صدا بصحرا۔۔۔ پاک امریکاتعلقات کا نیا موڑ۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضیؔ
پاک امریکا تعلقات گزشتہ 67سالوں میں 20 دفعہ نئے موڑ پر آگئے اب اکیسویں بار نیا موڑ آگیا ہے وائٹ ہاوس اور پینٹا گان کی طرف سے دھمکی دی گئی ہے کہ چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کا سلسلہ بند کرو بھارت کی بالادستی قبول کرو فلسطینیوں کی حمایت سے توبہ کرو ورنہ ہم سے برا کوئی نہیں ہوگا اس میں شک کی کنجائش نہیں کہ عالمی تاریخ میں امریکا سے بُرا کوئی نہیں جرمن چانسلر بسمارک نے 1872میں اپنی قوم کو خبردار کیا تھا کہ سنبھل جاؤ دنیا کی قیادت کرنے کے لیئے تیار ہو جاؤ ورنہ ایسی قوم منظر عام پر آئے گی جس کے باپ کا شجرہ نہیں ہوگا جس کی تاریخ نہیں ہوگی 1945ء میں اقوام متحدہ بننے کے بعد امریکا کو ویٹو پاور دے دیا گیا تو بسمارک کی پیش گوئی حرف بحرف درست ثابت ہوئی یہ وہی قوم ہے جس کی طرف جرمنی کے عظیم دانشور ٗ مورّخ اور فلاسفر نے اپنی حکمرانی کے دوران اشارہ کیا تھا 1951میں پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے اپنی بیگم کو شاپنگ کرانے کے شوق میں ماسکو کی دورے کی دعوت کو ٹھکرا کر امریکا کا دورہ کیا تو سید سبط حسن نے اس پر بڑاجامع اور پر مغز تبصرہ کیا تھا ان کا کہنا تھا کہ جاگیر دار طبقہ پاکستان کو خوشحال دیکھنا نہیں چاہتا اس
لیئے ہمیں امریکی ببول کی گرفت میں لا رہا ہے۔ علی سردار جعفری نے بھی خوبصورت مثال دی انہوں نے لکھا تھا کہ سانپ جس درخت کے ساتھ لپٹ جاتاہے وہ درخت سوکھ کر کانٹا بن جاتا ہے امریکا کی مثال سانپ جیسی ہے گزشتہ 67سالوں میں پاکستان نے امریکا کے ساتھ یک طرفہ دوستی نبھائی ہے 67سالوں میں امریکی امداد سے پاکستان میں ایک کلومیٹر سڑک نہیں بنی، ایک ڈسپنسری تعمیر نہیں ہوئی، ایک پرائمری سکول نہیں بنی ہمیں سٹیل ملز کا تحفہ سویت یونین نے دیا، دفاعی پیداوار میں خود کفالت کے لئے ٹیکسلا، کا مرہ اور واہ کینٹ میں ٹینک ، جہاز اور اسلحہ کی فیکٹریاں پیپلز ری پبلک آف چائنہ نے تعمیر کرکے ٹیکنالوجی کے ساتھ دیدی، امریکہ نے 26فیصد سے لیکر 37فیصد تک کا قرضہ دیا۔ سود کے ساتھ اصل زر وصول کیا اور پاکستان کو ایک دن بھی سر اٹھانے نہیں دیا۔ گذشتہ 67 سالوں میں پاکستان نے 40مواقع پر امریکہ کی مدد کی۔ کوریا کی جنگ، ویت نام کی جنگ ، چین کے ساتھ امریکہ کے تعلقات، 1978ء میں افغانستان کے اندر امریکی مداخلت اور پھر 2001ء میں افغانستان پر امریکہ کے فوجی حملے میں بھی پاکستان کا تعاون امریکہ کو حاصل رہا۔ پاکستان نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری مگر امریکہ کو مایوس نہیں کیا۔1965ء کی جنگ میں سویت یونین نے پاکستان کی مدد کی۔ معاہدۂ تاشقند کی بازگشت اب بھی سنائی دیتی ہے مگر پاکستان نے 1970ء میں امریکہ کو چین تک جانے کا راستہ دے کرسویت یونین کے ساتھ بے وفائی کی۔ 1971ء کی جنگ میں سویت یونین نے ہم سے بدلہ لے لیا۔ امریکہ کو ساتھ دینا چاہیئے تھا لیکن امریکہ نے بھارت کا ساتھ دیا۔ اس بات کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ امریکہ نے 16دسمبر کو بھارت کے ذریعے مغربی پاکستان پر قبضے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ عوامی جمہوریہ چین کی فوری مداخلت اور دھمکی کام آگئی۔مغربی پاکستان امریکہ سے بچ گیا ۔ یکم جنوری 1972ء کے بعد امریکہ کے ساتھ ہمارے سفارتی تعلقات ختم ہونے چاہیئے تھے۔ امریکہ کے دھوکے اور فریب سے باہر نکلنے کا یہ زرّین موقع تھا مگر یہ موقع ہماری قیادت نے کھودیا ۔ قدرت اللہ شہاب اور جنرل گل حسن کی یاد داشتوں سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے ۔ آج میرے سامنے تین قومی اخبارات ہیں ان اخبارات نے امریکی سی آئی اے کے موجودہ سربراہ مائیک پومپیوکے بیان کو دو کالمی اور تین کالمی سرخیوں کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اردو اخبارات نے اس کے بیان کو مخصوص انداز میں ’’ ہرزہ سرائی‘‘ کا نام دیا ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے ہرزہ سرائی نہیں۔ امریکی سی آئی اے کے سربراہ نے دھمکی دی ہے کہ ’’ ہم نے پاکستان کو آخری موقع دیا ہے اس کے بعد حملہ ہوگا۔ اس دھمکی میں انہوں نے امریکی امداد سے دہشت گردی کرنے والے ایک افغان گروپ کا نام لیکر مطالبہ کیا ہے کہ اس گروپ کی حمایت نہ کرو۔ مذکورہ گروپ کو آپ حقانی کا نام دیں یا کوئی اور نام دیں۔ پاکستان اس نام سے ناواقف تھا دہشت گردی سے بھی ناواقف تھا۔ اپریل1978ء میں سی آئی اے حکام نے دہشت گردی کی بنیاد رکھی اور مختلف ناموں سے گروپ تشکیل د یکر وائٹ ہاؤس میں ان کو دعوتوں پر بلایا۔ پاکستان سے ان کو راستہ دینے اورپناہ دینے کا مطالبہ کیا۔ پاکستان نے امریکہ کو خوش کرنے کے لئے ان کو پناہ بھی دے دی راستہ بھی دیا۔ اب وہ حالت ہے جس کے بارے میں ضرب المثل مشہور ہے ’’کوئلے کی دلالی میں منہ کالا‘‘ پاک امریکہ تعلقات کے نئے موڑ پر ہماری عسکری اور سیاسی قیادت کو آخری فیصلہ کرکے امریکہ کے ساتھ تمام تعلقات ختم کردینے چاہیءں۔ شاعر نے سچ کہا ہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے ہم