762

مرغیوں کو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے کیسے بچائے؟

90 ء کے دہائی میں ہمارے علاقے کے ہر گاؤں کے ہر گھر کے دروازے سے صبح سویرے مرغیوں کے جنڈ کیکی کے آوازیں کرتے ہوئے جلدی جلدی نکلتے تھے اور اس میں موجود مرغ خوش ظبعی کے لئے کبھی کبھی اذانیں بھی دیتے ۔ دن بھر روزی کے تالاش میں مشقتیں اٹھانے کے بعد شام کو اسی طرح ہر گھر کے دروازے کے سامنے اسی طرح کا منظر تھا جو صبح کے وقت دیکھنے کو ملتا تھا ۔ ہر صبح و شام کا وہ پر کیف منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ مرغیوں کا پالنا ہر گھر کا لازمی جز تھا جس سے نہ صرف لوگ اپنے گھر کے ضروریات پوری کرتا تھا بلکہ وہ اس کے لئے نقد آمدنی کا ایک اہم زریعہ بھی تھا ۔ ہمارے بزرگ اپنے مرغیوں کا اسی طرح خیال رکھتے تھے جس طرح اپنے بچوں کا رکھتے تھے۔ گھر میں مرغیوں کی تعداد سینکڑوں میں تھا لیکن مجال تھا کہ اس میں کوئی مرغی گم ہو ا ہوں ۔ مرغیوں کے بچوں کو مختلف رنگوں اور دھاگوں سے نشانات لگائے جاتے تھے تاکہ وہ کسی اور کے مرغیوں کے بچوں کے ساتھ گڈمڈ نہ ہو جائے ۔ مرغیوں کے پرورش میں کلیدی کردار ہمارے ماؤں اور بہنوں کا تھا اور کچھ بزرگ مرد حضرات بھی اس کار خیر میں اس کا مدد کیا کرتے تھے ۔ دیسی مرغیوں کی فرمائیش گاؤں کے باسیوں سے باہر سے آئے ہوئے مہمان خاص طورپرکرتے تھے اور وہ ایک سوغات کا درجہ رکھتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ دیسی مرغیوں کے پالنے کا شوق کم ہوتا چلاگیا اور اب شاید کسی گھر میں ایک یا دو مرعی بمشکل مل جاتا ہے۔ اب اسی کے جگہ فارم کے مرغیوں نے لی ہے ۔ اب دوسرے علاقوں کی طرح باجوڑ میں بھی مرغیوں کے فارم بنے ہیں جو صرف گوشت کے مقصد کے لئے ہوتے ہیں جس کو پولٹری فارم کہا جاتا ہے ۔زرعی یونیورسٹی میں پولٹری سائنس شعبہ کے پروفیسر ڈاکٹر حضرت سلطان کے مطابق ہمارے خیبر پختوں خواہ میں مرغیوں کے کئی اقسام ہیں جس میں بریلر، لیر،فایومی اور آر،آئی ،آر جس کو عام لوگ گولڈن مرغی کہتے ہیں ۔ اس میں بریلر کو گوشت کے لئے پالتے ہیں لوگ جب کہ فایومی کو انڈوں کے لئے پالتے ہیں جس کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے اور عام طور پر گھروں میں بھی پالا جاتا ہے اسی طرح گولڈن کی پیداوار بھی بہت اچھی ہوتی ہے اور اس میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اگر دیکھا جائے توموجودہ وقت میں دیسی مرغیوں کے نسل میں کمی کے دوسرے وجوہات کے ساتھ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ موسم میں تبدیلی واقع ہوئی ہے ۔ ڈاکٹر حضرت سلطان کہتے ہیں کہ جس طرح ماحولیاتی تبدیلی کے دوسرے جانداروں پر اثرات ہے ایسی طرح مرغیوں پر اس کے اثرات بھی زیادہ ہے جس سے ہمارے علاقوں میں زیادہ تر لوگوں واقف نہیں ہے جس کی بڑی وجہ اس میں تعلیم کی کمی اور مرغ بانی کے بارے میں مطلوبہ تربیت کا نہ ہونا شامل ہے ۔ کیونکہ ماحولیاتی تبدیلی زہر نہیں کہ وہ سیدھی یعنی فوری اثر کرے بلکہ یہ آہستہ آہستہ اپنی اثرظاہر کرتا ہے اور موجودہ وقت میں جس طرح ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات ہر چیز پر واضح ہے اسی طرح مرغیوں پر بھی ہے ۔ بابرمحمد عالم نے باجوڑ صدیق آباد میں انڈے دینے والے مرغیوں کا ایک فارم بنایا تھا جس میں انہوں نے 200تک کے چوزے پالے تھے کیونکہ یہاں پورے باجوڑ میں انڈے دینے والے مرغیوں کا کوئی فارم نہیں ہے اس لئے یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے ۔لیکن وہ کہتے ہے کے بہت محنت کے بعد جب اس کے مرغیوں نے انڈوں کی پیداوار دینا شروع کیا اور وہ خوب منافع کمارہے تھے ۔ اگر چی وہ محولیاتی تبدیلی کے اثرات سے واقف نہیں ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ تین مہینے بعد سردیوں کے موسم کے شروع ہوتے ہی اس پر ایک بیماری نے حملہ کیا جس سے وہ سارے مر غیاں چند دنوں میں مرگئے اور اس کو بہت نقصان ہوا کیونکہ اس کو اس بارے میں کوئی معلومات نہیں تھی کے اب اس کا علاج کس طرح کیا جائے اگر چہ انہوں نے مختلف لوگوں اور مقامی عطائی ڈاکٹروں سے مشورہ لیالیکن کسی نے صحیح علاج نہیں بتایا اور اسی طرح اس کو وہ نقصان اٹھانا پڑا۔اس کے بعد انہوں نے اس کاروبار کو مکمل خیر باد کہا ۔ ڈاکٹر حضرت سلطان کے مطابق جس طرح انسان سخت سردی اور سخت گرمی میں خوش نہیں ہوتا اور اس کی کاروباری صلاحیتیں متاثر ہوتی ہے اسی مرغیاں بھی نہ سخت سردی میں پیداوار دیتی ہے اور نہ سخت گرمی میں ۔ یعنی دونوں حالاتوں میں اس کی پیداوار متاثر ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی صحت کمزور ہوتی ہے اور وہ کئی بیماریوں کا باسانی شکار ہو جاتے ہیں۔ مرغیوں کے کئی بیماریں ہیں جو ماحولیاتی تبدیلی کے وجہ سے عام ہوئے ہیں اور جو وائرس کے زریعے لگتے ہیں ان بیماریوں میں رانی کھیت، گمبورو اور ایک بیماری جو آج کل بہت زیادہ ہے وہ انفلواینزا یعنی فلو ہے ، یہ بیماریاں دونوں موسموں میں ہوتی ہے لیکن سردیوں میں یہ زیادہ ہوتی ہے اور اگر اس کا علاج بروقت نہیں کیا گیاتو اس سے جلد مرغیاں مر جاتے ہیں۔ ڈاکٹر حضرت سلطان کے مطابق وہ تدریس کے ساتھ ساتھ مختلف چیزوں پر کام کر رہے ہیں جسمیں اس مرغیوں کے بیماریوں کے روک تھام اور اس کے نئی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے کوششیں شامل ہیں ۔ انہوں نے دیسی مرغیوں کے نسل کو محفوظ کرنے کے لئے ایک پرگرام ترتیب دیا ہے جس میں وہ خیبر پختون خواہ کے دیہی علاقو ں سے دیسی مرغیوں کے تمام اقسام اکٹھا کرنا اور اس کے افزائش کرنا ہے اور اس کو دوبارہ ان دیہی علاقوں کے لوگوں میں تقسیم کرنا ہے تاکہ اس کے نسل میں اضافہ کیا جائے اور اس کے پیداواری صلاحیت ماحولیاتی تبدیلی کے مطابق کیاجائے تو اس سے اس کے نسل محفوظ بھی ہوگی اور پیداوار بھی زیادہ ہوگی ۔اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں کو پولٹری فارم اور گھریلوں سطح پر مرغ بانی کے جدید طریقے کے بارے میں تربیت دے رہے اور اس میں ہم نے خواتین کو بھی شامل کیا ہے تاکہ وہ گھریلوں سطح پر اس سے زیادہ پیداوار حاصل کر سکیں ۔ اور جو لوگ ہمارے ساتھ تربیت مکمل کرتے ہیں تو پھر ہم اس کو اچھی نسل کے مرغیاں دیتے ہیں جس کی پیداوار زیادہ ہو تی ہے۔ اس لئے کوئی بھی کام شروع کرنے کے لئے اس کام کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ضروری ہے ۔اس لئے مرغیوں کے شوقین لوگ جو اس کے پالنے کا شوق رکھتے ہے یا وہ پالتے ہیں تو اس کو چاہئے کہ وہ مندرجہ ذیل چیزوں یعنی تجاویز پر عمل کریں تو وہ کم وقت میں زیادہ پیداوار حاصل کر سکتے ہیں ۔
1) مرغیوں کو ہر موسم کے شدت سے محفوظ رکھنے کے لئے اس کو ہر موسم میں معتدل درجہ حرارت فراہم کرنا چاہئے ۔
2) ہمیشہ مرغیوں کو کمرے میں بند کرنا چاہئے اور اس کے صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہئے اور اس میں تازہ ہوا کے لئے روشندان یا سوراخ چھوڑنے چاہئے۔
3) موسم کے مطابق اس کو بیماریوں سے بچاؤ کا ویکسین کرنا چاہئے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرنا چاہئے۔
4) اپنے علاقے کے وٹرنری ڈاکٹر سے وقتافوقتا مشورہ لینا چاہئے اور اس پر عمل کرنا چاہئے اس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ۔
5) مرغیوں سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لئے اس کے خوراک کا خیال رکھنا چاہئے اور اس کو متوازان خوارک دینا چاہئے ۔
6) مرغیوں کوانڈے رکھنے کے وقت اس کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کرنا چاہئے جہاں پر لوگوں کا آنا جانا ن نہ ہو خاص کر بچوں سے اس کو محفوظ جگہ پر رکھنا چاہئے اس کے ساتھ اس کو بارش سے محفوظ رکھے اور ایک مرغی کو بیس سے تیس تک انڈے رکھنے چاہئے اور اگر موسم بہار میں رکھے جائے تو اس کا بچے پیدا کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔
7) اگر تجارتی پیمانے پر مرغیوں کا کام شروع کرنا ہے تو اس کے لے ضروری ہے کہ پہلے مطلوبہ تربیت حاصل کریں اور اس کے لئے ہم سے یا اپنے علاقے میں موجود محکمہ لائیوسٹاک کے اہلکاروں سے رابطہ کریں ۔
ڈاکٹر حضرت سلطان نے کہا کہ اگر کوئی ان سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں تو وہ ضرور ہم سے رابطہ کریں وہ اس کے ساتھ بھر پور تعاون کرینگے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں