیت نالائقی کی صورت میں بار بار سامنے آ چکی ہے۔تاجروں کا اتحاد اتنا طاقت ور ثابت ہوا کہ تحریک انصاف کے اہم رہنما اپنے آبائی شہروں میں چھوٹی چھوٹی دکانیں بھی کھلوانے میں ناکام رہے۔وفاقی وزیر مراد سعید جن کے اچھل کود کر تقریر کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک و قوم کا سارا درد صرف اسی غریب ترین وزیر کے دل میں ہے اور عوام کو سناتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت میں سب اچھا ہے۔لیکن ان کے اپنے شہر نو شہر،کبل اور مٹہ کے بازاروں میں بھی ہُو کا عالم تھا۔کراچی سے پشاور تک ملک کے چھوٹے بڑے شہروں،قصبوں اور دیہاتوں میں تاجروں اور دکانداروں کی شٹر ڈاؤن ہڑتال نے عمران خان حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر عدم اعتماد کا اظہار کر کے ان کی نا اہلی پر مہر ثبت کر دی۔
تاجر برادری حکومتی اقدامات سے اس قدر پریشان کیوں ہے..حکومت کی جانب سے ایسا باور کروایا جا رہا ہے کہ جیسے تاجر ٹیکس دینا نہیں چاہتا،مگر حقیقت یہ ہے کہ حکومت تاجر کو کاروبار کرنے نہیں دے رہی۔ایک خوف کی فضا بنا دی گئی ہے۔جس سے کاروباری حضرات ہر لمحے دباؤ کا شکار ہیں۔پہلے ہی مہنگائی اور معاشی وسائل کی کمی سے دوچار تاجر کم پریشانیوں میں گھرا تھا کہ اس پر ایک دم سے بڑا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔یعنی نئے ضوابط کے تحت تاجروں کو تین طرح کے گوشوارے جمع کروانے ہوں گے۔سالانہ بنیادوں پر انکم ٹیکس ریٹرن،ششماہی بنیادوں پر ہولڈنگ ٹیکس کی کٹوتی کا ریٹرن اور ہر مہینے سیلز ٹیکس کا ریٹرن جمع کرانا ہو گا۔ان تین ریٹرن کے لئے اکاؤنٹس رکھنے پڑیں گے۔عملہ رکھنا پڑے گا،ٹیکس وکلاء کے ذریعے جمع کروانے ہوں گے جو بھاری فیس لیں گے اور پھر اس میں کوئی غلطی کوتاہی ہوئی تو سخت جرمانے اور ایک سال تک کی قید بھی ہو سکتی ہے۔سپیشل جج مقرر کئے جائیں گے جو جلد مقدمات نمٹا کر تاجروں کو جیل بھیجیں گے۔
عمران خان کی کوالٹی ہے کہ وہ ہر بات کو اس زور سے کہتے ہیں کہ ان کی جھوٹی بات پر بھی سچ کا گمان ہوتا ہے۔جیسے ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام ٹیکس انتہائی کم دیتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ 22کروڑ پاکستانیوں میں سے صرف ایک فیصد افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔یہی ایک فیصد ٹیکس دینے والے کروڑوں کی عوام کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔لیکن حقیقت اس سے بالکل برعکس ہے۔حکومت عوام کو ٹیکس چور کہتی ہے،مگر اپنے گریبانوں میں نہیں جھانکتے۔تیس روپے لیٹر والاپیٹرول تراسی روپے ٹیکس لگا کر 113 روپے کا بیچ رہے ہیں۔عوام سوچ رہی ہے کہ ہمارا وزیر اعظم ہمیں ٹیکس نہ دینے والاٹیکس چور کہہ رہا ہے لیکن ہم پیٹرول،بجلی،گیس،موبائل فون کارڈ،الیکٹرانکس کی مصنوعات الغرض ہر طرح کی اشیائے ضروریہ پر ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔عوام سوچتے ہیں کہ لیوی ٹیکس،ہولڈنگ ٹیکس،سیلز ٹیکس،فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی،کسٹم دیوٹی سمیت درجنوں دیگر ٹیکسز جن سے ان کا روزانہ واسطہ پڑتا ہے۔یہ سب کیا ہیں..کیا یہ ٹیکس نہیں ہیں؟
عمران خان اس بات کی وضاحت کیوں نہیں کرتے کہ عوام کو ٹیکس کی مد میں خوب پیسا بلکہ بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔انہیں یہ بتانا چاہیے کہ ملک میں بہت سے ڈائریکٹ ٹیکسز کو انڈائریکٹ ٹیکسوں کی صورت دے دی جاتی ہے۔اہم بات یہ ہے کہ ہولڈنگ ٹیکسز کی مد میں اکٹھی ہونے والی رقم کا تقریباً 72فیصد ڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں ہوتا ہے۔بہت سے ایسے انڈائریکٹ ٹیکسز ہیں جو حکومت مختلف صورتوں میں عوام کی جیب سے نکلواتی ہے،مگر تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ ملک میں کوئی ٹیکس نہیں دیتا۔حکومت ٹیکس فائلز کی تعداد کم ہونے کا رونا روتی ہے۔لیکن اس کی وجوہات نہیں بتاتی۔کیونکہ ٹیکس کے نظام کو اس قدر پیچیدہ رکھا گیا ہے،کہ عام معمولی پڑھا لکھا اسے سمجھنے سے قاصر ہے۔وہ وکیل کا سہارا لیتا ہے یا محکمے کے کسی فرد سے رابطہ کرتا ہے،جو اسے غلط مشورہ دے کر ٹیکس چوری کرنے کے طریقہ کار سمجھاتے ہیں۔حالانکہ جس فیصد سے ٹیکس کی ادائیگی کرنی ہوتی ہے،اس سے تاجر کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔کیونکہ اس نے بھی کسٹمر سے ٹیکس کی مد میں زیادہ رقم وصول کرنا ہے،مگر حکومتی خزانے تک پہنچانے کے لئے نظام آڑے آ جاتا ہے۔
تاجروں کی اس ہڑ تال سے حکومت کو اپنی کارکردگی کا اندازہ ہو جانا چاہیے۔ہفتے کی شٹر ڈاؤن ہڑتال حقیقت میں پاکستان کا لاک ڈاؤن تھا۔اب عمران خان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں۔اب اس معاملے کو بھی حکومت سابقہ حکمرانوں کی چوری ڈکیتی کا سبب قرار دیتی ہے یا اس بات کو سمجھتی ہے کہ عوام نے حکومت کو آئینہ دکھا دیا ہے۔
عمران خان عوام سے مہنگائی اور نا جائز ٹیکسوں کے ذریعے سے لوٹ کھسوٹ کر کے دولت اکٹھی کر کے ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرنا چاہتے ہیں۔حقیقت میں ان کا یہ عمل ملک کو تباہی اور بربادی کی جانب دھکیل رہا ہے۔عوام رو رہی ہے،مگر وزراء اور مشیران کی شاہانہ رکھ رکھاؤکسی میں کوئی کمی نظر نہیں آ رہی۔
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے تاجروں نے آئندہ کے لائحہ عمل پر غور شروع کر دیا ہے۔ابتدائی مرحلے میں بطور احتجاج ٹیکس ریٹرن جمع نہ کروانے پر غور کیا جارہا ہے۔حکومت کی بے حسی اور عدم توجہی پر غیر معینہ مدت کے لئے شٹر ڈاؤن ہڑتال،ہزاروں کارخانوں اور فیکٹریوں کو لاک کر دیا جائے گا۔ عوامی احتجاجی مظاہرے،اور بھوک ہڑتالی کیمپ اور ڈی چوک پر دھرنا ہو گا۔مگر حکومت کی بے حسی دیدنی ہے۔اسے عوام سے ہمدردی ہے اور نہ ملکی کاروبار کے نقصان کی کوئی پرواہ ہے۔حکومت محض دھمکیاں دے کر حکومت چلانے کی کوششوں میں ہے۔کاروباری طبقے کا اربوں روپیہ داؤ پر لگا ہے،مزدور بے روزگار ہے،ان کے گھروں کے چولہے بجھ رہے ہیں، بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔لیکن حکومت ہے کہ ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں ہے۔حکومت کی یہ آمرانہ سوچ خطرے کی گھنٹی ہے۔جس سے ملک و قوم کو نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گااور ایسے حالات میں ملک کبھی نہیں چل سکتا۔ ابھی بھی عمران خان کو نوشتہئ دیوار کو پڑھ کر اپنا قبلہ درست کر لینا چاہیے۔کہیں بہت دیر نہ ہو جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں