394

پس وپیش۔۔۔۔۔مبارک خان مبارکؔ ہو!۔۔۔تحریر: اے ایم خان چرون،چترال

آج مورخہ 15 فروری 2015ء کو ٹاؤ ن ہال چترال میں مبارک خان کے شعری مجموعہ ’’غزینہ ‘‘ کی تقریب رونمائی ہوئی ۔ تقریت کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے شروع ہواجسمیں چترال کے نامور ادبی، علمی ، ثقافتی،سیاسی اور معاشرتی شخصیات نے شرکت کی۔کتاب کی اشاعت مئیر ، ہاشو فاونڈیشن اور قسقار کے کاوشوں کا ایک بہتریں نتیجہ تھا۔
مصنف کے کتاب پر چترال کے نمایان ادبی،تاریخی ،تحقیقی، سماجی اور سیاسی حلقے سے تعلق رکھنے افراد نے مقالہ جات اور اپنے اپنے رائے پیش کی، تاکہ مصنف کے ہشت پہلو شخصیت کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں ہاشو فاونڈیشن کے آر پی ایم سلطان محمود، ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، جاوید اقبال جاوید ، فرید آحمد رضا اور خود مصنف مبارک خان مبارک نے اپنے رائے کا اظہار کیا ہے۔
کتاب پر شاعر حسن بصری اپنے مقالہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ مصنف کہوار کے تمام صنف میں شاعری کی ہے ،جوکہ دوسروں شاعروں سے مختلیف اور الگ مقام رکھتا ہے ۔، شاعر گل و بلبل سے باہر نکل کر حالات و واقعات کی عکاسی کی، اور اِنہی صفات کی کڑی ایک ’’عوامی شاعر ‘‘ نظیر اکبر آبادی سے ملا دی ۔’ مصنف کو نظم کا شاعر کہا جائے تو بجا ہوگا، جوکہ مزاحیہ بشمول اِصلاحی ہے‘۔ ادب کے ماہرین کا ذکر کرتے ہوئے اُس نے بہتریں شاعر کی تین خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے مبارک خان کو اِن صفات میں پرو دی۔
ظفر اللہ پروازؔ ،مصنف کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اِس پریشانی کے دور میں میئر’’MIER‘‘ کے کاؤ شوں سے وہ کلام سامنے آئے جو ہر لحاظ سے بہتریں ہیں۔ اور اُس نے ریڈیو پاکستان کا کہوار پروگرام ، اور مبارک خان سے منسلک اپنے یادوں کا آنکھوں کے سامنے آنے اور خیالات پر طاری ہونے کا بھی ذکر کیا۔
پروفیسر ممتا ز حسین، مصنف کے کتاب پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کہوار ایک بہت بڑا زبان ہے اور یہ لٹریری لوگوں کا زبا ن ہے جس میں اہم شاعر،موسیقار اور فنکار گزر چُکے ہیں۔ کہوار کا ایک دور امیر گل امیر میں ختم ہوا جوکہ سادہ کہوار تھا۔ اِس لحاظ سے کہ اُس پر دوسرے زبانوں کا غلبہ نہیں تھا۔دوسر ا دور وہ تھا جس میں تعلیم یافتہ شعراء کا تھا، اُن کے الفاظ،خیالات ، اور زبان افاقی تھا، جس میں ولی زار خان ولی، گل نواز خاکی اور دوسرے شعراء شامل تھے۔ مقالہ نگار نے مصنف کے شاعری کو نہ قدیم شاعری کے صف میں لایا اور نہ جدید شعراء بلکہ مصنف کو اُس نمایا ن نہج پر لے آیا کہ اُس کی شاعری دونون دور کے شاعری کا ایک حسین امتزاج تھا۔ اُس نے مزید بتایا کہ مصنف کے پاس ایک بہترین شاعر کی خوبی کہ وہ دوسرے زبان کا لفظ اپنے شاعری میں استعمال کرتا ہے لیکں وہ عام لوگوں کیلئے عام فہم ہوتا تھا، اور لوگ اِسے اپنالیتے ہیں۔ مصنف 1975کے دور پر حاؤی رہا گوکہ اُس دور میں نمایاں شعراء موجو د تھے۔ کہوار زبان میں قوالی کا مشہور صنف کا تعارف پہلی دفعہ مصنف نے کی۔’’مہ پاکستان مہ کہوار ختانے ‘‘ بھی ایک تاریخ کی عکاسی کرتا ہے جس میں پاکستان اور چترال سے محبت کا ایک تاریخی پہلو اجاگرہوتا ہے۔
فدا محمد فداؔ کے نظم کے بعد، یوسف شہزاد مصنف کی شخصیت کی عکاسی پر بات کرتے ہونے کہا کہ وہ ہشت پہلو، یار باش، نرم زبان، اِنسان دوست اور سادہ لوح اِنسان رہے ہیں۔ اُردو، پشتو، اور قشقار کے شعراء کے صف میں مصنف کو شامل کرکے اُس کے کردار یعنی حکمرانون کو خبردار،عوام کو شعور اور نوجوانون کی اصلاح میں نمایان کردار ادا کرنے کا ذکر کیا ۔ اور آخر میں دوبارہ انجمن ترقی کہوا ر کے توسط سے صوبائی حکومت کا living heritage کے نام پر پروگرام کا آغاز کرنے ، چترال میں پانچ شعراء کو اغزازیہ، اور ہر ضلع میں ایک آرٹ کونسل کے قیام کے ا علان پر حکومت کا شکریہ ادا کیا، اور صوبائی پارلیمانی سیکرٹری کو اِس کام پر جلدی کام شروع ہونے کوشش کرنے کی درخواست کی۔
مولا نگاہ نگاہ ، انگریزی، فارسی اور کہوار کے ضرب المثل کے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کہوار شاعری مبارک خان کے نام کے بغیر نامکمل ہے ، شاعر یا ر باش، یورگنج اور سادہ لوح اِنساں رہا ہے ، اور اِسی لئے وہ ہر شخص کا دلعزیز ہے۔۔اُس کے خیالات عام فہم ، سادہ ، اور شاعری دوسرے زبانوں کے الفاظ کا حسین امتزاج رہا ہے۔ مصنف نہ صرف شاعر، بلکہ موسیقار اور فنکار بھی تھا۔ موجودہ شعراء کی ایک مجبوری کو بیان کرتے ہوئے اُس نے مزید کہا کہ اگر کوئی شعر لکھتا ہے تو اِسے اپنے خیال کے مطابق گانہیں سکتا اور جو گاتا ہے وہ لکھ نہیں سکتا۔مصنف کے شاعری کے بارے میں بات کرتے ہوئے مولانگاہ نگاہ نے کہاکہ اُس نے معاشرے میں چیزوں اور حالات کا گہرائی سے مطالعہ کیا، اور اُنہیں اپنے سادہ کہوار الفاظ میں پرو دیا۔
گل مراد حسرت ، مصنف کے کتاب پر بات کرتے ہوئے کہا کہ شعراء دو قسم کے ہوتے ہیں ، ایک وہ جس کی شاعر ی سب کو سمجھ آجاتی ہے اور دوسرا وہ جس کی شاعری کو ایک مخصوص طبقہ سمجھ لیتی ہے۔ کہوار لوک صنف میں اشرو ژانگ،بشونو ، اور شعری ہیں ، بشونو اور شعری میں مصنف کا ایک امتیازی حیثیت ہے۔ مصنف گوکہ غزل گو شاعر نہیں تھا لیکں کبی کبھار غزل سرائی بھی کی ۔ کہوار میں لفظ ’مرادی‘ کا مصنف کے حوالے سے تعارف کرکے، اِسکے علاوہ بجلی گھر، ہسپتال اور شاہی محل کے حوالے سے اُن کے کلام کا احاطہ کیا۔
تقریب کے مہمان خصوصی بی بی فوزیہ ، پارلیمانی سیکرٹری برائے سیاحت و ثقافت نے ہاشو فاونڈیشن،انجمن ترقی کہوار،میئر، اور ادبی شخصیات کے کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ میں مصنف کو عوامی شاعر کے علاوہ میں ِ اصلاحی شاعر کہونگی ،اُس نے مزید کہا کہ اُسکا فن کمال یہ ہے کہ اُس نے ہر پہلو میں شاعری کی ہے۔یہ اُس کے فنون لطیفہ پر دسترس کی علامت تھی کہ اُس نے ہر موضوع پہ شاعری کی۔ شاعر ایک فرد نہیں بلکہ ایک ادارہ ہے اور نوجوان شعراء کو اُس کی شاعر ی سے رہنمائی حاصل کرنا چاہیے۔
صوبائی حکومت کا ادب سے تعلق رکھنے والے حضرات کیلئے اغزازیہ کا اعلاں کے حوالے سے با ت کی اور مبارک خان کا نام صوبے کے شعراء میں شامل کرنے کے اپنے کوشش کااظہار کرتے ہوئے اپنے اور صوبائی حکومت کی طرف سے آدبی کاموں کو آگے لے جانے پر بات کی۔
صد ر محفل آر پی ایم ( RPM) ہاشو فاونڈیشن چترال سلطان محمو د مئیر ، انجمن اور ادبی شخصیات کے خدمات کو سراہتے ہوئے ایسے ادبی مواقع پر خالص کہوار میں بات کرنے کی یقین دہانی کرتے ہوئے مصنف کے ریڈیو پاکستان اور ٹیپ ریکارڈر میں کلام سُن کرمحظوظ ہونے کے دور کی عکاسی کی، اور مصنف کے شخصیت پر مختصراً بات کی، اور اِس کتا ب کی دوبارہ اشاعت اور دوسرے ادبی کاموں کو منظر عام پر لانے کیلئے ِ ادارے اور اپنے ذاتی دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے مستقبل میں ہر طرح تعاؤں کی یقین دہانی کی۔
تقریب رونمائی کے آخری گھنٹے میں غزینہ کے مصنف مبارک خان مبارک بھی تشریف لے آئے تو سفید ریش بزرگ کو دیکھ کر پورا حال جذباتی ہوکر اشکبار ہوا، لیکن چترال کے معروف موسیقار بابا فتح الدین کو دیکھ کر اُس کا مصنف کے ساتھ گہری عقیدت کے جذباتی اظہار سے دنگ رہ گیا۔ پروگرام میں مصنف کے بزرگوارم محمد سفیع اپنے والد محترم کی جانب سے تمام اِدارون اور اِس کتا ب کی تدوین
میں خدمات انجام دینے والوں کا تہہ دِل سے شکریہ ادا کیا، اور اپنے والد کیلئے ’’درویش اِنسان‘‘ کہہ کر بات ختم کی۔اِس کے علاوہ پروگرام میں جنگ بہادر،اور جناح الدین پروانہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پروگرام کے آخر میں جاوید اقبال جاوید مہماناں کا شکریہ اداکیا۔
مبارک خان مبارک چترال کے نامور حضرات کے نزدیک ایک عوامی شا عر ،اِصلاحی شاعر، ہشت پہلو شاعر، اور کہوار میں قوالی کے متعارف ہیں۔ میں مبارک خان مبارک کو اِن خصوصیات کے علاوہ حیاتی تنوع(Bio-diversity)کا محافظ ،نیچرلسٹ Naturalist) ( اور ہمہ گیر شا عرکہونگا۔ مصنف اپنے کتاب میں حمد، نعت ، نظم ، بشونو ، غزل ،قوالی اور مرثیہ نگاری کی ،اور مختلف حالات و واقعات کا اپنے الفاظ میں احاطہ کیا جن کا تفصیل کتاب میں موجود ہے ، اور مقالہ نگار اور دوسرے حضرات نے بھی احاطہ کیا۔ جن چند برائیوں جیسے کرپشن، نقل، تعلیم کی اہمیت ، صحت کیلئے آیوڈین ملا نمک اور دوسرے موضوع پر خالص کہوار میں شاعری کی ہے، وہ میرے لئے اُس دور کے حوالے سے معاشرتی تبدیلی کے حامل تھے۔
او رجو مزید مصنف کے بارے میں مزید جاننا چاہتا ہے تو غزینہ پڑھے گے تو اُس کی شاعری کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں