234

سکہ رائج الوقت اور چترال۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

ہفتہ 14جنوری کی رات لواری ٹنل جانے والے راستے پر 36گھنٹے انتظار کے بعدارسون کے رہائشی حضرت جان کا 2 سالہ بیٹا ریحان اللہ گاڑی کے اندر مر گیا۔ وہ بیمار تھا اور اس کو علاج کے لیے پشاور ریفر کیا گیا تھا ۔ریحان اللہ کے مرنے کے بعددو باتوں کا ذکر ہو رہا ہے، پہلی بات یہ ہے کہ یہ نا گہانی موت نہیں قتل ہے قتل کا مقدمہ ذمہ داروں کے خلاف درج کیا جائے دوسری بات یہ ہے کہ ایسا واقعہ دیر، سوات، باجوڑ، بٹگرام، کرک یالکی مروت میں پیش آتا تو لوگ باہر آ کر درجن بھر سرکاری عمارتوں کو جلا دیتے، درجن بھر سرکاری گاڑیوں کو آگ لگا دیتے ، دو چار سرکاری افسروں کو یرغمال بنا کر لے جاتے اور تاوان کا مطالبہ کرتے، انتظامیہ کو فوج بلانے کی ضرورت پڑ تی امن و امان کا بہت بڑا مسئلہ ہوتا۔8ہزار مظلوم مسافروں نے 36گھنٹے برف میں حکومت کے جھوٹے وعدے پر گزارے اور خاموشی سے گزارے حکومت نے اعلان کیا تھا کو جمعہ کے دن لواری ٹنل مسافروں کے لیے کھولا جائے گا مگر وقت اور شیڈول نہیں دیا، اپروچ روڈ کی صفائی کا بندوبست نہیں کیا، ٹریفک کو منظم کرنے کا انتظام نہیں کیا، وعدہ خلافی، بد انتظامی، اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔ اس روز این ایچ اے کا کوئی ذمہ دار افسرموقع پر موجود نہیں تھا،دیر اور چترال کی سول انتظامیہ کا کوئی ذمہ دار افسر ڈیوٹی پرنہیں تھا، فرنٹیر کور کے حکام کو 18گھنٹے بعد اطلاع ملی تو چترال سکاوٹس کے حکام موقع پر پہنچ گئے۔ کرنل نظام الدین شاہ نے مسافروں کی مدد کی۔ یہ بات حیران کن تھی کہ کمشنر، ہوم سیکرٹری، چیف سیکرٹری اور وزیر اعلیٰ کو اطلاع نہیں ملی ،وزیر اعظم کے مشیرامیر مقام اورگورنر خیبر پختونخوا کو رپورٹ نہیں ملی، ہمارے کسی منتخب نمائندے کورپوٹ نہ مل سکی۔ مگر یہ الگ کہانی ہے یہاں میں سکہ رائج الوقت کاذکر کر نا چاہتا ہوں جو کسی بھی چترالی شہری کے پاس نہیں ۔گزشتہ 69سالوں میں ایک بھی چترالی شہری کرپشن میں نہیں پکڑا گیا ،گزشتہ 69سالوں میں ایک بھی چترالی شہری دہشت گردی میں نہیں پکڑا گیا ،سرکاری املاک کو نقصان پہنچاتے ہوئے نہیں پکڑا گیا اسلحہ۔۔۔۔ اور فائر کرتے ہوئے نہیں پکڑا گیا، راکٹ لانچر یا کسی اور آتشین اسلحہ کے ساتھ نہیں پکڑا گیا،چترال کی 6لاکھ کی آبادی اس کو شرافت کانام دیتی ہے تہذیب کا نام دیتی ہے۔۔ وفاقی حکومت اس کو بے غیرتی کہہ کر پکارتی ہے، صوبائی حکومت اس کو بزدلی سمجھ کر طعنے دیتی ہے۔ بقول غالب

وہ اپنی خو نہ چھوڑینگے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں

سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو

سکہ رائج الوقت یہ ہے کہ کرپشن کرو ،خود کھاؤ اوپر والوں کو کھلاؤ، اسلحہ لے کر نکلو آگ لگاؤ، گاڑیاں جلاؤ، تمہاری عزت ہوگی، تمہای بات سنی جائیگی، تمہارے مطالبات مانے جائیں گے، کاغذ، درخواست، سپاسنامہ ، مکھن مصالحہ، چیری پالش سے کچھ نہیں ہوگا ،محب وطن پاکستانی اور پْر امن شہری کو اس کا حق کبھی نہیں ملے گا۔لواری ٹنل پر چترالیوں کو ذلیل وخوار کرنے کا تازہ واقعہ محض ایک مثال ہے جو سب نے دیکھا۔ چترال کی آبادی کے ساتھ1969میں انضمام سے اب تک 101بڑی نا انصافیاں ہوتی ہیں ان 101بڑی نا انصافیوں میں سے صرف 5 کا ذکر یہاں بجا ہوگا۔انضمام کے وقت چترال کے دو اضلاع تھے ایک ضلع کو ختم کر دیا گیاجو اب تک بحال نہیں ہوا۔ انضمام کے وقت چترال کے ریاستی آفیسروں میں 28آفیسرصوبے میں اہم پو زیشنوں پر جا سکتے تھے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار تھے ان کی تنزلی کر دی گئی، ڈپٹی کمشنر کو تحصیل دار لگایا گیا سیکرٹری ایجوکیشن کو جبری ریٹائر کیا گیا۔ وہ اْس وقت کے ایس ایم بی آر ظفر علی خان سے سنیئر آفیسر تھا ۔ضلع چترال کا رقبہ 14850مربع کلو میٹر ہے، ضلع کی لمبائی 485کلومیٹر ہے 32وادیوں کو ملانے والے راستوں کی کل لمبائی 7ہزار کلو میٹر ہے، ان میں سے پختہ سڑکوں کی لمبائی صرف 185 کلو میٹر ہے جبکہ دیر اپر میں 3ہزار کلو میٹر اور دیر لوئیر میں 5ہزار کلو میٹرپکی سڑکیں ہیں۔سول سروس میں چترال کاکوٹہ ختم کر دیا گیا، بیرون ملک تعلیم کے لیے چترال کے سکالر شب بند کر دیئے گئے، اپنی قابلیت کے ذریعے سول سروس میں آ نے والے چترالی آفیسروں کو فیلڈ پوسٹنگ کے مواقع سے محروم رکھا جاتا ہے، وہ اْوپر والوں کو بھتہ نہیں دیتے اس لیے ان کو ہمیشہ کھڈے لائن کیا جاتا ہے، گویا چترال کا ڈومیسائل رکھنا ایک جرم ہے یہ جرم کسی کو معاف نہیں کیا جاتا ۔میں یہاں تین گواہوں کا حوالہ دینا مناست سمجھتا ہوں ۔جولائی1975میں ذوالفقار علی بھٹو شہیدنے آفیسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چترال پاکستان کا ایک ایسا پاکٹ ہے جوتہذیب اور شائستگی کے لحاظ سے لکھنو کا مقابلہ کرتاہے۔ جنرل پرویز مشرف نے دسمبر 2010میں لندن کی ایک تقریب میں کہا کہ پاکستانی تہذیب کو دیکھنے کے لیے چترال کو ضرور دیکھو وہاں آپ کو پاکستان کی تہذیب ملے گی، اشفاق احمد نے 14اگست 1978 کو پی ٹی وی کے لیے ڈرامہ لکھا۔ اس کا نام ، برگ آرزو، ڈرامے کا کردار ایک مقام پر ہندوستان سے آتے ہوئے مہاجر سے کہتا ہے، تم واہگہ پار کر کے لاہور آئے ہو یہاں چوری چکاری، غنڈہ گردی، دھوکہ ، فریب اور دیگر جرائم وہی ہیں جو ہندوستان میں تھے۔ میرے ساتھ چترال آجاؤ میں تمہیں دیکھا تا ہوں کہ ہمارے اسلاف نے جس پاکستان کے لیے قربانیاں دی تھی وہ پاکستان چترال میں آپ کو ملے گا۔تین اہم گواہوں کے بعد پاکستان کا مسئلہ وہی ہے جو سکہ رائج الوقت کہلاتا ہے آہستہ آہستہ چترال کے لوگوں کو بھی دہشت گردی کی طرف دکھیلا جا رہا ہے۔ یہ وطن عزیز کا آخری مورچہ ہے اس کو بھی لاقانونیت کے حوالے کیا گیا تو کچھ نہیں بچے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں