267

داد بیداد۔۔کہانی بہت پرانی۔۔۔ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

پڑوسی ملک سے کا بینہ کے وزیر وں کی عجیب حرکتوں پر مبنی خبریں آگئیں تو مجھے ایک پرانی کہانی یاد آئی کہانی ایک بادشاہ کے دربار کی ہے کہتے ہیں محمود غزنوی نے منادی کرا دی کہ کوئی ایسا شخص ہے جو خواجہ خضر سے میری ملا قات کرا دے اگر کوئی ہو تو در بار میں حا ضر ہو کر مجھے بتائے میں ان کو انعام واکرم سے نواز دونگا کافی دن گذر گئے کوئی نہیں آیا پھر ایک دن ایسا ہوا کہ ایک فقیر دربار میں حاضر ہوا فقیر نے کہا میں خواجہ خضر سے آپ کی ملاقات کرادونگا اس کے لئے مجھے چلہ کاٹنا ہو گا اگر شاہی خزا نے سے میرے بال بچوں کے لئے ایک سال کا نفقہ دیا جا ئے تو میں جنگل میں جا کر اپنا چلہ شروع کروں گا بادشا ہ نے یہ شرط ما ن لیا فقیر کے اہل و عیا ل کو ایک سال کا نا ن نفقہ ملا اور فقیر نے جنگل کی راہ لے لی سال بعد فقیر دربار میں حا ضر ہوا دربار میں اس روز وزراء اور درباریوں کے علا وہ ایک سفید ریش مہما ن بھی مو جود تھا فقیر نے دربار میں گڑ گڑا کر باد شاہ سے معافی ما نگی کہ میرا چلہ کا میاب نہیں ہوا خواجہ خضر کی تلاش میں نا کام رہا بادشاہ کو غصہ آیا کہ فقیر نے خواہ مخوا ایک سال ضا ءع کر دیا غصے کے عالم میں باد شاہ نے کو توال سے پو چھا بتاءو اس کوکیا سزا دی جائے کوتوال نے کہا عالی جاہ! اس کا سر قلم کر کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جا ئیں اور تما م ٹکڑے اس کے سر کے ساتھ زندان کے دروازے پر لٹکا دیے جا ئیں تا کہ سب کو عبرت ہو دربار پر خا موشی چھا گئی اتنے میں اجنبی مہمان نے کہا ’’بہت خوب‘‘ باد شا ہ قاضی کی طرف متو جہ ہوا قاضی سے پو چھا تم بتاءو اس کی کیا سزا ہو نی چا ہئیے قاضی سوچ میں پڑ گیا سوچ بچار کے بعد قاضی نے کہا حضور والا کے اقتدار کو دوام حا صل ہو سزا یہ ہے کہ اس کو خونخوار کتوں کے سامنے ڈال دیا جا ئے وہ اس کو زندہ نو چ نوچ کر اس کے گوشت اور ہڈیوں سے پیٹ کی آگ بجھا ئیں نمک حر ام کی یہی سزا ہو تی ہے دربار پر پھر خامو شی طاری ہوئی اس خا مو شی کو توڑ تی ہو ئی اجنبی مہمان کی آواز آئی ’’بہت خوب‘‘ باد شاہ نے اپنے خادم خا ص اور محبو ب خا ص حضرت ایاز کی طرف دیکھا اور پوچھا بتاو ایاز! اس فقیر کی کیا سزا ہو نی چا ہئیے ایاز نے کورنش اور اداب بجا لاتے ہوئے کہا عالی جاہ! اس کو معاف کر دیا جا ئے کیو نکہ آپ کی سخا وت سے ایک سال تک بے چارے کے اہل و عیال کو نا ن نفقہ مل اور اس نان نفقہ سے آ پ کے خزا نے میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ آپ کے جا ہ و جلا ل میں مزید اضا فہ ہوا فقیر معا فی کا مستحق ہے سارے درباری ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اجنبی مہمان کی آواز گونجی ’’ بہت خوب ‘‘ اب اجنبی مہما ن کی طرف متو جہ ہو کر باد شاہ نے ان سے پو چھا اے مہما ن عزیز کیا و جہ ہے آپ نے پہلی دو سزاوں پر بھی ’’بہت خوب‘‘ کہا اب معافی کی تجویز آئی تب بھی بہت خو ب کہا اس بہت خو ب کی وضا حت کرو یہ آپ کا تکیہ کلام ہے یا اس کا کوئی مفہوم بھی ہے اجنبی مہما ن نے کہا حضور! مفہوم بھی ہے جا ن کی اما ن پا وں تو عرض کرو ں باد شا ہ نے اجازت دی تو مہما ن گو یا ہوا عالی جاہ! کوتوال کا باپ قصاب تھا اس نے اپنے آبا ئی پیشے کی منا سبت سے سر قلم کر نے اور جسم کے ٹکڑے کرنے کی تجویز دی میں نے بہت خو ب کہا قاضی کا باپ بادشاہ کے کتوں کا داروغہ تھا خونخوار کتوں کی نگرا نی کرتا تھا اُس نے اپنے آبا ئی پیشے کی منا سبت سے فقیر کو خو نخوار کتوں کے آگے ڈا لنے کی تجویز دی، میں نے بہت خوب کہا آپ کا خادم خا ص یعنی ایاز سید زادہ ہے جدی پشتی سید ہے اس کے اجداد نے دشمنوں کو معا ف کیا خو ن کے پیا سوں کو آب زمزم پلا یا اس نے اپنے اجداد کے نقش قدم پر چل کر معاف کرنے کا مشورہ دیا میں نے کہا بہت خوب باد شاہ نے ایاز کی طرف دیکھا اور پوچھا ایاز! تم نے آج تک مجھے کیو نہیں بتا ئی کہ تم سید ہو ایاز نے کہا عا لی جاہ میں اس کو صیغہ راز میں رکھنا چاہتا تھا مہما ن نے میرا راز فاش کر دیا ہے میں بھی مہمان کا راز فاش کرتا ہوں یہی خواجہ خضر ہیں یہ سنکر باد شاہ تخت سے نیچے اترا، مہما ن سے مصا فحہ کیا اور فقیر کو انعامات و اکرا مات کے ساتھ رخصت کیا کہا نی کا سبق یہ ہے کہ شا ہی دربار وں اور حکومتوں میں عہدہ ملنا بڑی بات نہیں کسی کو بھی عہد ہ مل سکتا ہے بڑی بات یہ ہے کہ اپنے حسب نسب کے اعتبار سے کو ن اس عہدے کے تقا ضوں پر پورا اتر تا ہے انگریزوں کے دور حکومت میں ڈرائیو اور سپا ہی بھر تی کرنے سے پہلے اس کا شجرہ نسب معلوم کیا جاتا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں