ایچ آئی وی ایڈزاور خوفناک انکشافات۔۔۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ
ایک زمانہ تھاکہ چیچک، تپ دق،کوڑھ یعنی جزام،خسرہ،فالج،پولیواورکینسر لاعلاج امراض سمجھے جاتے تھے اوران بیماریوں کے شکارہوکر دنیابھرمیں لاکھوں لوگ موت کی آغوش میں چلے گئے ہیں،ان میں بیشتر امراض متعدی کہلاتے تھے یعنی ایک سے دوسرے کو لگ جانے والے یہی وجہ تھی کہ یہ امراض خوف ودہشت کی علامت بنے ہوئے تھے اوران کے شکارہونے والے مریضوں کے قریب جانے اوران سے میل جول رکھنے سے ان کے قریبی رشتہ داربھی کترایاکرتے تھے یوں مریض مکمل طورپر تنہائی اورکسمپرسی کا شکارہوجاتے جبکہ ایک طرف ان انسانیت دشمن امراض نے پنجے گاڑھ کردہشت اور وحشت کابازارگرم کررکھاتھا تودوسری جانب طبی مراکزاور علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونے کے باعث مریض بے بسی کے عالم میں رگڑرگڑکر زندگی کی بازی ہارجاتا ایسے میں اقوام عالم جاگ اٹھے اوران امراض کے خلاف سینہ سپر ہونے کی ٹھان لی ،بین الاقوامی سطح پر تحریکیں اورآگاہی مہمات چلیں جن کے نتیجے میں ورلڈہیلتھ ارگنائزیشن(ڈبلیوایچ او)کاقیام ممکن ہوسکا، دنیاکے مختلف ممالک میں عالمی ادارہ صحت کے ذیلی ادارے اورتحقیق کے نتیجے میں لاعلاج امراض کو قابل علاج بنانے کے لئے تحقیقاتی مراکزقائم کئے گئے،بڑے پیمانے پر فنڈجمع کرانے اور اس کی فراہمی کی بدولت بین البراعظمی سطح پر طبی مراکز قائم کرکے ایمرجنسی بنیادوں پرعلاج معالجے کی سہولیات فراہم کی گئیں،ان لاعلاج امراض کے تدارک اور شہریوں کوحفاظتی تدابیر کے تحت خود کومحفوظ بنانے کے لئے بھی دنیابھرمیں خصوصی آگاہی مہمات چلائی گئیںیہ تمام کوششیں ،کاوشیں اور جنگی بنیادوں پر اٹھائے گئے مؤثر اقدامات بالاخررنگ لے آئے اور نتیجہ یہ ثابت ہواکہ چیچک اور کوڑھ یعنی جزام جیسے لاعلاج جاں لیوا امراض کاتومکمل خاتمہ ہوگیاجبکہ ٹی بی،خسرہ، فالج، پولیواو رکینسر جیسے امراض کوقابل علاج بنایاگیا،چونکہ کینسر کے بے شماراقسام ہیں جن میں بیشترکاعلاج ممکن ہے جبکہ کینسر کے جواقسام اب بھی لاعلاج اور جاں لیواسمجھے جاتے ہیں ان کاعلاج ممکن بنانے کے لئے دن رات تحقیق کامؤثرکام ہورہاہے ،فالج کامرض لوگوں کو لاحق ہوجاتاہے لیکن یہ مرض بھی اب لاعلاج نہیں رہااسی طرح پولیوکے مکمل خاتمے کے لئے پانچ سال تک کے بچوں کو پولیوویکسین کے قطرے پلائے جاتے ہیں اور گو کہ اب بھی کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں پولیوکاکوئی نہ کوئی کیس سامنے ضرور آجاتاہے تاہم یہ مرض وبائی صورت میں موجود نہیں اور عالمی ادارہ صحت کے مالی تعاون سے ریاستی سطح پر اٹھائے جانے والے مؤثراقدامات کو دیکھتے ہوئے امید کی جاسکتی ہے کہ عنقریب اس مرض کابھی مکمل خاتمہ ممکن ہوسکے گا،ہمیں اس وقت ڈینگی مچھر سے بھی خطرات لاحق ہیں جس نے ملک کے گرم ترین شہروں اور دیہاتوں کے بعد اب پہاڑوں پر مشتمل ٹھنڈے علاقوں کو بھی لپیٹ میں لیناشروع کردیاہے اور حکومت اس جاں لیوا دشمن کے خلاف بھی نبردآزمادکھائی دیتی ہے،ہمیں کالے یرقان کے چیلنج کابھی سامناہے تیزی سے بڑھتاہوایہ مرض انسان کو اندر سے دیمک کی طرح چاٹ کرکوکھلاکردیتاہے اور ملک کے طول وعرض میں بے شمار لوگ اس مرض کی بھی لپیٹ میں ہیں تاہم اس وقت ہمیں جس خوفناک اورجاں لیوا مرض کاسامنا ہے وہ ہے ایچ آئی وی ایڈزجوبڑی تیزی سے معاشرے میں سرائیت کررہاہے۔ایچ آئی وی ایڈز خوفناک اور لاعلاج ہونے کے ساتھ ساتھ ایسابے غیرت مرض ہے جو کسی کولاحق ہوجائے تو وہ معاشرے میں جگ ہنسائی ہونے کے خوف سے اس کاعلاج کرانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتاہے اور کسی کو بتانے کی بجائے شرم کے مارے منہ چھپاتاپھرتاہے شائد اس لئے کہ ایچ آئی وی ایڈز ہونے کے عوامل میں ایک بڑی وجہ جنسی بے راہ روی قراردی جاتی ہے جسے ہمارے ہاں معیوب تصورکیاجاتاہے حالانکہ حقیقت احوال یہ ہے کہ ایچ آئی وی ایڈزہونے کاسبب جنسی بے راہ روی کے سوااور بھی ہوسکتاہے مثال کے طورپر انجکشن لگنے اورانتقال خون بھی ایچ آئی ایڈزجسم میں داخل ہوسکتاہے،ایک نجی ٹی وی چینل کے حالیہ قومی سروے جس کی رپورٹ مختلف اخبارات نے بھی شائع کردی ہے کے مطابق پاکستان میں ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کی تعدادمیں ایک سال کے قلیل عرصے کے دوران 39ہزار مریضوں کا اضافہ ہواہے جس کے بعد ایڈز کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 32 ہزارتک جاپہنچی ہے ،سروے کے مطابق آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے جوساٹھ ہزارتک پہنچ چکی ہے دوسرے نمبر پر سندھ میں یہ تعداد 52ہزارہے اورخیبرپختونخوامیں یہ تعداد 11ہزار کے قریب ہوگئی ہے جبکہ بلوچستان میں ایڈز کے مریضوں کی تعدادتین ہزارریکارڈ کی گئی ہے ،وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد چھ ہزاربتائی گئی ہے ،سروے کی ابتدائی رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ ایڈز کے مریضوں کی بڑی تعداد انجکشن کے ذریعے نشہ لینے والوں کی ہے جبکہ جنسی بے راہ روی کے عادی افراد بھی اس موذی بیماری کاشکارہوجاتے ہیں،اگرچہ ایچ آئی وی ایڈز سالوں سے ہمارے ملک میں خاموش سفر طے کررہاہے تاہم مذکورہ سروے رپورٹ ایک خطرناک انکشاف ہے کیونکہ ایک سال کے قلیل عرصے میں اگرایڈز کے مریضوں میں چالیس ہزارکے لگ بھگ اضافہ ہوسکتاہے جس کے نتیجے میں مریضوں کی مجموعی تعدادایک لاکھ 32ہزارتک جاپہچتی توہے تویہ اندازہ لگانامشکل نہیں ہوگاکہ یہ تعداداگلے سال دولاکھ سے تجاوز کرسکتی ہے ضرورت اس امرکی ہے کہ ایچ آئی وی ایڈز کے تدارک کے لئے دیگراقدامات کے ساتھ ساتھ جنگی بنیادوں پر ملک کے طول وعرض میں مؤثر عوامی آگاہی مہم چلائی جائے ،گلی کوچوں،شہروں اوردیہاتوں میں قیمتی انسانی جانوں سے کھیلنے والے عطائی ڈاکٹروں کے خلاف بھی اقدامات اور غیر رجسٹرڈکلینکس،ہسپتالوں اورعطائی ڈاکٹروں کے ذریعے ہونے والے پریکٹس پر بلاتوقف پابندی عائد کردینی چاہئے بصورت دیگر یہ موذی اور جاں لیوامرض اسی طرح بڑھتاجائے گااورہم ہاتھ ملتے ہوئے سوائے افسوس کے کچھ نہیں کرپائیں گے۔