قومی وطن پارٹی نے خیبرپختونخواکی صوبائی حکومت میں دوبارہ شامل ہونے کامعاہدہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک سے کرلیاہے جس کے مطابق قومی وطن پارٹی کے دووزراءاور دو معاونین خصوصی کابینہ میں لئے جائیں گے یہ بات بھی معاہدے کاحصہ بنی ہے کہ کرپشن کے الزام لگنے پرپی ٹی آئی کی قیادت یا وزیراعلیٰ قومی وطن پارٹی کے وزراءاور معاونین خصوصی کوان کے عہدوں سے الگ نہیں کرسکیں گے بلکہ اس حوالے سے کوئی بھی بات سامنے آئی تو قومی وطن پارٹی کی قیادت کوبتائی جائے گی۔ اگرچہ قومی وطن پارٹی کے سربراہ افتاب احمد خان شیرپاﺅ کاکہنایہ ہے کہ حکومت میں شمولیت کافیصلہ اپنی مرضی سے کریں گے تاہم دونوں جماعتوں کے مابین شراکت اقتدارکامعاہدہ طے پانے کے بعد اب موصولہ اطلاع یہ ہے کہ قومی وطن پارٹی کی جانب سے سکندرخان شیرپاﺅ اور انیسہ زیب طاہرخیلی 12اکتوبرکوصوبائی وزراءکی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے یوں صبح کابھولاشام کوگھرلوٹ آئے تواسے بھولانہیں کہتے کے مصداق قومی وطن پارٹی توشراکت اقتدار کے لئے قائم اتحادی مدارمیں واپس آگئی اور طے پانے والے معاہدے کی رو سے آخرتک حکومت میں شامل رہے گی لیکن صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی کی قیادت قومی وطن پارٹی کی حکومت میں واپسی کوکیوں اہم سمجھ رہی تھی ۔کیایہ خدشہ ظاہر کیاجارہاتھاکہ جماعت اسلامی حکومت کوخیرباد کہنے والی تھی اوراس کاپی ٹی آئی کی قیادت اور وزیراعلیٰ پر دباﺅ تھاجس کا مختصر ذکرعمران خان نے گزشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی کوانٹرویودیتے ہوئے کیابھی ہے مگراس حوالے سے مزید بات کرنے سے قبل اس بات کاجائزہ لیناضروری سمجھتاہوں کہ واقعی سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی کیونکہ اس سے قبل اس ایشوپر میں نے اپناشائع ہونے والاایک آرٹیکل جب سوشل میڈیاپر اپ لوڈکیاتومیرے بچپن کے دوست عطاءمحمد وردگ جو ان دنوںسعودی عرب میں مقیم ہیں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھاتھاکہ” ہم آہ بھی کرتے ہیں توہوجاتے ہیں بدنام۔وہ قتل بھی کرتے ہیں توچرچانہیں ہوتا“ اور ساتھ میں یہ بھی ذکر کیاتھا کہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔سواس حوالے سے جائزہ لیاجائے تو الیکشن 2013سے قبل نون لیگ کی قیادت کادعویٰ یہ تھاکہ حکومت میں آکرایک سال میں توانائی بحران پر قابوپالیں گے جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ نون لیگ کی حکومت بنے تیسراسال مکمل ہونے کوہے مگرقابوپاناتو درکنار توانائی بحران مزید بڑھ گیاہے اور حکومت اقدامات کرنے کی بجائے خود کوبری الذمہ ثابت کرنے کے لئے طرح طرح کے جوازپیش کرتی دکھائی دیتی ہے ۔خیبرپختونخوامیں جب پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی توپی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کاکہناتھاکہ اس صوبے کومثالی صوبہ بنائیں گے جبکہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک بھی یہی کہتے سنائی دے رہے تھے کہ غربت اور بے روزگاری پر قابوپانے کی غرض سے انڈسٹریل زونزبنائیں گے،نئے شہر بسائیں گے،تعلیم کو مفت کریں گے،یکساں نظام تعلیم رائج کریں گے مگر حقیقت احوال یہ ہے کہ لگ بھگ تین سال کی حکومتی مدت گزرنے کے بعد ایساکچھ بھی ہوتاہوانظرنہیں آیاالبتہ اگر کچھ دکھائی دیاہے تووہ دعوں اور وعد وں کی ڈھٹائی ہے جس پروزیراعلیٰ پرویزخٹک اوران کی حکومت قائم ہے ۔پچھلے سال شہراقتدار اسلام آباد کے ڈی چوک میںحکومت وقت کے خلاف دھرنادے کرپی ٹی آئی کے سربراہ کاحتمی طورپر کہنایہ تھاکہ جب تک نوزشریف وزارت عظمیٰ کے منصب سے مستعفی نہیں ہوتے تب تک وہ دھرناختم نہیں کریںگے مگرپچھلے سال دسمبرمیں آرمی پبلک سکول پر پیش آنے والے افسوس ناک واقعہ کوجوازبناکرانہوں نے 126دن بعد دھرناختم کرنے کا اعلان کیاجبکہ نوازشریف بدستور وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائزہیں۔اسی طرح ذکرہونومبر2013کے واقعے کاجب پی ٹی آئی کی قیادت کی ہدایات کی روشنی میں بدعنوانی کے الزامات کی بنیاد پر وزیر اعلیٰ پرویزخٹک نے قومی وطن پارٹی کے دو وزراءبخت بیدار خان اور ابرارحسین سے وزارتیں واپس لی تھیں اور ان کے اس اقدام کے نتیجے میں قومی وطن پارٹی نے حکومت سے اتحاد ختم کرکے راستے الگ کئے تھے۔توپی ٹی آئی کی قیادت اور صوبائی حکومت کاکہناتھاکہ کرپٹ لوگوں کو حکومت میں نہیں رکھ سکتے جبکہ قومی وطن پارٹی کی قیادت کادعویٰ تھاکہ پی ٹی آئی والے خودکرپٹ ہیں اور اپنی کرپشن چھپانے کے لئے نشانہ ان کی جماعت کوبنارہے ہیںاور ہم پختون دشمن اتحاد کے ساتھ مزید نہیں چل سکتے مگر آج نظرآتی صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے اسی جماعت کے ساتھ دوبارہ اتحاد کربیٹھی جن کے وزراءان کی نظرمیں کرپٹ تھے اور قومی وطن پارٹی بھی اسی اتحاد کاہم سفر بنی جو کبھی ان کی نظرمیںپختون دشمن تھا۔یوں واقعی ثابت ہوگیاکہ سیاست میں کوئی بات حرف آخرنہیں ہوتی ۔اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف تو سوال یہ اٹھتاہے کہ جماعت اسلامی کا خیبرپختونخواحکومت میں مسقبل کیاہوگاکیونکہ چند ماہ قبل جب قومی وطن پارٹی کی حکومت میں واپسی کی بازگشت ہورہی تھی تب جماعت اسلامی کے صوبائی حکومت سے الگ ہونے اورمرکزی حکومت میں شامل ہونے کی خبریں بھی گردش میں تھیںاور دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات کی بوبھی آرہی تھی۔کراچی میں قومی اسمبلی کے ایک حلقہ پر ہونے والے ضمنی الیکشن میںاتحادکی بجائے دونوں جماعت کے اپنے اپنے امیدوار کھڑے کرنے جبکہ پنجاب کے ایک ضمنی الیکشن میں جماعت اسلامی کی جانب سے پی ٹی آئی کی بجائے نون لیگ کی حمایت جیسے معاملات اس رائے کوتقویت دے تھے۔این اے 122 لاہور میںنون لیگ کے امیدوار سردارآیازصادق نے دعویٰ کیاہے کہ حمایت کرنے کی غرض سے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ ان کے ساتھ رابطے میں ہیںجبکہ قومی وطن پارٹی اورپی ٹی آئی کے مابین ہونے والے شراکت اقتدارکے معاہدے کے دن پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے جہاں یہ بیان دیاکہ پوری دنیاامریکہ میں بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے گرد گھومتی رہی جبکہ وزیراعظم نوازشریف کوکسی نے دیکھابھی نہیںاس کے اگلے روزجماعت اسلامی کے مرکزی امیر سینیٹر سراج الحق نے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی میں وزیراعظم نواز شریف کی تقریر کی تعریف کرتے ہوئے کشمیراورفلسطین کے حوالے سے ان کے مﺅقف کو جرات مندانہ قراردیا۔ان ساری کڑیوں کوملاکر یہ کہاجاسکتاہے کہ دونوں جماعتوں کے مابین کچھ توہے جس کی پردہ داری ہے تاہم جماعت اسلامی واقعی خیبرپختونخواکی حکومت خیربادکہ دے گی کہ نہیں اور اگرجماعت اسلامی ایساکوئی فیصلہ کرتی بھی ہے تویہ کب ہوگااس بارے کچھ کہناقبل ازوقت ہوگا۔