229

تنخواہوں میں 50فیصد اضافہ کیا جائے حکومت نے بڑی خوشخبری سنا دی.اس پیکج پر 5ارب روپے لگیں گے،50فیصد اگلے مہینے سے جبکہ 50فیصد 30جون کے بعد اضافہ کیا جائیگا،وزیرداخلہ چوہدری نثار

اسلام آباد(نیو زڈیسک )وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہاہے کہ عمران خان کے دھرنا منسوخ کرنے کے فیصلے سے نہ کسی کی ہار ہوئی ہے نہ جیت ‘ ان کے فیصلے کی قدر کرتا ہوں‘ عمران خان پہلے مان جاتے تو اب تک احتساب ہوچکا ہوتا،راستہ روکے جانے ‘ لاٹھی چارج او رآنسو گیس کی شیلنگ پر جڑواں شہروں ‘خیبر پختونخوا اور سرحدی پنجاب کے باسیوں سے معذرت خواہ ہوں‘ عدالتوں کے فیصلوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، سیاستدانوں کا کام جلتی پر تیل ڈالنا نہیں بلکہ ملکر ملک کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہے ،حکومت نے اسلام آباد کو میدان جنگ بننے سے بچایا ‘ صوبے کے مقابلے میں وفاقی حکومت تگڑی ہوتی ہے ‘ اگر ہم وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے استعفیٰ کا مطالبہ لے کر پشاور پر چڑھائی کرتے تو کیا یہ راستے بند نہ کرتے ‘ عمران خان صاحب میں خوشامدی نہیں اورنہ ہی بے ضمیر ‘ ہر فیصلہ ضمیر کی آواز پر کرتا ہوں‘یہی فیصلہ چار ماہ پہلے ہونا چاہیے تھا‘ عمران خان سے 44 سالہ دوستی تھی جو گزشتہ دھرنے میں عمران خان کی طرف سے وعدہ خلافی کرنے پر میری طرف سے ٹوٹ گئی‘ احترام اب بھی کرتا ہوں جہاں دوستی اور تعلق ہو وہاں مار دھاڑ مناسب نہیں‘ کاش نوبت شیلنگ اور گرفتاریوں تک نہ آتی لیکن اس کی قصور وار حکومت ہرگز نہیں‘ موجودہ صورتحال پر ایران ‘ چین اور ترکی کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا گیا تھا‘ دھرنا ختم کرنے کے اعلان سے اچھا پیغام جائیگا‘پیپلز پارٹی پر تنقید اس لئے کرتا ہوں کہ ان کے 5 سالہ دور کے کرتوت سب کے سامنے ہیں اور کیسز عدالتوں میں ہیں‘ ایف سی اہلکاروں کی تنخواہ اسلام آباد پولیس کے برابر اور ریٹائرمنٹ کی عمر 35 سے بڑھا کر 45 سال کی جا رہی ہے‘ڈان لیکس کس نے لیک کی اس کی تہہ تک پہنچا جائیگا‘ وقت آ گیا ہے اپنے اداروں پر اعتماد کریں‘ شربت گلہ نے بہت سزا پا لی، مدد کرینگے لیکن جعلی شناختی کارڈ بنانے میں ملوث اہلکاروں کو نہیں چھوڑوں گا۔ وہ منگل کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ تحریک انصاف کا دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ نہ کسی کی جیت ہے نہ کی ہار،جیت پاکستان اور پاکستان کے بچوں کے مستقبل کی ہوئی ہے،گذشتہ چند دن بڑے تلخ گزرے ہیں،پاکستان کی جیت امن جمہوریت میں ہے،کوئی سپریم کورٹ کے فیصلے کو ہار جیت سے تعبیر نہ کرے،عمران خان کے فیصلے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں،سیاسی گولا باری اور سیاسی بیان بازی ہوتی رہتی ہے،لیکن جب سیاسی مخالفت سیاسی دشمنی میں بدل جائے تو اس کا بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور یہ عوام دشمنی کے زمرے میں آتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور خصوصاً راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہریوں کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہتا ہوں اور ان سے معذرت بھی کرتا ہوں کہ گذشتہ چند دنوں میں ان کی معاملات زندگی میں خلل پڑا،خیبرپختونخوا اور پنجاب کے عوام کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں،معاملات زندگی میں خلل پڑنے پر سب سے معذرت کرتاہوں،حکومتی ترجمان کے طور پر واضح کرتا ہوں کہ رکاوٹیں لگانے میں حکومت کا کوئی قصور نہیں،ہم نے کبھی بھی جلسے سے لے کر جلسی تک کسی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے،اسلام آباد میں 4ماہ کا دھرنا دیا گیا لیکن حکومت نے اس میں کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی حالانکہ آخر پر صرف چند سو بندے رہ گئے تھے،چاہتے تو اٹھا سکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا اور پی ٹی آئی نے خود دھرنا ختم کیا،عمران خان کی طرف وعدہ خلافی پر افسوس ہوا تھا۔اس دفعہ بھی جب اعلان کیا گیا تو کوشش کی گئی کہ معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوجائے لیکن جب اسلام آباد بند کرنے کی بات کی گئی تو رکاوٹیں لگائی گئیں۔انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پختون مہمان نواز قوم ہے لیکن جھتے کا طاقت کے بل بوتے پر مطالبات منوانا انتہائی غلط روائت ہوتی،تحریک انصاف اکیلی نہیں،جے یو آئی،مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتیں بھی خیبرپختونخواکی نمائندہ ہیں،تحریک انصاف تو پہلی بار کے پی کے میں کامیاب ہوئی،میرے زیادہ قریبی دوست خیبرپختونخوا سے ہیں،ہم نے خیبرپختونخوا کا نہیں صوبائی حکومت اور مسلح جھتے کا راستہ روکا،اگر اس طرح لڑائی کرنا ہوتی تو وفاق تو صوبائی حکومت سے کہیں زیادہ طاقتور ہے اگر ہم وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے استعفیٰ کیلئے پشاور پر چڑھائی کردیں تو کیا آپ راستے کھول دیں گے۔انہوں نے کہا کہ بنیادی حقوق کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے،یہ تاثر درست نہیں کہ پختونوں کا راستہ روکا،اسلام آباد اور پنجاب پولیس کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں،پولیس نے خالی ہاتھ قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا،صرف آنسو گیس کے شیل تھے،ماضی میں ایسا ہوتا تھا کہ کوئی مسلح جھتا آتا اور مسلح ہونے کے باوجود پولیس کی دوڑیں لگ جاتیں لیکن اب ایسا نہیں،سیکیورٹی ادارے کسی شخصیت یا جماعت کے نہیں ریاست کے ادارے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر عدم اعتماد پر افسوس ہوا،ہم نے کبھی عدلیہ پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں کیا،وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے ریاستی اداروں عدلیہ،پولیس پر اعتماد کریں۔وزیرداخلہ نے کہا کہ سراج الحق کو گذشتہ روز کے بیان پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں،سیاستدانوں کو عوام میں خلیج ڈالنا،انتشار اور تشدد سے افراتفری پھیلانا نہیں،لیڈر شپ کو اپنے اندر صفات پیدا کرنی چاہیے کہ ملکی مفاد کیلئے سب کو ایک کرسکیں انہوں نے کہا کہ حکومت نے قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنایا،کاش گرفتاریاں اور شیلنگ بھی نہ ہوتی لیکن ایسا ہونے میں حکومت کا کوئی قصور نہیں،اسلام آباد کو میدان جنگ بننے سے بچانے شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے حکومت کو اقدامات کرنا پڑے۔وزیرداخلہ نے کہا کہ عمران خان بار بار کہتے ہیں کہ ضمیر کی آواز سنوں،میں بڑا گنہگارشخص ہوں لیکن الحمداللہ ہر کام اور فیصلہ ضمیر کی آواز پر کرتا ہوں،میں نے 35سال اچھے اور برے وقت میں پارٹی کا ساتھ دیا،مجھے بڑے بڑے عہدوں کی پیش کش کی گئی،ضمیر کی آواز نہ ہوتی تو یہاں نہ ہوتا،وزارت کی میری نظر میں کوئی اہمیت نہیں،میرے لئے کردار اور ضمیر سب سے بڑھ کر ہیں،اللہ تعالیٰ کو جواب دہ ہوں۔میں دنیاوی اور سیاسی لحاظ سے وزیراعظم کو جواب دہ ہوں ، اصل جواب دہ تو اللہ تعالیٰ کی ذات کا ہوں ، عمران خان ،وزیراعظم یا مجھ پر کوئی الزام لگتا ہے تو الزام سے تو فیصلہ نہیں ہوجاتا، جمہوریت میں سپریم کورٹ فیصلے کا سب سے بڑا ادارہ ہوتا ہے ، وزیراعظم نے پہلے دن سے سپریم کورٹ کو خط لکھا جو آج ہوا اس کے لئے تو حکومت 4ماہ پہلے حکومت نے لکھ دیا تھا۔ وزیراعظم نے تو یہ بھی اعلان کیا کہ ٹی او آرز آپ بنائیں ،سب سے پہلے احتساب کر لیں، عمران خان صاحب بتائیں کہ ضمیر کا وہ کون سا کونہ ہے جس کی طرف آپ اشارہ کر رہے ہیں ، فیصلہ تو وہی ہوا جو4ماہ پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔ ہم سب گنہگار ہیں ۔ عقل کل صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ اس لئے نہ میں عقل کل بنتا ہوں نہ عمران خان بننے کی کوشش کریں ۔انہوں نے کہا کہ پہلے بھی کہا کہ (آج) وزیراعظم سے بھی کہا کہ عمرن خان سے 44سال دوستی ہے ،2014کے دھرنے کے بعد عمران خان سے رابطہ ٹوٹا جس سے دوستی ہو ،اتنا تعلق ہو اس سے مار دھاڑ نہیں کرتے اس لئے میں اس سے اجتناب کرتا ہوں ، بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں،2014کے دھرنے میں آپ نے کمٹ منٹ پوری نہیں کی تومیری طرف سے تعلق ٹوٹ گیا،اس کے باوجود میں آپ کا احترام کرتا ہوں،آپ نے آج جو فیصلہ کیا یہ ایک سیاستدان کا فیصلہ ہے،سیاستدان کو اس طرح فیصلے کرنا چاہیں،عمران خان کے فیصلے کو چند لوگ تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں،
عمران خان بڑی جماعت کے لیڈر ہیں،جس دن بڑی جماعتیں کہیں کہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے فیصلے کو نہیں مانتے تو اس سے تباہی کا راست ہے۔وزیرداخلہ نے کہاکہ اگر آپ پہلے دن مان جاتے تو اب تک اس کیس کا فیصلہ ہوجاتا،میرا ضمیر مطمئن ہے،خان صاحب میں نہ خوش آمدی ہوں،نہ بے ضمیر ہوں،مجھے بار بار ضمیر پر چلنے کی تلقین نہ کیا کریں،عمران خان یا ان کے پارٹی رہنماؤں کیلئے ایسے الفاظ استعمال کروں تو مناسب نہ ہوگا،پیپلزپارٹی کیلئے باتیں اس لئے کرتا ہوں کہ وہ حکومت میں رہے،ان کے کیسز عدالتوں میں اور کرتوت سب کے سامنے ہے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال پر ایران،چین اور ترکی کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا،ان کو ایک اچھا تاثر جائے گا کہ اختلافات اپنی جگہ لیکن پاکستانی قوم ایک ہیں،پانامہ معاملے کے فیصلے کا اختیار ہم نے سپریم کورٹ کو دے دیا ہے،اختلاف رائے جاری رہے گا لیکن تشدد اور انتشار کی فضاء کو ختم کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کو بلایا ہے،انہیں کہوں گا کہ ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پرامن دھرنے کے سلسلے میں تحریک انصاف سے رابطہ کرے،حالات کو معمول پر لانے کیلئے حکومت مزید اقدامات کرے گی۔وزیرداخلہ نے کہا کہ نیوز لیکس کے معاملے پر بنائی جانے والی کمیٹی میں تین انٹیلی جنس ایجنسیز کے نمائندہ اور تین سے چار مزید افراد شامل ہوں گے،وہ ایسے افراد ہونے چاہیں جن پر چوری قوم کو اعتماد ہو،یہ سارا معاملے اب ختم ہونا چاہیے،ڈان لیکس کس نے لیک کی اس کی تہہ تک پہنچا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ علاج کیلئے جانا ہے لیکن ابھی جگہ کا فیصلہ نہیں ہوا،میری 2سے 3سرجریاں ہونی ہے،بظاہر صحت مند ہوں۔انہوں نے کہا کہ ایف سی اہلکار کی تنخواہ 30ہزار ہے،گھروں میں کام کرنیوالے اور بیروں کو بھی 17ہزار سے زیادہ تنخواہ ملتی ہے،ایف سی کے جوان اندرون ملک ہی نہیں سرحدوں پر بھی جانیں قربان کر رہے ہیں،ایف سی اہلکاروں کی تنخواہوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن آج جاری ہوجائے گا،ایف سی اہلکاروں کی تنخواہ اسلام آباد پولیس کے برابر کی جائے گی،اس پیکج پر 5ارب روپے لگیں گے،50فیصد اگلے مہینے سے جبکہ 50فیصد 30جون کے بعد اضافہ کیا جائیگا،30جون کے بعد ایف سی کی تنخواہیں اسلام آباد پولیس کے برابر ہو گی۔وزیرداخلہ نے کہا کہ ایف سی میں 18سال کا نوجوان بھرتی ہوتا ہے،35سال کی عمر میں ریٹائر ہوجاتا ہے حالانکہ 35سال میں جوان ہوتا ہے،ریٹائر ہونے والے اہلکار کوپنشن بھی کم ملتی ہے،ریٹائرمنٹ کی عمر 45سل کرنے کافیصلہ ہوا ہے،یہ دونوں بڑے فیصلے کیے گئے ہیں،ایف سی کو انٹرنل سیکورٹی الاؤنس بھی ملا کرے گا،اسلام آباد پولیس کے کانسٹیبل کا گریڈ 5سے بڑھا کر 7،ہیڈ کانسٹیبل کا7سے 9اور اے ایس آئی کا 9ویں گریڈ سے 11گریڈ بھی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے،چاہتے ہیں کہ پولیس مزید محترک ہو،ایف سی اور پولیس نے گذشتہ روز جان خطرے میں دال کر 7ہزار مسلح افراد کو روکا۔انہوں نے کہاکہ شربت گلہ کا کیس منطقی انجام تک پہنچایاگیا،خاتون بیوہ ہے،اس کی مدد کریں گے لیکن نادرہ کے جولو ساتھ ملوث تھے،ان کو نہیں چھوڑیں گے،خاتون کو جتنی سزا ہوئی کافی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ میڈیا اینکرز سول ملٹری تعلقات کو اپنا رنگ دیتا ہے،میں ان کا ذمہ دار نہیں ہوں۔بطور وزیرداخلہ فوج سے رابطہ رہتا ہے،آرمی چیف نے درخواست کی کہ نیوز لیکس پر اعلان سے پہلے ہمیں آگاہ کریں،جس پر میں نے آرمی چیف کو خبر کی تحقیقات سے متعلق پر آگاہ کیا،بڑے اچھے ماحول میں بات ہوئی،یہ دعویٰ سے کہتا ہوں کہ میرے اسحاق ڈار اور شہبازشریف کی طرف سے خبر لیک نہیں ہوئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں