مضامین
بھابی ! ہم اب کیاکریں۔۔پروفیسررفعت مظہر
ہمیں اِس سے کچھ لینادینا نہیں کہ موروثی سیاست کے خلاف صبح ومسا تگ ودَو کرتے کپتان صاحب نے اچانک ریحام بھابی کوخارزارِ سیاست میں کیوں دھکیل دیا ۔ویسے ہمارا’’حسنِ ظَن‘‘ ہے کہ ہمارے بھولے بھالے کپتان صاحب کوپتہ ہی نہیں تھاکہ بیوی بھی خاوندکی وراثت میں حصّے دارہوتی ہے ،اگرپتہ ہوتابھی تواِس سے ’’کَکھ‘‘فرق نہیں پڑتا کہ ’’یوٹرن‘‘ توہماری سیاست کاجزوِلاینفک ہے اوراِس کی تاریخ پرانی ۔بھٹومرحوم روٹی ،کپڑااور مکان کانعرہ لگاکر مسندِاقتدار تک پہنچے لیکن پھریوٹرن لیتے ہوئے کہہ دیا’’میں کوئی سونے کانڈا دینے والی مرغی نہیں، خودکماؤ اورکھاؤ‘‘۔ضیاء الحق مرحوم 90 دنوں کا وعدہ کرکے آئے اوریوٹرن لیتے ہوئے اُس وقت تک اقتدارسے چمٹے رہے جب تک اللہ میاں نے اپنے پاس نہیں بلا لیا۔ پرویزمشرف نے قوم کے سامنے دسمبر 2004ء تک وردی اتارنے کاوعدہ کیالیکن انہوں نے بھی کہہ دیا’’وردی تومیری کھال ہے‘‘۔پرویزمشرف کوبے آبروکرکے ایوانِ صدرسے نکالنے والے آصف زرداری صاحب کے ہاں تو ’’وعدے قُرآن وحدیث نہیں ہوتے جن سے انکارنہ کیاجا سکے‘‘۔ اگرہمارے کپتان صاحب نے دس ،پندرہ یوٹرن لے لیے اوراُن میں سے ایک ریحام بھابی کوسیاست میں’’اِن‘‘ کرنابھی ہے تودشمنوں کے پیٹ میں کیوں مروڑ اُٹھنے لگے۔ آمدہ اطلاعات کے مطابق کپتان صاحب نے کہہ دیاکہ آئندہ ریحام خاں تحریکِ انصاف کی کسی تقریب میں شرکت کریں گی ،نہ اُنہیں کوئی پارٹی عہدہ دیاجائے گااورنہ ہی پروٹوکول۔ اُنہوں نے NA-19 میں ضمنی انتخاب کے بعداپنی اہلیہ پرہونے والے تنقیدی حملوں کے بعدانتہائی اکتاہٹ اوربیزاری کے عالم میںیہ فیصلہ کیا۔دروغ بَرگردنِ راوی یہ بھی کہاجا رہاہے کہ کپتان صاحب نے اپنے بچوں کی ریحام خاں پر شدیدتنقید کے بعد انتہائی مجبوری کے عالم میںیہ فیصلہ کیا۔ وہ اپنے گھرمیں بیٹھ کر ’’اندرکھاتے‘‘ بھی اپنے فیصلے سے ریحام بھابی کوآگاہ کرسکتے تھے لیکن پتہ نہیں ایسی کون سی مجبوری آن پڑی کہ اُنہوں نے سرِعام سب کچھ کہہ کرہماری بھابی کے پَلّے ’’کَکھ‘‘ نہیں چھوڑا۔ ہم توخوش تھے کہ بینظیر شہیدکی طرح ایک اورخاتون اُبھرکر سامنے آرہی ہے اورآپس کی بات کہ ہم نے توبھابی کومستقبل کی خاتونِ اوّل کی بجائے نہ صرف وزیرِاعظم سمجھنا شروع کردیا بلکہ اُن کے لیے یہ نعرہ بھی گھڑلیا ’’چاروں صوبوں کی ہے جاں ۔۔۔ ریحام خاں ،ریحام خاں‘‘لیکن ہمارے سارے خواب ’’چکناچور‘‘ ہو گئے کہ ریحام بھابی ابھی اُڑنے بھی نہ پائی تھیں کہ ’’گرفتارِ شوہر‘‘ہوکر گھر کی ہورہیں۔
سمجھ میں نہیں آتاکہ آخرایسا کیاہوا جو ہمیں ہر میدان میں ہزیمت کاسامنا کرناپڑ رہاہے۔ دھرنوں کے بعدہونے والے ہرضمنی الیکشن میں شکست ، تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ ہمارے خلاف حالانکہ ہمیںیقین تھا کہ تحقیقاتی کمیشن کافیصلہ ہمارے حق میں’’آوے ای آوے‘‘۔پارٹی میں شدیدانتشارکی خبریں لیکن اِن کاذمہ دارتو ہم جسٹس (ر)وجیہہ الدین کوسمجھتے ہیں جنہوں نے ناک میں دَم کررکھا ہے۔وجیہہ الدین صاحب کوکپتان صاحب نے پارٹی میں ہونے والی انتخابی بے ضابطگیوں کا جائزہ لینے کے لیے تحقیقاتی کمیشن کاسَربراہ مقررکیا لیکن وہ چیف جسٹس آف پاکستان ہی بن بیٹھے۔ جسٹس صاحب توجہانگیرترین ،عبد العلیم ،نادرلغاری اورہمارے محترم ’’تیلی پہلوان‘‘کے پیچھے ہاتھ دھوکر ہی پڑگئے ۔بندہ پوچھے کہ اگر اِنہیں پارٹی سے نکال دیاگیا تو باقی بچے گا کیا؟۔ پھرہمارے پاس ذاتی جہازہوگا نہ ہیلی کاپٹراورنہ ہی بوقتِ ضرورت پیسوں کا انتظام۔جسٹس صاحب پارٹی پررحم کرتے ہوئے اتناموقع تودے دیں کہ وہ اپنے قدموں پر جَم کرکھڑی ہونے کے قابل ہوسکے ۔ویسے بقول جسٹس وجیہہ الدین کپتان صاحب اِن اصحاب کو ’’پھڑکانے‘‘کے لیے مناسب موقعے کی تاک میں ہیں اوروہ مناسب موقع تبھی آسکتاہے جب پارٹی اندرونی طورپر مضبوط ہوجائے۔
ہری پورکے ضمنی الیکشن میں تو ہمیںیقین تھاکہ بے مثل کامیابی ہماری راہوں میں آنکھیں بچھائی بیٹھی ہے اسی لیے کپتان صاحب نے ریحام خاں کو سیاسی اکھاڑے میں اتارنے کے لیے ہری پور کاانتخاب کیا ۔ویسے بھی بقول ریحام خاں ہری پوراُن کی ’’جنم بھومی‘‘ ہے اسی لیے ہمیںیقین تھاکہ کامیابی مستقبل کی ’’وزیرِاعظم‘‘کے قدم چومے گی ۔ ریحام بھابی نے تحریکِ انصاف کی ’’فضیلت ‘‘بیان کرتے ہوئے بجاطور پرپختون بھائیوں کوبتلایاکہ تحریکِ انصاف پاکستان کی وہ واحدجماعت ہے جس میں خان بھی ہے ،جوان بھی اوربھابی بھی اِس لیے کامیابی کی حقدارصرف تحریکِ انصاف ہی ٹھہرتی ہے ۔اُنہوں نے یہ بھی کہا’’آپ ہمیں ووٹ دے کرجتوائیں اِس کے بعد اگرخاں صاحب نے آپ کی بات نہ مانی تو پھر اُنہوں نے کیاگھر نہیںآنا؟۔۔۔ہمارے یقین کی دوسری وجہ یہ تھی کہ عام انتخابات میں بھی یہ سیٹ تحریکِ انصاف کے پاس تھی جوبعد میں الیکشن کمیشن کی’’مہربانی‘‘سے نوازلیگئے لے اُڑے ۔ پھر سپریم کورٹ کے حکم پرضمنی انتخاب کاڈول ڈالاگیا۔ ہری پورچونکہ صوبہ خیبرپختونخوا میں واقع ہے اِس لیے ہمیںیقین تھاکہ مسلم لیگ کوئی ’’ہینکی پھینکی‘‘ نہیں کر سکتی۔ اِس کے علاوہ تازہ تازہ بلدیاتی انتخابات میں تحریکِ انصاف کوڈسٹرکٹ کونسل کی 24 سیٹیں ملیں جبکہ نوازلیگ کوصرف 2 ۔ خودنواز لیگئے بھی سخت مقابلے کی پیشین گوئیاں کر رہے تھے جبکہ غیرجانبدار تجزیہ نگاروں نے تویہ سیٹ ہماری جھولی میں ڈال ہی دی تھی ۔اِن تمام عوامل کومدِنظر رکھتے ہوئے ہم نے ’’ایویں خواہ مخوا‘‘ جذباتی ہوکر کچھ نوازلیگیوں سے ڈنرکی شرط باندھ لی۔ اب اُدھرسے فون پہ فون ’’کھڑکائے‘‘ جارہے ہیں لیکن ہم جواب دینے کی بجائے ’’یوٹرن‘‘ کی سوچ رہے ہیں۔ہمیں وقفِ مصیبت کرنے والی توبہرحال ریحام بھابی ہی ہیں جنہوں نے پوری قطعیت کے ساتھ یہ اعلان کیاتھا کہ ہری پورمیں تحریکِ انصاف کے اُمیدوار کاکوئی مقابلہ ہی نہیں۔اسی اُمیدپر ہم نے ’’ڈنر‘‘کی شرط باندھ لی ۔اب بھابی ہی بتائیں کہ’’ اب ہم کیا کریں‘‘۔ ڈی جے بٹ اورٹینٹ سروس والوں کی طرح دھرنادے نہیں سکتے کہ ہم ٹھہرے ’’پکّے‘‘ سونامیے اورپیسہ ہمارے پَلّے نہیں اِس لیے مکرر کہتے ہیں’’بھابی ! اب ہم کیاکریں‘‘۔