389

نذیرشموزئی کی کتاب کی تقریب رونمائی۔۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

بلاشبہ ادب انسائیت کی خدمت کادرس دیتاہے اور دورائے اس میں بھی کوئی نہیں کہ شاعر اورادیب صحیح معنوں میں معاشرے کی آنکھیں اور حساس طبیعیت کے حامل لوگ ہوتے ہیں جوگردوپیش کے حالات ،عوامی مسائل و مشکلات،معاشرتی اقدار اور بناؤ بگاڑکی صورتحال ، علاقائی رسم ورواج،لوگوں کے رہن سہن کے احوال اور ان کے حقوق،طرزحکمرانی ، تعمیروترقی کے عمل ،معاشرتی رویوں ،ظلم و ناانصافی ، قدرتی ماحول،مذہبی عقائد،فطرت کی رعنائیت ،معاشرے میں پائے جانے والے احساس محرومیت کے اسباب، اور ماضی کی تاریخ کابڑی باریک بینی سے مشاہدہ ومطالعہ کرتے ہیںیہی وجہ ہے کہ نظم ہو یانثران کی تخلیق و تحقیق کسی نہ کسی شکل میں ان تمام محرکات کی عکاس ہوتی ہے ۔کسی بھی معاشرے میں شعراء اورادیبوں کے مابین مشترک قدرزبان اورقوم ہوتی ہے جبکہ وطن کووہ ہمیشہ ماں کادرجہ دیتے ہیں۔الہامی کیفیت سے بہرہ ورشعراء اور ادیبوں کی زندگی کامقصد قوم کے دلوں میں محبت اور ان کی ذہنوں میں ترقی وخوشحالی کی سوچ کو اجاگرکرناہوتاہے تب ہی تو وہ ہمہ وقت قوم کی ذہنوں کو جھنجھوڑنے اوران کے جذبوں کوجواں رکھنے کی کوششوں اورکاوشوں میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔شعراء اور ادیبوں کے حوالے سے اتنی لمبی تمحید باندھنے کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ دنوں میراایک دن شعراء اورادیبوں کے ساتھ گزراسومیں اپناآج کاکالم ان کے نام کرتاہوں۔31جنوری کودیر لوئر کے گیٹ وے چکدرہ کے ایک پرفٖضاء مقام فشنگ ہٹ میں ملگری لیکوال(مل)بٹ خیلہ کے زیراہتمام اورچکدرہ کے نامی گرامی طبی ماہر(چلڈرن سپیشلسٹ)ڈاکٹر محمد رسول خان کے ز یرانتظام بزرگ شاعر، ادیب، محقق اورچھ کتابوں کے مصنف محمد نذیر شموزئی کی پشتوزبان میں نظم کی کتاب ’’تڑون اؤ بیلتون ‘‘اور اردوزبان میں نثری مجموعہ ’’یادیں کچھ تلخ و شیریں‘‘ کی تقریب رونمائی ہوئی جس میں بٹ خیلہ،تھانہ دیر،سوات اور اردگرد کے دیگر علاقوں کے نامی گرامی اور نوجوان شعراء اور ادیبوں اور دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھتے افراد نے شرکت کی۔ممتازشاعراَباسین یوسفزئی اس موقع پر مہمان خصوصی تھے جبکہ اقبال شاکرنے سٹیج کے فرائض انجام دیئے۔تقریب کے مہمان خصوصی نے مصنف کی ادبی خدمات کو شاندارالفاظ میں سراہتے ہوئے خراج تحسین پیش کی اور کہاکہ وہ بڑی عمرکے حامل بزرگ شخصیت ہیں مگرعمرکے اس حصے میں بھی ان کاجذبہ جوان اورکوشش غیر معمولی ہے جبکہ نثرمیں ان کی ادبی خدمات قابل ستائش اور قابل تقلید ہیں۔ وہ چھ کتابوں کے مصنف ہیں اوریہ کسی طورآساں کام نہیں ہے۔ اقبال شاکر،ریاض ساغر،روئیدارحسرت،دیدارطائر،شہبازمحمد،اسلم سالک،رحمت جان ،درمان علی خیل،الطاف سرحدی،ساجدافغان،بخت زمین نگاراورپروفیسربہرام زخمی جیسے ممتازشعراء نے مقالے اور خوبصورت کلام پیش کئے جن سے شرکائے محفل خوب محظوظ ہوئے۔ مذکورہ تقریب کااحوال بیان کرتے ہوئے اگر ذکر ہومصنف محمد نذی شموزئی کاتووہ مادری زبان پشتوسمیت انگریزی،اردو،عربی اور فاسی زبان پر عبوررکھتے پڑے لکھے ،سادہ طبیعیت ،شائستہ اندازگفتگوکے حامل انتہائی نفیس اور درویش صفت انسان ہیں۔ مصنف محمد نذیر شموزئی نے اس موقع پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہاکہ انسانی زندگی محنت اور حرکت سے عبارت ہے اوریہ قدرت کی جانب سے بڑی قیمتی دین ہے لہٰذا زندگی کو ہرحال میں بامقصدبنانے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہاکہ کسی بھی قوم اور معاشرے کاقیمتی سرمایہ نوجوان نسل ہوتاہے اور نوجوانوں کوعلم دانش کی منتقلی کی ذمہ داری شعراء اور ادیبوں سمیت معاشرہ بھر پر عائد ہوتی ہے۔ان کے مطابق پختون قوم اس وقت ڈھیر ساے چیلنجز اور آزمائشوں کاسامناکررہے ہیں اورقوم کومسائل ومشکلات کے گرداب سے نکالنے میں شعراء،ادیبوں ،صحافیوں، دانشوروں ا ور دیگر اہل قلم کاکرداراہم ہوگا ۔ان کی مزید لب کشائی کچھ یوں تھی کہ انسان دنیامیں کائنات کے خوبصورت ترین پھول ہیں ان پھولوں کوکبھی مرجھانانہیں چاہئے اورایسے کام ہونے چاہئے جن پر انسان کو سینہ تان کر فخر ہو نہ کہ احساس محرومی تلے اس کاسرشرم سے جھکارہے۔محترم محمد نذیر شموزئی ایک ضعیف العمرلکھاری ہیں جو بیمار ی کے باعث جسمانی طورپر کمزور مگر ذہنی طورپران کے مکمل تواناہونے کی گواہی ان کی تحریریں دے رہی ہیں اور ثابت کررہی ہیں کہ شعراء اور ادیبوں کے خیالات اور تصورات کبھی نہیں مرتے اور وہ چاہے عمرکے کسی بھی حصے میں ہوں نظم اور نثرکی صورت میں اپنی تحریروں کے ذریعے قوم کوہمیشہ نویدسحرکاپیغام دیتے ہیں۔ میری آج کی تحریرتومحمد نذیر شموزئی کے کتابوں کی تقریب رونمائی کااحوال ذکر کرنے سے متعلق ہے جب ان سے ان کی زندگی کے رموز جاننے اور آپ بیتی سننے کے لئے خصوصی نشست کاشرف حاصل ہوگاتب ان کی ذات کوزیرقلم لانے کی سعی کروں گاآخرمیں یہ ضرورکہوں گاکہ قوم کو نذیرشموزئی جیسے کئی دہائیوں کاتجربہ رکھتے بزرگ لکھاریوں کے کام سے استفادہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔بلاشبہ ان کی تصانیف پشتوادب میں خوشگواراضافہ جبکہ اردوادب میں پختون قوم کی بہترین نمائندگی ہے مگر ان کاکام ابھی ختم نہیں ہوا جیسے شاعرکہتاہے کہ’’ حق تو یہ ہے کہ حق ادانہ ہوا‘‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں