283

حکمرانوں کی حکمتِ عملی آخر ہے کیا؟؟۔۔۔۔پروفیسررفعت مظہر

اکتوبر 2011 ء میں مینارِ پاکستان کے سائے تلے میوزیکل کنسرٹ کی دُھنوں میں کپتان کی ”سونامی“ کی ایسی رونمائی ہوئی کہ نہ صرف نوجوان سونامیے بلکہ ادھیڑ عمر بھی دِل تھام کے رہ گئے۔ اُس کے حسن کے ”لشکارے“ نے سونامیوں کو ایسا مسحور کیا کہ نوجوان تو ایک طرف پرویز خٹک جیسے ادھیڑ عمر بھی تھرکنے لگے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر سوائے اُس کے حسن کے کوئی خبر ہی باقی نہ بچی۔ لکھاریوں نے اُس کی کشش پر ”قلم توڑ“ کالم لکھے۔ کسی لکھاری میں اتنی جرأت ہی نہیں تھی کہ وہ کپتان کی سونامی کے خلاف قلم گھسیٹ سکے۔ڈال ڈال پھدکنے والے سیاستدان اُس کی بزمِ ناز میں جگہ پانے کے لیے بگٹٹ ہوئے۔ ایسی پذیرائی دیکھ کر رقیبانِ روسیاہ کو ہوش آیا اور اُنہوں نے بھی تلواریں سونت لیں۔ سونامی کا میک اَپ آہستہ آہستہ اترنے لگااور اندر سے اُس کے بھیانک چہرے کی جھلکیاں نمودار ہونے لگیں۔پھر 2o13ء میں گھمسان کا رَن پڑا جس میں رقیبوں نے سونامی کو چاروں شانے چِت کر دیا۔ اِس ہزیمت پر ایک معروف لکھاری نے لکھا ”سونامی گٹر میں بہہ گئی“۔ قصور شاید سونامی کا بھی اتنا نہیں تھا کہ اُس کی بزم میں جگہ پانے والوں نے ہی ”گنگا“ میلی کر دی۔
سونامی کے عاشقِ صادق کو بھلا یہ کب قبول تھا، اِس لیے وہ دھاندلی دھاندلی کا شور مچاتا سڑکوں پر نکل آیا۔ نعرہ تب بھی اُس کا یہی کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے۔ جب سڑکوں کی دھول چاٹنے کے باوجود ”کَکھ“ نہ بن سکا تو عاشقِ صادق نے یوٹرن لیتے ہوئے سونامی کو داغِ مفارقت دے کر ”ریاستِ مدینہ“ کی نوید سنا دی۔ تب ہم نے سوچا کہ کیا موسیقی کی دھنوں پر تھرکتے جسم ریاستِ مدینہ کی تشکیل کر پائیں گے؟۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب کپتان یوٹرن لیتے لیتے منزلِ مقصود تک پہنچ ہی گیا۔ یہ طے ہونا ابھی باقی کہ کپتان ”پیرنی“ کی دعاؤں کے زیرِاثر ”منزلِ مقصود“ تک پہنچا یا اپنے یوٹرنوں کی بدولت۔ اب کپتان کی محبوبہ ”تبدیلی“ہے، سونامی کا کہیں نام ونشان نہیں۔ ”تبدیلی“ کا دعویٰ تھا کہ وہ 100 دنوں میں ملک کی تقدیر بدل کے دکھا دے گی۔ 100 دِن گزرے، 400 دِن بھی گزرے لیکن ”تبدیلی“
آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
یہی وجہ ہے کہ اُتھل پُتھل جاری ہے۔ ادارے ”اِذنِ تبدیلی“ کے منتظر، کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ کب ”بستر بوریا“ سمیٹنے کا حکم صادر ہو جائے۔ بیچارے وزراء بھی سہمے سہمے سے، گاڑیوں سے جھنڈے اتر نے کے خوف میں مبتلاء۔ قصور اِن کا بھی نہیں کہ تبدیلی صرف اپنے مشیران اور معاونینِ خصوصی کی ہی سنتی ہے۔
اُدھر ”تبدیلی“آرائشِ جمال میں مصروف اور اِدھر مولانا فضل الرحمٰن کا ”کھڑاک“۔ اُنہوں نے 27 اکتوبر کوڈی چوک اسلام آباد میں آزادی مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ”ملکی بقاء خطرے میں ہے، موجودہ حکومت کو ہر حال میں گھر جانا ہوگا۔ 27 اکتوبر یومِ سیاہ کے طور پر منائیں گے۔ گرفتاری کی صورت میں بھی حکمتِ عملی تیار کر لی ہے۔ دھرنا ہوگا جو حکمرانوں کے گھر جانے تک جاری رہے گا“۔ مولانا آزادی مارچ میں 15 لاکھ شرکاء کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ اُنہیں یہ بھی یقین کہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی بھی بالآخر اُن کے ساتھ آن ملیں گی۔ مولانا کا ماضی گواہ کہ وہ کچی گولیاں کبھی نہیں کھیلتے۔ اگر اُنہوں نے نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کی شرکت کے بغیرہی آزادی مارچ اور دھرنے کا اعلان کر دیا ہے تو ہمیں یقین کہ ”دمادم مست قلندر“ کا موسم آن پہنچا۔
اُدھر تحریکئیے بھی اپنا میمنہ میسرہ درست کرنے میں مصروف۔ وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خاں نے کہا ”جمعیت علمائے اسلام میں اتنی ہمت نہیں کہ لاک ڈاؤن کرے اور اگر کوشش کی گئی تو خیبرپختونخوا سے کسی کو نہیں گزرنے دیں گے، کوئی بھی اسلام آباد نہیں پہنچ سکتا۔ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جے یو آئی رہنماؤں کی گرفتاری کے لیے فہرستیں مرتب کر لیں“۔ وزیرِاعظم کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ”ماسی مصیبتے“ کے خیال میں 2 سیاسی جماعتیں مولانا کا کندھا استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ ماسی مصیبتے شاید لاعلم کہ جو شخص جَو کاشت کرکے، گندم کی اُمید رکھتا ہے، وہ احمق ہے۔ یہ تو مکافاتِ عمل ہے۔ اِسی ڈی چوک میں عمران نیازی نے مولانا طاہرالقادری کا ”کندھا“ استعمال کیا۔ اب اگر نوازلیگ اور پیپلزپارٹی مولانا فضل الرحمٰن کا کندھا استعمال کرنے کی تگ ودَو میں ہیں تو اِس میں حرج ہی کیا ہے؟۔ مولانا نے تو اپنی حکمتِ عملی تیار کر رکھی ہے البتہ کپتان نے بغیر کسی حکمت عملی کے 126روزہ دھرنا دے ڈالا۔
مولانا کے مجوزہ دھرنے سے نجات کے لیے حکمرانوں کی حکمتِ عملی کیا ہے؟۔ اگر حکمتِ عملی وہی ہے جس کی بڑھک کے پی کے کے وزیرِاعلیٰ نے لگائی، تو پھر حکمران ابھی سے اپنے گھر جانے کا بندوبست کر لیں۔ جب عمران نیازی ڈی چوک دھرنے کے لیے نکلے تو نون لیگ کی حکومت نے انتہائی تدبر سے کام لیتے ہوئے اُن کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ ڈی چوک میں بھی کپتان اور مولانا طاہرالقادری کی شدید خواہش یہی تھی کہ حکومت پُرتشدد کارروائیاں شروع کر دے۔ اِسی لیے پارلیمنٹ ہاؤس کے گیٹ توڑے گئے، وزیرِاعظم ہاؤس پر حملہ کیا گیا، پی ٹی وی پر قبضہ کیا گیا، شاہراہِ دستور کے فُٹ پاتھوں کی اینٹیں تک اُکھاڑ لی گئیں، تھانے پر حملہ کرکے اپنے کارکنوں کو زبردستی چھڑوایا گیا، حتیٰ کہ سول نافرمانی تک کا اعلان کر دیا گیالیکن حکومت ٹَس سے مَس نہ ہوئی۔ چنانچہ مایوس ہو کر مولانا طاہرالقادری دو ماہ بعد ہی دھرنا چھوڑ گئے۔ جونہی کپتان کو سانحہ اے پی ایس پشاور کا بہانہ ہاتھ آیا، وہ بھی ”پھُر“ ہو گئے۔ مغرور و متکبرفیصل واوڈانے مولانا کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ”اڈیالہ اور اٹک جیل میں مولانا کا وزن کم کرنے کے لیے ایکسرسائز مشینیں لگا دی گئی ہیں۔ مولانا کو ایسا بٹھائیں گے کہ پھر اُٹھ نہیں سکیں گے“۔ عرض ہے کہ ایکسرسائز کا سب سے زیادہ شوق تو کپتان کو ہے۔ اُن کے ”پُش اَپس“ بہت مشہور ہیں۔ یہ بھی طے کہ جو دوسروں کے لیے گڑھا کھودتاہے، خود ہی اُس میں گرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کل کلاں اڈیالہ جیل میں کپتان کو ہی اِن مشینوں کی ضرورت پیش آجائے۔ اُس صورت میں دُکھ ہو گا تو صرف اِس بات کا کہ فیصل واوڈا جیسے بَدزبان اور بَداخلاق ہی کپتان کے زوال کا باعث بنے۔
ماسی مصیبتے نے کہا ”سیاسی نبض شناس عوام کی نبض کو کیوں سمجھ نہیں پارہا؟۔ عوام میں آپ کی پذیرائی تبھی ممکن ہے جب آپ اپنی آواز مظلوم کشمیریوں کے حق میں بلند کریں“۔ بجا! کہ مولانا فضل الرحمٰن سیاسی نبض شناس تھے اور ہیں۔ اِسی لیے ہمیں یقین کہ اُنہوں نے بہت سوچ مجھ کے ہی یہ فیصلہ کیا ہوگا۔رہی مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنے کی بات، تو یہ کام اُن گفتار کے غازیوں کا ہے جو جنرل اسمبلی میں خوب گرجے برسے، داد بھی سمیٹی۔ ایئرپورٹ پر”فقید المثال“ استقبال سے لطف اندوز بھی ہوئے۔ اُنہوں نے استقبالی مجمعے سے خطاب میں فرمایا ”بشریٰ بیگم کا شکریہ جس کی دعاؤں سے یہ سب کچھ ممکن ہوا“۔ اگر یہ سب کچھ محترمہ بشریٰ بیگم کی دعاؤں کی کرشمہ سازیاں ہیں تو پھر اُن سے استدعا کہ وہ اپنی دعاؤں سے مقبوضہ کشمیر بھی آزاد کروا دیں۔ ویسے اگر کسی کو علم ہو تو ہمیں بھی بتا دے کہ موجودہ دورہئ امریکہ میں کیا پایا، جس کا جشن منایا جا رہا ہے؟۔ٹرمپ آج بھی مودی کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑا ہے۔سوائے چین، ترکی، ملائشیا اور ایران کے (جو کشمیر کے معاملے پر پہلے بھی ہمارے ساتھ تھے) کسی ملک نے پاکستان کی حمایت میں بیان نہیں دیا۔ او آئی سی اور اقوامِ متحدہ آج بھی الگ تھلگ، پھر کیا صرف اِس بات پر جشن منائیں کہ وزیرِاعظم نے کہا ”کوئی ساتھ دے نہ دے، ہم کشمیر کے ساتھ ہیں“۔ وزیرِاعظم امریکہ میں کہہ چکے کہ وہ حملے میں پہل نہیں کریں گے اور نہ ہی جنگ کوئی آپشن ہے۔ پھر ہماری حکمتِ عملی ہے کیا؟۔ کیا صرف خالی خولی بڑھکیں یا ایٹمی جنگ کی دھمکی جس پر وزیرِاعظم کبھی عمل نہیں کریں گے البتہ بھارت اِس بیان کو ضرور اچھالے گا۔
کشمیر کی حسین وادیاں، پربتوں کی شہزادیاں، سفید لباس میں ملبوس آسمان کی رفعتوں کو چھوتے برف پوش پہاڑ، گنگناتے جھرنے، بَل کھاتی ندیاں، پھلوں کے بوجھ سے سجدہ ریزدرخت، پھولوں سے مہکتے باغات، مرغانِ خوش الحان کے مسحور کُن گیت، آنکھوں کو خیرہ کر دینے والا قدرتی حسن اور مائیں، بہنیں، بہوئیں، بیٹیاں، بچے، بوڑھے، جوان، سبھی کسی مسیحا کے انتظار میں کہ آج جنت نظیر وادی کی ساری رونقیں ماند۔ جابجا سفاکوں کے ڈیرے، موذیوں کے ظلم وستم کی دلوں کو چیرتی المناک داستانیں۔ بستیاں مِٹ رہی ہیں، قبرستان آباد ہو رہے ہیں۔ سلگتے کشمیر کا کاسہئ اُمید لہوسے لبریز۔ کشمیر کی بیٹی آنکھوں میں ویرانیاں لیے محمد بِن قاسم کے انتظار میں، مائیں جگرگوشوں کے لاشے سمیٹے نعرہ زَن ”کشمیر بنے گا پاکستان“۔ نیلے پانیوں کی یہ سرزمین لہورنگ لیکن ہمیں وزیرِاعظم کا فقید المثال استقبال کرنے اور اُنہیں ہار پہنانے سے ہی فرصت نہیں۔ کشمیر کی بیٹی سوال کرتی ہے کہ آخر حکمرانوں کی حکمتِ عملی ہے کیا؟۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں