چترال ( محکم الدین ) اگست کی انتیس اور تیس تاریخ جوں جوں قریب آرہی ہے ۔ ضلعی حکومت کے قیام کے حوالے سے چترال کے لوگوں کا تجسس بڑھ رہا ہے ۔ چترال میں ضلعی حکومت سازی کیلئے جمعیت العلماء اسلام اور جماعت اسلامی سب سے زیادہ سیٹ لینے والی پارٹیاں ہیں ۔ اور دونوں پارٹیوں نے الیکشن سے پہلے سیٹ ایڈجسمنٹ اور بعد آزان حکومت سازی کیلئے باہمی معاہدہ کیا تھا ۔ دونوں پارٹیوں کی مقامی قیادت معاہدے کے تحت ضلع اور تحصیل سطح پر عہدوں کی تقسیم کر چکے ہیں ۔ جس میں جماعت اسلامی کو ضلع ناظم چترال اورنائب ناظم تحصیل چترال کے عہدے ملے ہیں ۔ جبکہ ضلع نائب ناظم ،تحصیل ناظم چترال اور تحصیل ناظم مستوج کے عہدے جے یو آئی کے حصے میں آئے ۔ لیکن جے یو آئی کے دو منتخب شدہ اور دو مخصوص سیٹوں پر آئے ہوئے ممبران عہدوں کی اس تقسیم کو نہ مانتے ہوئے قیادت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ اُن مخالف ممبران میں ضلعی نظامت کے امیدوار سابق ایم پی اے مولانا عبدالرحمن ،سابق امیر جے یو آئی چترال قاضی فتح اللہ ، سابق ایم پی اے غلام محمد کا بیٹا سریر احمد اور ایک خاتون شامل ہیں ۔ مخالف گروپ کا دعوی ہے ۔ کہ حکومت سازی اُن کے حصے میں آئے گی ۔ کیونکہ اُن کو جمعیت کے ارکان کے علاوہ ، پی ٹی آئی ، پی پی پی اور آل پاکستان مسلم لیگ کے ممبران کی حمایت حاصل ہے ۔ لیکن زمینی حقائق اس طرح نظر نہیں آتے۔ کیونکہ جے یو آئی کے اندر پیدا ہونے والے مخالفت سے سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ممبر ڈسٹرکٹ کونسل اور صدر آل پاکستان مسلم لیگ شہزادہ خالد پرویز صوبائی نیب کی طرف سے مبینہ طور پر رائلٹی کی تقسیم میں کرپشن کے الزام میں گر فتار ہوگئے ہے ۔ اس لئے جے یو آئی کے ناراض ارکان ، پاکستان پیپلز پارٹی وپاکستان تحریک انصاف کی طرف سے انہیں سونپا گیا ٹاسک ادھورا رہ گیا ہے۔ اور مخالف پارٹیو ں نے ضلعی حکومت کا جو خواب دیکھا ہے شرمندۂ تعبیر ہوتانظر نہیں آتا۔ جے یو آئی کے جنرل سیکرٹری مولانا عبدالشکور نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ۔ کہ جے یو آئی کے آٹھ اور جماعت اسلامی کے بارہ ممبران ضلعی حکومت کے قیام میں اہم کردار ادا کریں گے ۔ اور دونوں پارٹیوں کی قیادت نے ضلعی حکومت کیلئے جو فارمولا طے کیا ہے ۔ حلف برداری کے بعد اُسی فارمولے کے تحت ضلعی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ چترال میں مذہبی جماعتوں کی ہی حکومت قائم ہو گی ۔ اور اس حوالے سے اُن کی تربیت کا آ غاز کر دیا گیا ہے ۔ جو تیس تاریخ تک جاری رہے گا ۔ انہوں نے اس بات کو مسترد کیا ۔ کہ ممبران کو ورغلانے کے خوف سے اُن کی نقل وحمل کو محدود کر دیا گیا ہے