داد بیداد…استاد ہی سب کچھ ہے ۔۔۔ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
تعلیم کے نظام میں استاد ہی سب کچھ ہے ۔اس پر اُس وقت بھی مبا حثہ ہوتا تھا جب کنفیوشس کے سامنے بیٹھے ہوئے دیہاتی تعلیم کے بارے میں چینی فلاسفر کے خیالات جاننا چاہتے تھے یا ایتھنز کے باشندے افلاطون، سقراط ، ارسطو اور لقمان حکیم کے سامنے دو زانوبیٹھ کر کسب کمال پر گفتگو میں حصہ لیتے تھے ۔ یہ موضوع اس وقت بھی زیرِ بحث تھا جب نبی کریم ﷺ نے اصحابِ صُفّہ سے کہا میں معلم بناکربھیجا گیا ہوں ۔ خلیل جبران نے استاد کے کردار کو صر ف ایک جملے میں بیان کیا ہے وہ کہتا ہے ’’ اگر تم استاد بننا چاہتے ہو تو اونچے کھمبے پر لگا ہوامشعل نہ بنو بلکہ ایسی روشنی بن جاؤ جو ضرورت مند کے ہاتھ میں ہو‘‘ ۔ آغاخان یونیورسٹی انسٹیٹیو ٹ فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ (AKU-IED) کے ذیلی ادارہ پروفیشنل ڈویلپمنٹ سنٹر چترال نے اپنی 25سالہ خدمات کا احاطہ کرنے کے لئے جس مجلس مذاکرہ کا اہتمام چترال میں کیا اس کا یہی عنوان تھا ’’استاد ہی سب کچھ ہے ‘‘ تعلیمی نظام میں استاد کو ریڑھ کی ہڈی کا درجہ حاصل ہے ۔ مجلس مذاکرہ میں خیبر پختونخوا ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے حکام ، ضلعی انتظامیہ کے افسران ، سول سوسائٹی کے نمائندے ، آغا خان یونیورسٹی کے سابق طلباء و طالبات اور مختلف سکولوں کے پرنسپل اور اساتذہ بڑی تعداد میں شریک تھے۔ پروفیشنل ڈویلپمنٹ سنٹر چترال کے سربراہ ڈاکٹر ریاض حسین نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا ۔ پروفیسر انجم ہالائی نے آغا خان یونیورسٹی کی تاریخ اور یونیورسٹی کے شعبوں کے حوالے سے جائزہ رپورٹ کے چیدہ نکات پیش کئے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر منہاس الدین نے چترال میں آغا ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کی خدمات اورضلعی انتظامیہ کی کاوشوں کا ذکر کیا ۔ مجلس مذاکرہ کی نشست میں بریگیڈئیر (ر) خوش محمد ، محمود غزنوی ، ڈاکٹر تاج الدین اور راقم الحروف نے موضوع کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ۔ ڈاکٹر ساجد علی نے مذاکرے کا خلاصہ حاضرین کے سامنے رکھا۔ تیسری نشست ادارہ برائے تعلیمی ترقی کے سابق طلباء و طالبات کے لئے وقف تھی۔ پروگرام میں ادارے کا تعارف بھی شامل تھا ۔ تعارف کے بعد ذوالفقار علی ، زبیدہ خانم اور ڈاکٹر علی نواب نے اپنے تعلیمی سفر اور اپنی کامیابیوں میں ادارہ برائے تعلیمی ترقی کے نمایاں کردار پر روشنی ڈالی ۔ ڈائریکٹر پروگرام ڈاکٹر عبد الحق واحدنا نے اپنی مختصر گفتگو میں بتایا کہ گذشتہ 25سالوں میں آئی ای ڈی سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء طالبات کی تعداد 11ہزار ہے ۔ یہ فضلاء چترال سے لیکر شمالی امریکہ تک چار بر اعظموں میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ جنوبی امریکہ ، افریقہ، آسٹریلیا اور ایشیا کے بے شمار ملکوں میں یہ فضلاء معیاری تعلیم پھیلانے میں مصروف ہیں ۔ اس سے قبل پروفیسر انجم ہالائی نے حاضرین کو بتایا کہ 1983ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے جنرل ضیاء الحق نے آغا خان یونیورسٹی کو چارٹر عطا کیا۔ اُس وقت تین شعبے کام کررہے تھے نرسنگ سکول، میڈیکل کالج اور آغا خان ہاسپٹل کے قیام کو 10سال گذرنے کے بعد 1993ء میں ادارہ برائے تعلیمی ترقی کا قیام عمل میں آیا ۔ آغا خان یونیورسٹی کے مختلف اداروں میں 42000ملازمتیں لوگوں کی دی گئی ہیں اور ہر سال ایک ارب ڈالر کا سرمایہ پاکستانی معیشت میں آغا خان یونیورسٹی کی وساطت سے گردش کرتا ہے ۔ مجلس مذاکرہ کے شرکاء نے کمرہ جماعت میں تعلیم وتعلّم کے عمل کو بامقصد بنانے کے لئے استاذ کے مرکزی کردار اوراس کی مناسب تربیت پر اظہار خیال کیا۔ شرکائے گفتگو نے جدید تعلیمی نظریات کے حوالے سے ثابت کیا کہ ’’ استاد ہی سب کچھ ہے ‘‘ کیونکہ مغرب میں بڑی یونیورسٹیاں استاد کے نام سے اپنی پہچان رکھتی ہیں ۔ لوگ پروفیسر کا نام لیکر داخلے کے لئے جاتے ہیں۔ مشرقی تہذیب اور اسلامی روایات میں مدرسہ اور سکول استاد ہی کے نام پہچانا جاتا تھا ۔ دارالعلوم دیوبند کے قیام کی کہانی استاد سے شروع ہوتی ہے جس نے درخت کے سایے میں درس و تدریس کا عمل شروع کیا چترا ل میں 600سال پہلے جو سکول اور مدرسے قائم تھے وہ استاد ہی کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ آج بھی نادر عزیز کا نام پختہ ماسٹر کے طور پر ضلع بھر میں مشہور ہے۔ وجہ یہ ہے کہ تعلیمی نظام میں استاد ہی سب کچھ ہے
درس ادیب گر بود زمزمہ محبتے
جمعہ بمکتب آور د طفل گریز پائے را
مجلس مذاکرہ کے اختتام پر تجویز دی گئی کہ اس طرح کے مکالمے با ر بار ہونے چاہیءں اور دیے سے دیا جلتے رہنا چاہیئے۔ پروگرام کا اختتام ثقافتی مظاہرے پر ہوا، فضل الرحمن شاہد نے فنکاروں کا تعارف کرایا، انصار الٰہی نعمانی ، بشارت احمد اور دیگر فنکاروں نے لوگ گیت پیش کر کے حاضرین سے داد حاصل کی
ہم پر ورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گذرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
اک طرزِ تغافل ہے سو اُن کو مبارک
ایک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے