شہری دفاع — بھولا ہوا مگر قومی اہمیت کا حامل محکمہ/تحریر: کمال عبدالجمیل

محکمہ شہری دفاع پاکستان کے قدیم ترین قومی اداروں میں سے ایک ہے، جو قانونی حیثیت رکھتا ہے اور امن و جنگ، دونوں حالات میں یکساں اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ محض ایک تنظیم نہیں بلکہ ایک ایسا نظریہ اور قومی تحریک ہے جو عوامی خدمت، رضاکارانہ جذبے اور اجتماعی ذمہ داری کے اصولوں پر قائم ہے۔
شہری دفاع ایک بین الاقوامی نوعیت کا ادارہ ہے جو دنیا کے کئی ممالک میں رضاکارانہ بنیادوں پر کام کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی طاقت اس کا قانونی دائرہ کار، رضاکارانہ ڈھانچہ، حب الوطنی اور قومی خدمت کا جذبہ ہے۔
پاکستان بھر میں شہری دفاع کے زیرِ انتظام ہزاروں تربیت یافتہ رضاکار ہر ہنگامی صورتحال میں خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ یہ رضاکار انسانی ہمدردی، قومی خدمت اور شہری ذمہ داری کے گہرے احساس کے ساتھ اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔
شہری دفاع سے وابستہ رضاکار منظم، تربیت یافتہ اور متحرک ہوتے ہیں۔ انہیں ابتدائی طبی امداد، آگ بجھانے، ریسکیو اور دیگر ہنگامی ردِعمل کی تربیت کے ساتھ ضروری آلات بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔
جنگ کے دوران یہی رضاکار محاذِ اوّل پر شہریوں کو فوری امداد فراہم کرتے ہیں. زخمیوں کو محفوظ مقامات تک پہنچانا، آگ بجھانا، ملبے سے متاثرین کو نکالنا، اور حادثات کی جگہ پر فوری مدد فراہم کرنا ان کے فرائض میں شامل ہے۔
تاہم، شہری دفاع کی خدمات صرف جنگی حالات تک محدود نہیں ہیں۔ امن کے دور میں بھی یہ ادارہ عوام میں نظم و ضبط، قانون کی پاسداری، باہمی تعاون، آگ بجھانے، ابتدائی طبی امداد، اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے جیسے امور پر تربیت اور آگاہی فراہم کرتا ہے۔ یہی تربیت کسی بھی قوم کی پائیدار ترقی اور اجتماعی سلامتی کی ضامن ہے۔
بدقسمتی سے خیبر پختونخوا میں یہ ادارہ طویل عرصے سے عدم توجہی اور غیر فعالیت کا شکار رہا ہے، حالانکہ اس کے پاس ایک وسیع اور تربیت یافتہ رضاکار نیٹ ورک موجود ہے جسے قومی مفاد میں مؤثر انداز سے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ ایک ایسا ادارہ جو قومی سلامتی اور انسانی جانوں کے تحفظ میں بنیادی کردار ادا کرسکتا ہے، طویل عرصے سے نظرانداز کیا جارہا ہے۔
اسے عام طور پر ایک”غیر فعال” یا "ثانوی” محکمہ سمجھا جاتا ہے، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ شہری دفاع آج بھی ان چند اداروں میں سے ہے جو کسی بھی ہنگامی صورتحال میں تیز ترین اور مؤثر ترین ردعمل دے سکتے ہیں۔
یہ محکمہ صوبائی، ضلعی اور مقامی سطح تک رضاکاروں کے نظم و نسق کا منظم نظام رکھتا ہے۔ اس کے باوجود، مختلف غیر سرکاری تنظیمیں اضلاع میں کام کرتے وقت اس ادارے کے ساتھ اشتراک کے بجائے اپنے علیحدہ نظام قائم کرتی ہیں۔
رضاکاروں کو الگ طور پر منظم کرنا بُری بات نہیں، مگر بہتر یہ ہے کہ پہلے سے تربیت یافتہ اور دستیاب انسانی وسائل کو استعمال میں لاکر نظام کو مزید مضبوط، مؤثر اور تیز بنایا جائے۔ جب ایک ہی قومی مقصد کے لیے متعدد ادارے علیحدہ علیحدہ نظام چلائیں گے تو نتیجتاً انتشار اور کمزوری پیدا ہوگی، نہ کہ بہتری۔
ملک میں بڑھتی ہوئی بدامنی، دہشت گردی اور قدرتی آفات، خصوصاً خیبر پختونخوا جیسے صوبے کی صورتحال کے پیشِ نظر شہری دفاع کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ موسمی تغیرات نے سیلاب، زلزلے اور زمین کھسکنے جیسے واقعات میں اضافہ کر دیا ہے، جس سے فوری اور منظم ردِعمل کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔
ایسے حالات میں اگر کوئی ادارہ فوج اور پولیس کے شانہ بشانہ منظم اور بروقت امدادی کارروائیاں انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، تو وہ شہری دفاع ہی ہے۔
ہنگامی صورتحال اور آفات سے نمٹنے کے لیے کئی غیر سرکاری ادارے سرگرمِ عمل ہیں، جو اپنے رضاکاروں کو تربیت دے رہے ہیں۔
ایسے تمام اداروں کو چاہیے کہ وہ شہری دفاع کو بطور مرکزی سرکاری ادارہ تسلیم کریں اور اس کے ساتھ باضابطہ شراکت داری قائم کریں۔ اس طرح امدادی سرگرمیوں کی رفتار اور اثر دونوں میں نمایاں بہتری آئے گی۔
قومی سلامتی، عوامی فلاح اور ہنگامی حالات سے مؤثر طور پر نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ شہری دفاع کو موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق دوبارہ فعال، مضبوط اور جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔
اگر اسے وہی مقام واپس دیا جائے جو اسے ماضی میں حاصل تھا، تو شہری دفاع ایک بار پھر پاکستان کی سلامتی، خدمت اور انسانیت کا صفِ اوّل کا ادارہ بن سکتا ہے۔
مزید برآں، ضروری ہے کہ اس کے کمانڈ اسٹرکچر کو ازسرِ نو منظم کیا جائے اور اس کے رضاکار نیٹ ورک کو مزید فعال، مضبوط اور متحرک بنایا جائے، کیونکہ رضاکار ہی اس ادارے کا حقیقی سرمایہ ہیں۔
اسی طرح ادارہ جاتی اقدامات اور قانون سازی کے ذریعے تمام غیر سرکاری تنظیموں، نجی اداروں اور سرکاری محکموں کو پابند بنایا جائے کہ وہ ہنگامی حالات کے دوران شہری دفاع کے ساتھ قریبی اشتراک عمل میں کام کریں۔
ان کی کوششوں کا محور اس رضاکار فورس کی استعداد میں اضافہ اور اس کے نظام کو مستحکم بنانا ہونا چاہیے، جو اس اہم قومی ادارے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے