219

گوڈے گوڈے کرپٹ۔۔۔ایم سرورصدیقی

خبر ایسی ہے جس نے کم از کم مجھے تو ہلا کررکھ دیاہے کہ کوئی حکمران اتنا غیرت مند بھی ہو سکتاہے یہ شاید ہم پاکستانیوں کے عجیب بات ہوبہرحال ایسا بھی ہوتاہے خبر یہ ہے کہ لاطینی امریکی ملک پیرو کے سابق صدر گارسیا نے گرفتاری سے بچنے کے لئیخودکشی کرلی۔غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق ایلن گارسیا 1985 سے 1990 اور 2006 سے 2011 تک پیرو کے صدر رہے تھے۔ ان کو بدعنوانی کے الزامات کا سامنا تھا اور ان پر الزام تھا کہ انہوں نے برازیلی تعمیراتی کمپنی کو ملک میں بڑے پیمانے پر سرکاری کاموں کے ٹھیکوں کے عوض اس سے رشوت وصول کی تھی۔پولیس گارسیا کو گرفتار کرنے پہنچی تو انہوں نے خود کو گولی مارلی جس کے بعد گارسیا کو شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ انتقال کرگئے۔پیرو کے دفتر استغاثہ کے مطابق وارنٹ کے تحت گارسیا کو 10روز کے لئے زیر حراست رکھا جاسکتا تھا جس کے دوران ان کے خلاف شواہد جمع کئے جانے تھے، اس کے علاوہ ان کو گرفتار کئے جانے کا مقصد انہیں ملک سے فرار ہونے سے روکنا بھی تھا۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کرپشن کے الزام میں کسی سابق حکمران کو گرفتار کرنا مقصود ہوتاہے تو جمہوریت کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں ابھی چند دن پہلے منشیات کیس میں ایک سیاستدان کی رہائی ہوئی ہے جس کا ’’تاریخی‘‘ استقبال کیا گیا جس سے اندازہ لگایا جا سکتاہے ہماری قوم کی اخلاقی پستی کا کیا معیار ہوگیاہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے پانامہ کیس میں میاں نوازشریف کو تاحیات ناہل قراردے دیا عدالتیں ،وکیل، حامی، مخالف میاں نوازشریف اور انکے فیملی ممبران سے پوچھ پوچھ کر ہلکان ہوگئے کہ آپ کی جائدادکی منی ٹریل کیا ہے لیکن انہوں نے ایک ہی رٹ لگارکھی نھی میرے خلاف مقدمات سیاسی ہیں مجھ سے انتقام لیا جارہاہے ان کے علاوہ نیب جن 150نامی گرامی شخصیات کے خلاف تحقیقات کر رہی ہے ان میں آصف علی زرداری ، اسحاق ڈار، یوسف رضا گیلانی، میاں شہباز شریف،راجہ پرویز اشرف،آغا سراج درانی ،بلاول بھٹو زرداری، فریال تالپور ،حمزہ شہبازشریف،نصرت شہباز، تہمینہ درانی اور نہ جانے کون کون شامل ہیں لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ان میں بیشتر سیاستدان ہیں اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ سیاستدانوں کی اکثریت کرپٹ ہے جن کے خلاف اختیارات سے تجاوزکرنے،سرکاری زمینوں پر قبضہ،سرکاری فنڈز خوردبرد کرنے کے الزامات ہیں شنیدہے نیب نے ان تمام شخصیات کے خلاف گھیرا تنگ کردیا ہے۔ماضی میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے درجنوں مقدمات قائم کئے گئے جس کی پاداش میں سابقہ صدر 8سال قید بھی رہے مقدمات کی پیروی کے لئے سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کردئیے گئے لیکن ٹائیں ٹائیں فش کے مصداق ان پر ایک بھی الزام ثابت نہیں کیا جا سکا کیونکہ فائلوں سے اصل دستاویزات ہی غائب کردی گئیں اور فوٹو کاپی دیکھ کر انہیں مقدمات سے بری کردیا گیا اس طرح تمام مقدمات ریت کی دیوار ثابت ہوئے پاکستان میں جن پر کرپشن کا مقدمہ بنا وہ اپنے حامیوں کے جھرمٹ میں حلق پھاڑ نعروں کی گونج میں عدالت میں اس شان سے وکٹری کا نشان بناتاہوا پیش ہوتے ہیں جیسے انہوں نے کشمیر فتح کرلیا ہو۔ اگر گوڈے گوڈے کرپشن میں ملوث ملزمان کا یہ اندازہے تو پھر اندازہ لگایا جا سکتاہے ہم اخلاقی اقدارکی کس منزل پر ہیں اب خدا ہی بہتر جانتاہے یہ بلندی ہے یا پستی۔۔۔ اگر یہ بلندی ہے تو پھر پستی کیسی ہوگی؟۔لگتاہے کرپشن ہر ادارے کی رگ رگ میں سماگئی ہے ۔ جس طرح آصف علی زرداری کی کرپشن کہایناں ہرخاص و عام میں آج تک گردش کررہی ہیں اور جیسے میاں نوازشریف جیسے ایک مقبول ترین رہنما کی آف شور کمپنیوں کی ملکیت ثابت ہونا عوام کے لئے ایک تازیانے سے کم نہیں تھا ۔ ایک اور بات میاں نوازشریف نے قوم سے خطاب میں عوام کو اپنی فیملی کے بارے میں’’ حقائق‘‘ بتانے کی کوشش کی ہے کاش وہ یہ بھی بتاتے تھے سعودی عرب والی سٹیل ملز انہوں نے کتنے میں فروخت کی؟ ان کے خاندان کی ملکیت آف شور کمپنیاں کتنی ہیں اور ان کا کاروباری سرمایہ کتنا ہے ؟ اور ان کے اثاثوں کی کل مالیت کیاہے؟ کتنا سرمایہ پاکستان سے بھیجا گیا سب کچھ سچ سچ بتا دینا چاہیے تھا اورجس طرح آصف زرداری ،میاں نواز شریف نے قوم کو سچ نہیں بتایا اسی طرح یقیناًمیاں شہبازشریف بھی قوم کو کبھی سچ نہیں بتائیں گے تحریکِ انصاف والوں کا کہنا ہے میاں شہبازشریف فیملی نے پاکستان میں اتنی کرپشن کی ہے جس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا سچ کیا ہے ؟ جھوٹ کیاہے ؟ اس کا فیصلہ ایک نہ ایک دن ہوکررہے گا ایک بات یقینی ہے کرپٹ سیاستدان اب ہیرو نہیں زیرو ہوجائیں گے یقیناًعوام کی نظروں سے گرجائیں گے نظروں سے گرنا نفرت کی سب سے بری شکل ہے ۔ یقیناًکرپشن کے ہوشربانکشافات ماضی کے حکمر ان خاندانوں کے زوال کا سبب بن گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں بے نامی اکاؤنٹس منظرِ عام آر ہے ہیں جن کے ذریعے کھربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی جا چکی ہے اتنے بھیانک جرائم کرنے والے یہ لوگ پھر بھی شرفاء کہلاتے ہیں،پاکستان پر حکمرانی یہ اپنا حق سمجھتے ہیں ان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں ان حالات میں لاطینی امریکی ملک پیرو کے سابق صدر گارسیا نے گرفتاری سے بچنے کے لئے خودکشی کرلی ہے تو وہ تو ہیرو بن گیاہے ایسا پاکستان میں ہوتا تو یار لوگوں نے اس کا مزار بنا دینا تھا۔ دل کو حسرت ہی ہے کہ کاش پاکستان میں بھی کوئی حکمران اتنا غیرت مندہوتا دعا ہے اللہ ہم پر رحم فرمائے (آمین)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں