439

دادبیداد..مکس اچار…ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیمکس اچارمکس اچار میں مختلف نوعیت کی خبروں کا جائزہ لیا جائے گا جاپان سے خبر آئی ہے کہ جدید ترین بلٹ ٹرین ٹسن کان سن نے آزمائشی سفر پورا کرلیااس کی رفتار 380کلومیٹر فی گھنٹہ ہے جو عالمی مارکیٹ میں ٹرینوں کی موجودہ رفتار سے60کلومیٹر زیادہ ہے نئے بلٹ ٹرین کی خبر کے ساتھ تصویر بھی لگی ہے تصویر کو دیکھ کر بے خیالی میں نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں پشاور کی بس سروس بی آرٹی یاد آگئی۔شاعر کے مصرعے میں تصرف کرکے ہم نے بے ساختہ کہا تری یاد آئی تیرے”جلنے“کے بعد جس اخبار میں جاپان کے بلٹ ٹرین کی طرف سے عالمی ریکارڈ بنانے کی خبر ہے اسی اخبار میں یہ خبر بھی لگی ہے کہ بی آرٹی کی بس گدھا گاڑی سے ٹکراگئی خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ قصور گدھے کا تھا یابس کا ہم نے آنکھیں بند کرکے گدھے کو قصوروار ٹھہرایا۔قصور وار کیوں نہ ہوتا گدھا آخر گدھا ہی ہوتا ہے۔آج کل میڈیا میں جوخبر سب سے زیادہ زیر بحث ہے وہ قومی اسمبلی میں سابق سپیکر کا متنازعہ بیان ہے اگر چہ ایاز صادق نے وضاحت کی ہے کہ میڈیا میں میرے بیان کو توڑ مروڑ کے پیش کیا گیا میں نے جو کچھ کہا وہ میرے کہنے کا مقصد نہیں تھا اور جو میرے کہنے کا مقصد تھا وہ میں نہ کہہ سکا شاعر نے کیا بات کہی وہ جو خواب تھے میرے ذہن میں نہ میں کہہ سکا نہ میں لکھ سکا، جو زبان ملی تو کٹی ہوئی جو قلم ملا تو بکا ہوا۔سابق اسپیکر نے رندھی ہوئی آواز میں کہا تھا کہ بھارتی پائیلٹ ابھی نندن کو24گھنٹے سے پہلے رہاکرنے کی درخواست لیکر وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اعلیٰ سطحی اجلاس میں کھڑے ہوئے۔اس وقت ہانپ اور کانپ رہے تھے ان کی درخواست پر ابھی نندن کو رہا کیا گیا۔اس پر سب سے جامع تبصرہ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی نے کیا ہے اُنہوں نے کہا ہے”ہانپتے سانسوں اور کانپتے ٹانگوں“قو م کو شاہ محمود کا اور ایاز صادق کا سلام پہنچے اس قسم کے متنازعہ بیان پر اس سے بہتر تبصرہ سردست کوئی نہیں کرسکتا۔وفاقی وزیرصنعت وپیداوار حماد اظہر نے صدی کا سب سے بڑا بیان اخبارات میں شائع کروایا ہے ان کا بیان ہے کہ انسداد دہشت گردی کے بین لاقوامی ٹاسک فورس ایفے اے ٹی ایف(FATF) کی طرف سے پاکستان کو گرے لسٹ سے نہ نکالنے کا فیصلہ ہماری بڑی کامیابی ہے مرزا غالب نے کہا تھا”کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے“وزراء کو ہرروز کوئی نہ کوئی بیان دینا ہوتا ہے چاہے اس کا کوئی سر پیر ہویانہ ہو بیان کیلئے جو رہنما اصول ہیں وہ صرف دو ہیں ہربرائی کو سابقہ حکومت سے منسوب کروہر خبر میں موجودہ حکومت کے لئے کوئی اچھا پہلو نکالو اور اس کووزیراعظم کے وژن کے ساتھ جوڑ کر بیان داغ دو جس طرح آجکل ہر بیان میں کرپشن لانے کا فیشن ہے اس طرح 1973ء میں عوام کا ذکر لے آنا فیشن تھا کراچی سے خیبر تک حکومت کے وزراء جو بیانات جاری کرتے ان کا یک ہی متن ہوا کرتا تھا اس دور میں ایک اخبار نے مشہور وزیر کی خبر کا ابتدائی حصہ لانے کے بعد لکھا”باقی وزیر صاحب کی پنڈی والی تقریر“دراصل اس جگہ ڈیسک والوں کو پنڈی والی تقریر جوڑدینا تھا جو وہ بھول گئے حماد اظہر کا بیان اس نوعیت کا ہے اگر فیٹف والے پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکال دیتے تووزراء کو یہ کہنا تھا کہ اس لسٹ سے نکلنا حکومت کی کامیابی ہے اب پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھا گیا تو وزراء کی ڈیوٹی لگی ہے کہ مشکوک ممالک کی لسٹ میں جگہ پانے کو حکومت کی بے مثال کامیابی سے تعبیر کریں خرد کو جنون کا نام دیا جنون کو خرد کہا جو چاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے ہمارے ممدوح پیر پگاڑا مرحوم کے بعد پیش گوئیوں کی شہرت رکھنے والے شیخ رشید نے ایک بار پھر پیش گوئی کی ہے کہ جنوری سے پہلے اکھاڑ پچھاڑ ہوگی موصوف کو پیش گوئیوں کے ساتھ ساتھ زبان وبیان پر بھی عبور حاصل ہے وہ ایسی زبان بولتے ہیں جس کا کوئی بھی مطلب ہوسکتا ہے مثلاً اُنہوں نے پیش گوئی کی تھی کہ کوئٹہ اور پشاور میں دھماکے ہوسکتے ہیں جب دونوں جگہ دھماکے ہوئے تو اُنہوں نے سینہ پھلاتے ہوئے کہا میں یہ بات پہلے ہی سب کے علم میں لاچکا تھا ان کی تازہ پیش گوئی دودھاری تلوارکی طرح ہے اُنہوں نے یہ نہیں کہا کہ جو لوگ حکومت میں ہیں ان کے ساتھ ایسا کھلواڑ ہوگا یا جولوگ حزب اختلاف میں ہیں انکے خلاف یہ کھلواڑ ہونے جارہا ہے اُنہوں نے اپنے آپشن کھلے رکھ دیے اگر کابینہ میں ردوبدل ہوا تو کہے گا میری پیش گوئی کایہی مطلب تھا بصورت دیگر خدا ناخواستہ حزب اختلاف کے خلاف کریک ڈاون ہوا تو سینہ پھلاکرکہے گا میں نے پہلے ہی اس کی پیش گو ئی کی تھی۔شیخ رشید کے پاس ریلوے کا محکمہ ہے تاہم وہ ریلوے پر بات نہیں کرتے اس طرح فواد چوہدری کے پاس کابینہ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا محکمہ ہے ان کی ذمہ داری یہ ہے وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے سوادنیا کے ہر مسئلے پر بیان داغنے کا فریضہ انجام دیا کرے موصوف کا تازہ بیان پلوامہ واقعے کے بارے میں آیا ہے 14فروری 2019کو بھارتی شہر پلوامہ میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا تھا بھارتی میڈیا نے تحقیقات سے پہلے پاکستان پر الزام لگایا پاکستان نے اپنی بے گناہی ثابت کی بات رفع دفع ہوگئی اب فواد چوہدری نے قومی اسمبلی میں بیان دیا ہے کہ پلوامہ حملہ ہمارے وزیراعظم کی بڑی کامیابی تھی اُن کے وژن کا منہ بولتا ثبوت تھا”کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا“ فواد چوہدری کا پس منظر جو بھی ہو ان کا نام کابینہ کے وزیروں میں آتا ہے دشمن ان کے بیان کو پاکستان کے خلاف ہر فورم پر استعمال کرے گا وزیراعظم کی خوشامد کے ہزار طریقے اور بھی تھے اس بات کی آخر کیا ضرورت تھی شاعر نے اسی لئے کہا ہے۔آپ خود اپنی اداوں پہ ذرا غور کریں۔ہم اگر عرض کرینگے تو شکایت ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں