231

خیبر پختونخوا حکومت کا وفاق سے نئے این ایف سی ایوارڈ کے اعلان تک خصوصی پیکیج کا مطالبہ

پشاور(نمائندہ ڈیلی چترال)خیبر پختوپختوا حکومت نے نویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کی تشکیل ہونے تک وفا ق سے خصوصی پیکیج کا مطالبہ کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ صوبے میں امن و امان اور قدرتی آفات کے مسائل کی وجہ سے تباہ حال انفراسٹرکچر کے علاوہ الاکھوں افغان مہاجرین اور قبائل ایجنسیوں کے آئی ڈی پیز کے قیام کے سبب صوبے کو درپیش چیلنجوں آئے روز میں اضافہ ہو رہا ہے جس کا ازالہ دستیاب وسائل میں ممکن نہیں اسلئے ناگزیر ہو گیا ہے کہ وفاق اگر اٹھارہویں آئینی ترمیم کے مطابق نئے این ایف سی کا اعلان نہیں کر سکتا اور 2009ء میں بنے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کو جاری رکھنا چاہتا ہے تو کم از کم سیکورٹی صورتحال اور انفراسٹرکچر کی بہتری کیلئے خیبر پختوپختواکو فراخدلانہ پیکیج مہیا کرے بصورت دیگر صوبائی حکومت این ایف سی سے متعلق بے فائدہ اجلاسوں کا مکمل بائیکاٹ کرے گی اس کا انکشاف صوبائی وزیر خزانہ مظفر سید ایڈوکیٹ نے لاہور میں اپنے صوبے کے ورکنگ و سٹڈی گروپ کے اجلاس کی صدارت کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت میں کیا انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں صوبائی حکومت اعلیٰ سطح پر وفاق سے ملاقاتوں اور تحریری شکل میں بھی رابطے کرے گی تاکہ نوے فیصد وفاقی محاصل اور فنڈز پر انحصار کرنے والے اس صوبے کی دگرگوں حالت واضح کی جا سکے قبل ازیں پیر اور منگل کو مسلسل دور روز چاروں صوبوں اور وفاق کیجانب سے ورکنگ گروپس کے مشترکہ اجلاسوں سٹڈی پیپرز اور جائزے پیش کئے گئے جن میں خیبرپختونخوا کی جانب سے پیش کردہ کیس کو دوسرے صوبوں کے مندوبین نے جامع و جاندار قرار دیتے ہوئے کافی سراہا اور نئے ایوراڈ کی تشکیل میں حددرجہ تاخیر اور ایوارڈ کی حتمی تاریخ کے اعلان کے معاملے پر خیبر پختوپختوا حکومت کے مطالبے کی مکمل تائید کی سیکرٹری خزانہ علی رضا بھٹہ اور ایڈیشنل سیکرٹری برائے این ایف سی ادریس مروت نے صوبے کی مالی صورتحال سے متعلق اعداد و شمار اور جائزوں و بریفنگ میں مظفر سید ایڈوکیٹ کی معاونت کی صوبائی وزیر خزانہ نے بتایا کہ لاہور کے اجلاسوں کا فائدہ یہ ہوا کہ تمام صوبے نئے ایوارڈ کی تاریخ کیلئے وفاق سے مطالبے میں متفق و یک زبان ہو گئے جس پر وہ باقی تینوں صوبوں کے وزرائے خزانہ اور حکومتوں کے مشکور ہیں وفاق کو ساتویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ جاری رکھنے کی بجائے نویں این ایف سی ایوارڈ کیلئے مین اجلاس جلد بلانے اور صوبائی حقوق کی واگزاری یقینی بنانا چاہئے تاکہ چھوٹے صوبوں کے عوام کا مسلسل بڑھتا ہوا احساس محرومی دور ہو سکے مظفر سید ایڈوکیٹ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ مرکز مالیاتی کمیشن سمیت صوبوں اور عوام کے حقوق کی ادائیگی انکے وسائل اور ضروریات کی بنیاد پر یقینی بنانے کی بجائے ہر معاملے کو مصلحتوں پر قربان کر رہا ہے جو کسی طرح بھی قومی یکجہتی اور ملکی مفاد میں نہیں افسوس کہ مرکز ساتویں این ایف سی ایوارڈ کو اگلے سال جاری رکھنے پر تلا ہے حالانکہ یہ ایوارڈ اٹھارہویں آئینی ترمیم سے قبل کا بنا ہے کنکرنٹ لسٹ کے خاتمے اور محکموں کی منتقلی کے بعد صوبے پر مالی بوجھ ہزار گنا بڑھ چکا ہے لگتا ہے کہ چاروں صوبوں کے اتفاق رائے کے باوجود مرکز نئے ایوارڈ کیلئے اجلاس بلانے کی بجائے تاخیری حربے جاری رکھے گاحالانکہ مرکز کا اب 42.5فیصد نہیں بلکہ 20فیصد وسائل پر حق بنتا ہے جو صوبے بخوشی دینے کو تیار Minister Finance-2ہیں جبکہ باقی 80فیصد وسائل صوبوں کو ملنے چاہئیں واضح رہے کہ ساتویں این ایف سی کے تحت مرکز 42.55، پنجاب 51.74 فیصد، سندھ 24.55فیصد، خیبر پختونخوا 14.62فیصد اور بلوچستان 9.09فیصد فنڈز لے رہا ہے وفاق کے پچھلے این ایف سی اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ صوبائی خودمختاری کے بعد18ویں آئینی ترمیم، نیشنل ایکشن پلان، غیرملکی امداد کے شفاف استعمال کیلئے پائیدار ترقی کے اہداف اور سی پیک کے ممکنہ اثرات کے مطابق ایوارڈ کی تشکیل ہوگی مگر وفاق کی طرف سے کوئی پیشرفت نہ ہو سکی دوسری طرف وفاق کے غیرملکی قرضے 21ارب روپے سے تجاوز کر گئے جو 2008کے مقابلے میں دوچند ہیں اور افراط زر میں بھی مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے مظفر سید ایڈوکیٹ نے اس بات کو بھی افسوسناک قرار دیا کہ پن بجلی منافع سمیت مرکز کی طرف سے نئے صوبائی بجٹ کیلئے ہمارے گارنٹی شدہ فنڈز 72ارب روپے تاحال پورے ادا نہیں کئے گئے جو ہمارے کل بجٹ کا 80فیصد سے زائد وسائل بنتے ہیں تیل و گیس سیس کی مد میں 29ارب روپے اور 1991 کے پانی تقسیم معاہدے کے تحت 119ارب روپے کی ادائیگی بھی باقی ہے انہوں نے صوبے کے مسائل قومی سطح پر اجاگر کرنے پر وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی سیاسی بصیرت کو سراہا اور واضح کیا کہ صوبے کی مالیاتی حالت کی بہتری کیلئے ٹھوس اور دور رس اقدامات وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکے ہیں انہوں نے اس استدلال سے مکمل اتفاق کیا کہ صوبے میں بیروزگاری، افغان مہاجرین و آئی ڈی پیز،دہشت گردی اور امن و امان کے مسائل کی وجہ سے غربت، بیروزگاری اور پسماندگی انتہا کو چھونے لگی ہے جبکہ یہاں کے عوام میں احساس محرومی کا گراف بھی 75فیصد سے تجاوز کر گیا جس کا وفاق کو احساس ہونا چاہئے اور اسکی تلافی آئین کے مطابق حقوق کی جلد از جلد ادائیگی سے ہی ممکن ہے ہمارے مالی نقصانات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے دہشت گردی کی مد میں فنڈز کے صرف ایک فیصد کی فراہمی ہماری کمزور معیشت کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے اور اسے پانچ فیصد کرنا بھی ناگزیر ہو چکاہے حالانکہ اس صوبے کا معاشی استحکام پوری قومی ترقی کا ضامن بنے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں