403

چترال میں لینڈ سیٹلمنٹ کا مسئلہ، چند تاریخی حقائق…تحریر: کریم اللہ

ان دنوں چترال میں لینڈ سیٹلمنٹ کے حوالے سے گرما گرم بحث و مباحثوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جہاں ایک گروپ کا خیال ہے کہ محکمہ سیٹلمنٹ نے چترال کے سارے بنجر زمینات، پہاڑوں اور ریور بیڈز کو سرکار کے کھاتے میں ڈال کر عوام کو محروم کیا ہے ۔ جبکہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو سرکار کے اس فیصلے کا خیر مقدم کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں ایوبی یونین کے مختلف قبائل جو کہ ریاستی دور میں کلیدی عہدوں پہ فائز تھے کا ایک اجلاس چترال میں منعقد ہوا جس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ چترال کے دوسرے قبائل کے ساتھ مل کر چترال بچاؤ تحریک کا آغاز کیا جائے گا اور چترال کی زمینات کو یوں دیکھتے ہی دیکھتے سرکار کے کھاتے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لینڈ سیٹلمنٹ کے حوالے سے بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے جس پر مزید بات کرنا وقت کا ضیاع ہے اس لئے اس آرٹیکل میں جان کی امان چاہتے ہوئے چند تاریخی حقائق کے حوالے سے بات کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔
جب اگست انیس سو سینتالیس کو بٹوارہ ہند کے بعد پاکستان معرض وجود میں آیا تو چترال کے اندر بھی ریاست مخالف تحریک کا آغاز ہوا اس حوالے سے محققین کی آراء بھی مختلف ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کٹور فیملی کے جو شہزادے اقتدار بالخصوص تخت چترال سے محروم ہوگئے تھے وہ بعض علماء کو ورغلا کر چترال ریاست میں بدامنی کو فروع دے رہے تھے جبکہ بعض کا خیال ہے کہ چترال کے عوام مولانا نورشاہدین وغیرہ کی قیادت میں چترال مسلم لیگ کے نام سے ایک جماعت بنا کے ریاست چترال میں نمائندہ حکومت کے قیام کا مطالبہ کرکے جلسہ جلوس کررہے تھے۔ چترال مسلم لیگ عوام و خواص کا ایک میکسچر تھا ریاستی دور کے مراعات یافتہ طبقہ مثلا چاریلو آف مستوج، اتالیغ اور شاہی خاندان کے افراد بالخصوص شہزادہ خوشوخت الملک و شہزادہ آف دروس بھی شامل تھے۔ مہتر چترال کو ان حالات میں اپنی حکومت و مراعات خطرے میں نظر آئی اور جلد بازی میں بغیر پلاننگ کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کردیا۔ بعض لوگ یہ پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ چترال وہ واحد ریاست تھی جو ایک اسلامی مملکت اور نظریہ پاکستان سے متاثر ہو کر پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا حالانکہ نہ اس پروپیگنڈے میں کوئی حقیقت ہے اور نہ ہی اس الحاق کے حوالے سے میتار چترال نے عوامی رائے معلوم کرنے کی زحمت گوارا کیا تھا عوام سے پوچھنا تو دور کی بات ایسا لگتا ہے کہ جلدی میں اپنے وزراء و مشیروں حتی کہ اپنے خاندان کے افراد سے پوچھنے اور ان کے مفادات تک کو پروٹیکٹ کرنے سے بھی قاصر رہے۔ میتار کی اس جلد بازی کی وجہ کیا تھی اس کا ہمیں اندازہ نہیں تاہم ایک پڑھے لکھے حکمران کے اس فیصلے نے پورے چترال کے مفادات کو داؤ پہ لگا دیا۔ اس وقت میتار اگر چاہتے تو چترال کے مفادات کو بہتر انداز سے تحفظ دینے کر ریاست پاکستان کے ساتھ باضابطہ دستاویزی و قانونی معاہدہ کرسکتے تھے۔ مگر میتار کی جلد بازی کا خمیازہ آج نہ صرف عوام چترال بلکہ حکمران خاندان کے افراد کو بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ الحاق کے وقت کے دستاویزات کیا تھی اور میتار صاحب نے کن شرائط کی بنیاد پہ ساڑھے چودہ ہزار مربع کلومیٹر ریاست و عوام کو معدنی و قدرتی و آبی وسائل سمیت پاکستان کی جھولی میں ڈال دیاتھا جبکہ ماسوائے اپنے ذاتی جائیدادوں کے چترال کے کسی ایک مفاد کو بھی پروٹیکشن نہیں دی گئی۔
الحاق کے وقت جو معاہدات ہوئے تھے انہی کی روشنی میں سابق این ڈبلیو ایف پی/موجود خیبر پختونخوا حکومت نے انیس سو پچھتر میں ایک نوٹیفکیشن کیا جس میں جہاں میتار چترال کے سارے جائیدادوں حتی کہ ان کے ” ٹوٹ پیک” “رومال” تک کو پروٹیکشن دینے کا ذکر موجود ہیں وہی اسی نوٹیفکیشن میں سارے ریور بیڈ، جنگلات، پہاڑ، غیر آباد زمینات، گورنری قلعے خصوصاً قلعہ مستوج، قلعہ تورکھو،قلعہ دراسن، قلعہ شغور اور دروش کے قلعے سب سرکار کے کھاتے میں ڈالے گئے ہیں۔ اس وقت قادر نواز لال (جو کہ ایوبی یونین کے ایک شاخ رضاء خیل برادری سے تعلق رکھتے تھے) ممبر صوبائی اسمبلی بلکہ صوبائی وزیر جبکہ اتالیغ جعفر علی شاہ ( وہ اور ان کا خاندان میتار چترال کے بعد سب سے مضبوط ترین عہدہ یعنی اتالیغ تھا) ممبر قومی اسمبلی تھے ان کی موجودگی میں یہ نوٹیفکیشن ہوتی ہے مگر دونوں خاموش رہتے ہیں۔چونکہ یہ نوٹیفکیشن صوبائی حکومت نے کی ہے جو یقینا اس وقت کابینہ سے منظوری کے بعد کی گئی ہو اور قادر نواز لال بطور صوبائی وزیر اس نوٹیفکیشن کی منظوری میں شامل ہو۔ اس کے بعد کٹور خاندان کے سب سے قابل اور زیرک سیاست دان شہزادہ محی الدین تین دھائیوں سے زائد عرصے تک چترال کی سیاست پہ براجمان رہتے ہیں مگر انہیں بھی احساس نہ ہوا کہ انیس سو پچھتر کے نوٹیفکیشن میں عوامی حقوق غضب ہوئے ہیں لہذا اس کو چیلنج کیا جائے۔ اور اب ایوبی یونین نے چترال بچاؤ مہم شروع کی ہے۔
اس مسئلے کو ذرا اور کریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایوبی یونین کا موقف ہے کہ ریور بیڈ، چراگاہیں، پہاڑ عوامی شاملات ہیں انہیں لینڈ سیٹلمنٹ کے کاغزمذات میں عوام کی شاملات قرار دیا جائے۔ اب جان کی امان چاہتے ہوئے کیا یہ سوال پوچھ سکتا ہوں کہ انیس سو پچھتر کی نوٹیفکیشن کے مطابق ریور بیڈز تو سرکار کے کھاتے میں چلے گئے ہیں جس پر عوام کو استفادے کا حق حاصل ہے مگر کیا وجہ ہے کہ بلچ کا وسیع و عریض ریور بیڈ پر میتار کا ابھی تک قبضہ تھا اور عوام کو اس کے قریب بھی جانے نہیں دیتے تھے آخر کیوں۔۔؟
کیا وجہ ہے کہ بونی، کھوݱ، دیزگ، ڑاسپور اور دوسرے علاقوں کے ریور بیڈ پہ آج بھی ایوبیوں، سابقہ گول خاڅمون, ݯارویلوز، لال، حکیم و شہزادگان کا نہ صرف دعویٰ ہے بلکہ عوام اور ان کے درمیان لڑائی جھگڑوں، مار دھاڑ، فائرنگ و قتل اور کیسز کی ایک تاریخ ہے جو آج بھی چل رہی ہے۔۔۔۔؟؟
حقیقت یہ ہے کہ ریور بیڈز، غیر آباد زمینات، چراگاہوں اور پہاڑوں کو ریاستی دور کے مراعات یافتہ طبقہ اب بھی اپنی پدری جائیداد سمجھتے ہیں اور اب سارا کچھ ہاتھ سے نکل گیا تو عوامی شاملات کا شوشہ چھوڑا جارہا ہے۔۔ ان الفاظ کے لئے مجھ پر نسل پرستی و تعصب پرستی کے سینکڑوں طعنے لگیں گے۔ اور میرے خلاف پروپیگنڈہ زور و شور سے کیا جائے گا۔ جو آج تک میرے خلاف کیا جاتا رہا ہے مگر آخر کب تک ہم سارے ننگے حقائق پر آنکھیں بند رکھیں گے۔۔۔۔؟؟
اب ایک اور مدعا پیش کرنے جارہا ہوں وہ یوں کہ ایک برس قبل ریاستی دور کے چند مراعات یافتہ طبقات نے انیس سو پچھتر کے نوٹیفکیشن کے چند شقوں کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس کو لے کر مراعات یافتہ طبقہ پھولے نہیں سما رہے تھے اس کیس کا کیا بنا۔۔۔؟؟ میری انفارمیشن کے مطابق پشاور ہائی کورٹ نے اس پیٹیشن ہی کو خارج کردیا ہے۔
اگر یہاں کی اصل حقیقت کو جاننا ہے تو ان ریور بیڈز، غیر آباد زمینات اور پہاڑوں پہ چند افراد کے دعوے اور عوام کی مزاحمت و کیسز کی تاریخ اٹھا کر تو دیکھ لیں۔ میرے علاقے میں نہ کوئی حکیم موجود ہے نہ لال، نہ ݯارویلو، نہ شہزادہ بلکہ پانچ پشت پہلے کسی بندے کو گول خاڅوم بنایا گیا تھا آج بھی ان کے اولاد ان چراگاہوں و غیر آباد زمینات پہ دعوے کررہے ہیں اور ہم اپنے علاقے میں صرف تیس سے چالیس سالوں کے دوران چار سے پانچ کیسز لڑ چکے ہیں۔۔
اب اگر یہ زمینات شاملات ڈیکلیئر کئے گئے تو کیا قبضہ مافیا و ماضی پرست اپنے دعوؤں سے دست بردار ہونگے۔۔۔۔؟؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں