شہزادہ فرہاد عزیز۔۔۔شہزادہ فرہاد عزیز کے بابا کے ساتھ ہمارے خاندان کے دودھ کا رشتہ تھا ۔۔خود اس کے ساتھ میرے قلم کا رشتہ تھا ۔۔شہزادہ فہام کے ساتھ کلاس روم کا رشتہ اور شہزادہ فرہادکے ساتھ ان سب کے حوالے سے رشتہ تھا ۔۔فرہاد کم گو ۔خاموش طبع اور خوش اخلاق انسان تھے ۔۔روایتی شہزادگی سے ہٹ کر سلوک رکتھے تھے ۔۔سادہ مزاج اور ملنسار تھے ۔۔طبع اعلی ظرفی کی طرف مائل تھا ۔۔زندگی میں جس کام کو کرنے کا عزم کیا چلنج سمجھ کر کیا ۔دریا کی موجوں کے ساتھ لڑنے کی آرزو ہوئی تو تیراکی سیکھا۔۔ہوا میں اڑنے کا شوق چرایا تو پیراگلایئڈ پائیلٹ بن گیا ۔۔ہائکنگ ہو ، کوہ پئیمائی ہو ،شکار کھیلنا ہو وہ سارے کام جو مشکل ترین ہوں ۔اور چیلنج کی حیثیت رکھتے ہوں ۔۔قبول کیا ۔۔کیا ۔۔اور کرکے دیکھایا ۔۔۔صوم و صلوتہ کے پابند ۔بے داغ ،بے لوث ،غیر متنا زغہ ، خدمت گار ،مونس اور غم خوار تھے ۔۔۔انھوں نے اپنی اولاد کی اسلامی خطوط پر پرورش کی تھی ۔۔بیٹے صبح کی نماز کے لئے مسجد آتے تو اچھا لگتا ۔۔چترالی روایات کے بڑے شیدائی تھے ۔۔بچے خوبصورت چترالی ٹوپی پہنا کرتے ۔۔ٹیکسالی کھوار اورکھو روایات کے سختی سے پابندی کرتے ۔۔ملنے کا انداز ،نشست و برخواست رشتوں ناتوں میں روایات اور کہنے والے کہتے ہیں ۔کہ گھر میں روایتی کھانوں کا انتظام ان کی روایتی زندگی میں شامل تھا ۔۔فر ہادعزیز ایک روایتی چترالی شخصیت تھے ۔۔جس کی انگ انگ سے چترالیت ٹپکتی تھی ۔۔ان سے مل کر دل سے اس کی عزت کرنے پر انسان مجبور ہوجاتا ۔۔میری ان سے آخری باضابطہ ملاقات پی ٹی ڈی سی موٹل میں کامیٹ کی طرف سے ایک سمینار میں ہوئی تھی ۔۔جس میں انھوں نے چترال میں پیر گلئڈنگ کے حوالے سے پریزنٹیشن دی ۔۔انھوں نے چترال پیراگلااڈنگ ایسوسیشن کے صدر کی حیثیت سے اپنی کوششوں اور چترال میں اس کے مستقبل پر روشنی ڈالی ۔۔شہزادہ فرہاد کی یاد ایک خوشبو ہے ۔جو پھیلتی جاتی ہے اور یادوں کی کتاب سے ان کا نام مٹایا نہیں جا سکتا ۔۔
اسامہ احمد وڑائچ۔۔ ’’تم لوگ ہمیشہ میرے نام کا سپیلنگ غلط لکھتے ہو ‘‘نوجواں ڈپٹی کمشنر نے منتظمیں سے ہنس کر کہا ۔یہ جی سی ایم ایچ چترال میں ایک بڑے فنکشن کی یاد ہے ۔ڈی سی صاحب کو پودا لگا کر شجر کاری مہم کا افتتاح کرنا تھا ۔۔پھر اس کو سوسوم جانا تھا وہاں پر بچے برفانی تودے میں دبے ہوئے تھے ۔۔ان کی لاشوں کی تلاش تھی ۔۔ چترال کے اکثر افیسروں سے فنکشنوں کے حوالے سے ملاقات ہوتی رہتی ہے،یہ آفیسرز روایات سے ہٹ کر کوئی کام کم کم کرتے ہیں ۔ان کو فرصت ہی نہیں ملتی ہے ۔۔مگر نوجواں ڈی سی تھکتا نہ تھا۔ وہ ضرور وقت نکالتا ۔۔ان کی شخصیت میں بہت سارے عزائم بولتے تھے ۔۔جس کھیل کو لے لیں وہ اس کو کھیلنے نکلتے اور اس کا کھیلاڑی نکلتے ۔جس مہم کو لے لیں وہ اس کا مہم جو نکلتے ۔۔ذھین ،پر عزم،موقع شناس ،ہمت والا،نڈر اور کرشماتی شخصیت کے مالک آفیسر تھے ۔۔انھوں نے چترال میں بہت سارے کام کئے ۔۔عام روٹین کے کاموں سے ہٹ کر کئے ۔۔وہ بچوں جوانوں اور ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والوں میں یکسان مقبول تھے ۔۔۔انھوں نے جو کہا عملی طور پر کرکے دیکھایا ۔۔پورے چترال میں ہر ہر چھپے کا دورہ کیا ۔۔وہ اپنے دور میں چترال میں بہت سارے مسائل کا سامنا کیا ۔۔سیلاب ،زلزلہ،برفانی تودے ،اور کیاکیا قدرتی آفات نہ تھے کہ نہ آئے ۔۔مگر انھوں نے جوانمردی سے سب کا مقابلہ کیا ۔۔کھیلوں کو فروغ دیا ۔۔ جشنیں منائی ۔۔اور چترالیوں کے شاہانہ مزاج کے مطابق روایات قائم کی ۔۔ان کو اپنے عملے سے محبت تھی ۔۔ان کو عوام سے محبت تھی ان کی حمایت میں پرس کانفرنسیں ہوئیں ۔۔اسامہ ایک نوجوان آٖفیسر تھے ۔۔ میری آخری ملاقات آپ سے ا س ۱۴ اگست کے موقع پر ہائی سکول چترال میں آپ کے انتظام سے بڑا پروگرا م تھا اس میں آپ سے ہوئی ۔ جس کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا تھا آخر میں جب سکول کی طرف سے مجھے سوئنیر پیش کیا جارہا تھا تو اس نے بڑی اپنائیت اور احترام سے میری آنکھوں میں ڈوب کر کہا ’’ماشااللہ‘‘ انھوں نے ایک دفعہ ایک پروگرام میں میرے الفاظ اور قلم کی تعریف کی تو مجھے اس کے بڑا پن کا احساس ہوا ۔آپ چترال میں ایک خوشگوار یاد چھوڑ کر گئے ۔۔’’اسامہ پارک‘‘اس کی یاد دلاتا رہے گا ۔۔۔
محمد خان اور اکبر علی ۔۔۔محمد خان کا نام پی ڈی سی کے ساتھ اچھا لگتا تھا ۔۔ایک سلجھے ہوئے ایجوکیشنسٹ تھے دھیمے لہجے میں بات کرتے ۔۔انگریزی اور اردو پر قابل رشک عبور تھا ۔۔پیڈوگوجی کے ماہرمانے جاتے تھے ۔۔ پی ڈی سی میں اساتذہ کو مختلف فیلڈوں میں ٹرین کراتے تھے ۔۔ان کی یادیں سارے اساتذہ کی یادوں میں محفوظ ہیں ۔۔محمد خان سنجیدہ اور حلیم الطبع تھے ۔ان سے آخری ملاقات سالانہ ٹیچرز ڈے کی تقریب میں ہوئی ۔۔میں نے ان کو سٹیج پہ بلایا اور کچھ اساتذہ کوانعامات د لوائے ۔۔۔اکبر والی خان سے گاہے بہ گاہے ملاقات ہوتی ۔۔ان کی شرافت بے مثال تھی ۔۔ان سے مل کر ہم ان کے اعلی اخلاق کے سحر میں ڈوب جا تے ۔۔
سلمان زین العابدین۔۔یہ خاندان اپنی روایتی شرافت کیوجہ سے مشہور ہے ۔سلمان سے ایک ادھ بار ملاقات ہوئی ۔مگر اس کا انداز اور شرافت دیکھ کر دنگ رہ گیا ۔۔وہ اتنی عزت اورحترام دیتے کہ انسان شرمندہ ہو جاتا ۔۔
ان سب کے علاوہ چترال کا ہر پھول جو اس گلشن کی زینت تھا ۔اپنی یاد چھوڑ گیا ۔۔طلباء ،بچے ، معاشرے کے زمہ دار لوگ ،کسی کے پیارے ،کسی کے مونس ،کسی کی یادوں کا ساتھی ۔۔انھوں نے اس فضا کو سوگوارکر گئے ۔۔موت کے سامنے تو ہر کوئی بے بس ہے ۔۔ مگر وہ زندگی کے سامنے بے بس ہو گئے تھے ۔۔اس پر بہت افسوس ہوتا ہے ۔۔ان کی زندگی میں چند لمحے ایسے آئے کہ وہ موت کواپنی آنکھوں سے دیکھا ۔۔اور زندگی کو موت کے سامنے بے بس دیکھا ۔۔ان کو اس سمے زندگی کتنی قیمتی لگی ہوگی ۔۔ساعتیں کتنی اہم لگی ہونگی ۔۔ساری امیدیں عارت ہو چکی ہونگی ۔۔یہ کتنے خوفناک لمحے ہونگے ۔۔وہ ہماری یادوں میں محفوظ رہے ۔۔ان کے صرف نام ہماری یادوں کی کتاب میں محفوظ رہے ۔۔ان کے بارے میں ہمیں معلومات ہوتے لکھتے جاتے ۔۔۔آج کے بعد سات دسمبر کا دن ایک یاد کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا ۔۔بوڑھے بچوں کو سنائیں گے ۔بچے دوسروں کو سنائیں گے ۔۔اور وہ سارے خاندان جو چترال سے باہر ہیں ان کی یادوں میں ایک تلخ یا د کا اضافہ ہوا ہے ۔۔عالمی شہرت یافتہ جنید جمشید جو زندگی کی حقیقت سمجھ چکے تھے ۔۔خود ایک حوالہ تھے ۔اس کی موت ایک حوالہ بن گئی ۔۔اس کی زندگی معیار تھی موت ایک یاد بن گئی ۔۔چترال سے باہر کے غمزدہ خاندان چترال کو اس حوالے سے یاد رکھیں گے ۔۔یہ حوالے ۔۔۔یہ درد کے حوالے ۔۔یہ یادیں یہ درد کی یادیں ۔۔۔۔یہ مٹنے والی تو نہیں ۔۔۔۔۔