242

پروفیسر اسراالدین کی نابغہ روزگار تصنیف “انوار مستجاب” کے انوارات

ہزارو ں انسانوں کا مسیحا،لاکھوں سنگ دلوں کو موم کرنے والا،نہ جانے کتنی مسکراہٹوں سے مایوس چہروں کو اپنے سحر انگیز پندو نصائح سے زغفران زار بنا دینے والا،بے شمار دلوں کو اپنی محبت سے جگا دینے والا،نہ جانے کتنے شرک و بدعات میں مبتلا انسانوں کو گمراہی سے رشدو ہدایت کی طرف لانے والا عظیم ہستی کے نام گرامی سے ہم سارے واقف ہیں وہ واعظ،ناصح رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اورتزکیہ نفس کا نعرہ لگاتا ہوا چترال ہی میں نہیں بلکہ پورے پاکستان میں غفلت میں ڈوبے دلوں کو جگاتے رہے یہ عظیم ہستی ایک با فیض صاحب نظر اور اہل دل بزرگ تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی مجاہدہ نفس اصلاح و ارشاد  اور تزکیہ و احسان کی راہ میں گزاری۔ ان کی مصلحانہ کاوشوں کے نتیجے میں نسلوں کو خدا پرستی اور اپنی سیرت و کردار کی ایمانی بنیادوں پر تعمیر کرنے کی تحریک ملی۔ جن خوش نصیبوں نے ان سے ملاقات کی ان کو دیکھا ان کا بیان سنا  یا ان سے کسی بھی طرح فیض حاصل کیا ان کے اخلاق حسنہ سے فیض یاب ہوئے تو ان کی زندگی یکسر بدل گئی۔ آپ کے حلقہ احباب سے ایسے ایسے صوفیا اور اتقیا پیدا ہوئے جن کے اخلاق اور کردار کی وجہ سے ہزاروں غیر مسلم حلقہ اسلام میں داخل ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے۔زذائل نفس،شرک و بدعات کی مذمت اور اصلاح نفس پر محنت اور محبت الہی کی معرفت پر گھنٹوں گھنٹوں تقریر کرتے اور دعوت و تبلیغ اور عظمت دین کی دعوت لیکر چترال کے چپے چپے کا پیدل دورہ کرنے والا یہ عظیم انسان حضرت مولانا مستجاب کے نام سے یاد کیا جاتاہے حضرت مولانا محمد مستجاب غالبا 1885 ء میں چترال کے ایک قصبہ لوٹ اوویر میں جناب زور آور خان کے ہاں آنکھ کھولی۔ابتدائی تعلیم کا آغازگاؤں کی مسجد سے کیا۔ بعد آزان چترال کے مختلف علاقوں میں علم کی تلاش میں سفر کیا اور چترال کی خوبصورت گاؤں ایون میں سکونت اختیار کی اور یہاں سے ہی درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ کے اہم کام کا سلسلہ شروع کیا۔عجیب اتفاق ہے کہ مولانا مستجاب رحمۃ اللہ علیہ کو اپر چترال کے لوگ “ایون کا مولانا” جبکہ لوئر چترال کے لوگ “اوویر کا مولانا” کے نام سے جانتے پہچانتے ہیں۔ بہر حال حضرت کو اللہ تبارک و تعالی نے تصوف کے میدان کا شہسوار بنایا تھا آ پ نے حضر ت فضل علی شاہ قریشی نقشبندی سے خلافت حاصل کی اور ان کی حیات کے بعد حضرت مولانا عبد الغفور عباسی کے حلقہ خلافت سے منسلک رہے۔مولانا مستجاب صاحب کا شمار سلسلہ نقشبندیہ کے مشہور اولیاء وا تقیا  میں ہوتا ہے یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ مولانا کا تعلق چترال سے تھا اور چترال میں ہی زندگی کے ایام گزارنے کو ترجیح دی اگرچہ مولانا کے ہزارو ں مریدین کراچی اورلاہور میں پھیلے ہوئے تھے۔ لاہور میں آپ کے عقیدت مندوں کا ایک وسیع سلسلہ تھا جس کا اندازہ آپ کی طرف منسوب دو بڑی مساجد “باب المستجاب” کے نام سے بنائی گئیں ہیں۔

                آپ کی حیات پر مبنی فقید المثال تحقیقی سوانح میرے بہت ہی محترم دوست  فخر چترال جناب پروفیسر اسرارالدین صاحب نے تکمیل کی ہے۔پروفیسر صاحب سے دوران تصنیف بھی رابطہ رہا جس انداز سے کتاب تکمیل کو پہنچی ہے اس پر پروفیسر صاحب ہزاروں خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ پروفیسر صاحب کی شان کو بیان کر نا ہمارے بس کی بات نہیں ہے بہرحال جسارت کرکے قلم اٹھانے کی کوشش کی ہے۔پروفیسر صاحب نے دور کے ولی کامل،دنیائے روحانیت کے ہزاروں مریضوں کا شافی علاج کرنے ولے عظیم المرتبت مسیحا تصوف و تزکیہ کے امام کی سیرت و سوانح کے علمی و عملی گوشوں کو اجاگر کرنے اور ان کی ظاہر و باطنی خوبیوں اور کمالات کو اپنی معیاری تحرووں کے ذریعے قارئیں کرام کی خدمت میں پیش کرکے تاریخ کے قیمتی اثاثوں میں اضافہ کیا ہے یہ ہم جیسے کم علم لوگوں پر احسان عظیم ہے۔ پروفیسر صاحب نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے تمام ضروری پہلوؤں پر تحقیقی کام کی ذمہ داری نبھاکر آنے والی نسلوں کو اپنے اسلاف کی بلند کردار سے روشناس کیا ہے اور آپ کے ایک فائض یافتہ کے ہونے کے ناطے اپنی اہم ذمہ داری احسن طریقے سے سرانجام دی ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام پروفیسر اسرار الدین صاحب ہی کر سکتے تھے۔سرزمین چترال کے عظیم داعی مصلح او رمرد کامل اور مرد حق آگاہ حضرت مولانا مستجاب خان نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کی سر گزشت حیات پر یہ ضخیم تالیف سے پروفیسر صاحب کا حضرت والا کے ساتھ گہرے، مضبوط اور والہانہ تعلق کا پتہ چلتا ہے یہ صرف اللہ والوں او ردینِ متین  سے محبت کا ہی نتیجہ ہے۔موصوف نے آنے والے محققین کی تحقیق کے لئے راستہ بھی ہموار کیا ہے۔یہ پروفیسر صاحب کا حضرت کے ہزاروں عقیدت مندوں پر احسان عظیم ہے

                 احقرنے اس سے قبل 2011 ء میں بذات خود اپنی دلچسپی سے “ماہنامہ نوائے چترال” میں خصوصی شمارہ شائع کیا تھا جس میں مولانا مستجاب رحمہ اللہ کے حلقہ احباب اور معتقدین سے استفادہ کرکے مختلف مضامین پر مشتمل ایک سو صفحات پر خصوصی شمارہ “مولانا مستجاب نمبر” شائع کیا تھا۔ پروفیسر صاحب نے اپنی تصنیف میں بارہا اس کا حوالہ دیا ہے۔اسی مناسبت سے ایک آنکھوں دیکھا واقعہ قارئیں کے گوش گزار کرنا چاہوں گا۔ میرے استاد محترم مولانا محمد انس رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا”کہ ایک مرتبہ بذریعہ بحری جہاز سفر حج پر جاتے ہوئے مولانا مستجاب صاحب دارالعلوم کراچی تشریف لاکر مولانا ظاہر شاہ رحمہ اللہ کے ہاں قیام پذیر تھے۔(مولانا ظاہر شاہ صاحب مرحوم حضرت مستجاب کے اقرباء میں سے تھے جو کہ دارالعلوم کراچی میں استاد الحدیث تھے)جبکہ اس وقت میں جامعہ دارالعلوم کراچی میں زیر تعلیم تھا”مولانا فرماتے تھے کہ مجھے حضرت کی خدمت کرنے کا موقع ملا۔ حضرت ایک صاحب کشف بزرگ تھے رات بھر اللہ تعالی کے حضور عبادت میں مشغول رہتے تھے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے بھی حضرت شیخ کے ہاتھ بیعت کی خواہش کا اظہار کیا۔ حضرت نے مجھے اپنے بیعت کا شرف عطا کیا۔سفر حج سے  واپسی پر کچھ عرصہ گزرا ہی تھا کہ حضرت کا انتقال ہو گیا۔رفتہ رفتہ ہمارے معمولات میں سستی آنے لگی تو میں بہت پریشان تھا ایک مرتبہ خواب میں حضرت مولانا مستجاب کی زیارت ہوئی تو حضرت نے میرا ہاتھ تھام کر شیخ علاو الدین شاہ جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں بیعت کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میرے دامن کو نہیں چھوڑنا،انشاء اللہ تعالی آپ کامیاب ہونگے۔ خواب سے بیدار ہوتے ہی میں خانقاہ نقشبندیہ دارالسلام شیخوپورہ جاکر حضرت علاو الدین شاہ جیلانی کے ہاتھ بیعت کرکے سکون قلب دوبارہ حاصل کیا اور اولیااللہ سے رابطہ کا دوبارہ آغاز کر دیا۔ اس وقت حضرت عبدالغفور عباسی رحمہ اللہ کے خلیفہ مجاز ولی کامل حضرت علاؤ الدین شاہ جیلانی دارالسلام موضع ہردیو شیخوپورہ میں عبادت و ریاضت اور تزکیہ و اصلاح خلق خدا میں دن رات مشغول رہتے تھے بقول حضرت مولانا مستجاب کے مولانا محمد انس صاحب دوران نماز حالت سجدہ خالق حقیقی کو لبیک کہا۔شاید کہ کامیابی کی یہ بھی ایک واضح علامت تھی۔

                پروفیسر صاحب نے انتہائی عرق ریزی اور سالوں کی محنت سے مولانا مستجاب رحمہ اللہ کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر 390 صفحات پر مشتمل سوانحی تصنیف انتہائی دیدہ زیب انداز میں شائع کیا ہے اس کے مطالعے سے ہزاروں راہ حق کے مسافروں کو راہ ملے گی اللہ تعالی فاضل مصنف کی سعی کاملہ کو اپنے بارگاہ میں قبول فرمائیں اور ہمارے اسلاف او ربزرگوں کے فیوض و برکات کو جاری و ساری رکھیں۔آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں