468

دھرنوں کی سیاست ابھی باقی ہے۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

اگرچہ وفاقی وزیراطلاعات سینیٹر پرویزرشیدسمیت نون لیگ کے دیگررہنماؤں کاکہنایہ ہے کہ عمران خان مختلف مؤقف اپنانے کے عادی ہیں اورتحریک انصاف چونکہ گلگت بلتستان اورکنٹونمنٹ بورڈزکے الیکشن میں بری شکست سے دوچار ہونے سمیت دھرنے کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلی کے چھ ضمنی الیکشن بھی میں عبرت ناک شکست کھاچکی ہے یہی وجہ ہے کہ ضمنی انتخابات سے کتراتے ہوئے کپتان اب راہ فرار ڈھونڈرہے ہیں مگر انہیں کسی صورت بھاگنے نہیں دیں گے تاہم دوسری جانب 29اگست کوعمران خان کاپارٹی ورکرزسے خطاب کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے عملہ سے استعفے کامطالبہ اور یہ اعلان کے اگر الیکشن کمیشن کاعملہ 4 اکتوبرتک مستعفی نہ ہواتوالیکشن کمیشن کے باہر دھرنا دیں گے اور یہ کہ مستقبل کالائحہ عمل کیاہوگایہ اسی دن بتاؤں گاسے ثابت یہ ہورہاہے کہ ابھی دھرنوں کی سیاست ختم ہوئی نہ ہی نوازحکومت کی مشکلات میں کمی آئی ہے۔اس سے قبل قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122لاہورجس پر 2013کے عام انتخابات میں سردار آیازصادق کامیاب قرارپائے تھے سے متعلق جب 22 اگست کو الیکشن ٹریبونل نے فیصلہ دیتے ہوئے دوبارہ الیکشن کاحکم دیاتواگرچہ فیصلہ مذکورہ میں نون لیگ کوانتخابی دھاندلی کے لئے موردالزام نہ ٹھرانے کے باوجودتحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے انتخابی دھاندلی کے الزام اور چار حلقے کھولنے سے متعلق ان کے مؤقف کو تقویت ملی تھی یہی وجہ تھی کہ پی ٹی آئی کے کارکن اور چیئرمین خوشی سے جھوم اُٹھے تھے اور مذکورہ فیصلہ آنے کے بعد لاہورمیں پارٹی ورکرزسے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے جہاں ٹریبونل کے فیصلے پر بھرپور خوشی کااظہارکیا وہیں الیکشن کمیشن کے چاروں صوبائی کمشنرزسے مستعفی ہونے کابھی مطالبہ کیااور کہاکہ اگرالیکشن کمیشن نے دوہفتوں میں ان کے خط کا جواب نہیں دیاتووہ نہ صرف احتجاج کریں گے بلکہ الیکشن کمیشن کے باہر ایسادھرنادیں گے کہ لوگ پرانے دھرنوں کوبھول جائیں گے تاہم بعدمیں اگرچہ پی ٹی آئی کے ترجمان نعیم الحق نے تردیدکردی تھی تاہم عمران خان سے منسوب بیان یہ بھی سامنے آیاتھاکہ دھرنادینے کی بجائے پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کے متنازعہ اراکین کے خلاف کارروائی کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک ریفرنس بھیجے گی جوکہ قانونی راستہ ہے اورمیڈیاکے ذریعے موصولہ اطلاعات کے مطابق ذرائع کاکہنایہ تھاکہ اس ضمن میں پی ٹی آئی کے قانونی ماہرین نے ریفرنس تیاربھی کرلیاہے مگرالیکشن کمیشن کے اراکین کے خلاف لنگوٹ کستے عمران خان نے احتجاجی دھرنے کے لئے 4اکتوبرکی تاریخ دے کراس معاملے سے متعلق کسی بھی ابہام کودورکردیاہے اورلگ یہ رہاہے کہ اگرمقررہ تاریخ تک پی ٹی آئی کامطالبہ تسلیم نہ کیاگیاجوکہ بظاہرتسلیم ہوتاہوا نظر نہیں آرہاہے کیونکہ الیکشن کمیشن گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کے چیئرمین کے خط کاواضح جواب دے چکی ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور کسی سیاسی جماعت کو آئینی ادارے کے معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ سو حکومتی تیور، الیکشن کمیشن کی جانب سے کپتان کے خط کاجواب اور کپتان کے ردعمل کی روشنی میں اس امکان کورد نہیں کیاجاسکتا کہ تحریک انصاف ایک بارپھرسڑکوں پر نکلے گی اور اگرایساہوتاہے توحتمی طورپریہ نہیں کہاجاسکتا کہ کپتان کی قیادت میں ان کی جماعت الیکشن کمیشن کے عملہ کی چھٹی کرانے میں کامیاب ہوپا ئے گی یایہ احتجاج بھی 126دنوں کے دھرنے کی طرح بے نتیجہ ثابت ہوگا،یہ بھی کہ تحریک انصاف اگراحتجاج کے لئے الیکشن کمیشن کی جانب بڑھتی ہے توجلسہ کرکے چلی جائے گی یااپنامطالبہ منوانے تک ڈیرے ڈال کر پچھلے دھرنے کی تاریخ دہرائے گی البتہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پی ٹی آئی کااحتجاج حکومت وقت کی مشکلات میں مزیداضافے کا باعث بنے گاکیونکہ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ انتخابی دھاندلی کوبنیادبناکرچاہے پچھلادھرناہویاذکرہو4اکتوبرکے اعلان کردہ احتجاج کاپی ٹی آئی کی مہم جوئی کامقصدنوازحکومت کا دھڑن تختہ کرناہے فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت براہ راست وزیراعظم سے استعفیٰ مانگاجارہاتھاجبکہ اب کی بارالیکشن کمیشن کے عملہ کونشانہ بناکراس عمل کودہرائے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اگرچہ پی ٹی آئی کمے سربراہ کایہ کہنادرست ہے کہ انتخابی دھاندلی کے الزامات دیگر سیاسی جماعتیں بھی عائد کرتی رہی ہیں جن میں حکمران نون لیگ بھی شامل ہے مگرانتخابی دھاندلی کے خلاف صرف ان کی جماعت کھڑی ہوئی تاہم انہیں اس حقیقت کوبھی تسلیم کرناہوگاکہ عام انتخابات کے بعد جہاں پی ٹی آئی پنجاب اور دیگر صوبوں میں دھاندلی کاالزام لگاکر احتجاج کررہی تھی اس وقت جمعیت علمائے اسلام ،عوامی نیشنل پارٹی،پیپلزپارٹی ،اور نون لیگ جیسی جماعتیں خیبرپختونخوامیں انتخابی دھاندلی کارونارورہی تھیں جبکہ نون لیگ کے اس مؤقف کو بھی رد نہیں کیاجاسکتا کہ اگر عمران خان چاروں صوبائی الیکشن کمیشن اراکین سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں تو2013 کے عام انتخابات اور خیبرپختونخوامیں حالیہ بلدیاتی انتخابات تواسی الیکشن عملہ کے زیرنگرانی ہوئے ہیں پھراس کاکیابنے گا۔الیکشن کمیشن کے عملہ کے کردارسے متعلق اچانک پیپلزپارٹی کی جانب سے بھی انگلی اٹھتی نظرآئی ہے۔سابق مشیرپٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری اورپیپلزپارٹی کے اہم رہنماؤں یوسف رضاگیلانی کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعدپیپلزپارٹی کاردعمل سمجھ میں آتاہے کیونکہ پشتوکامقولہ ہے کہ ’’گجرمہ وھہ کٹے ئی وھہ‘‘یعنی گوالے کومت مارومارناہے تواس کے کٹے کومارو۔بہرحال ذکرہورہاتھاپی ٹی آئی کے اعلان کردہ احتجاج کاتوگوکہ احتجاج کرناکسی بھی سیاسی جماعت کاجمہوری حق ہے تاہم ملکی مفاداہم ہے یاانتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج جس سے قومی معیشت اور ریاستی اداروں کوناقابل تلافی نقصان بھی پہنچ سکتاہے جس طرح پچھلے سال پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں ہواتھاسواحتجاج کرتی اوردھرنادیتی پی ٹی آئی کواس کااحساس وادراک ضرورہوناچاہئے کہیں ایسانہ ہوکہ ایک ادارہ بچانے کی کوشش میں دیگر ادارے نقصان سے دوچارہوں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں