237

دعائے مغفرت……ڈاکٹر شاکرہ نندنی

پورٹو پُرتگال میں ایک چودہ پندرہ سال کا بچہ کینسر جیسے موذی مرض کے ہاتھوں مر رہا تھا۔ بچے سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی۔۔بچے نے کہا؛ میں فٹ بال کا ورلڈکپ دیکھنا چاہتا ہوں۔ نہ صر ف بچے کو بالکل اس کے پو رے خاندان کو جہاز اور میچ دونوں کی ٹکٹیں فراہم کی گئیں۔۔ بچہ میچ دیکھ آیا اور پھر کچھ عرصے بعد اس جہاں کو، اپنے روتے ماں باپ کو اور اپنے بہن بھائیوں کو  ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلا گیا۔۔ ماں باپ، افسوس کے لئے آنے والوں کو کہتے ہمارا بچہ تو معصوم تھا، اس کے لئے سورہ فاتحہ اور دعائے مغفرت کے ساتھ ساتھ کیا آپ ان ڈاکٹرز، ان نرسوں اور اس ہسپتال کی انتظامیہ کے لئے دعا کر سکتے ہیں (پوچھنے پر بھی انہیں یاد نہیں آیا نہ انہیں پتہ تھا کہ ان سب مسیحاؤں کے مذہب کیا کیا تھے) کہ مرنے کے بعد وہ جنت میں جائیں کہ انہوں نے ہمارے  مرتے ہو ئے بچے کے لئے ہسپتال کو جنت بنائے رکھا ؟؟؟؟
بچے کے لئے دعا کر نے کے لئے آنے والوں نے اس بات پر ناک بھوں چڑھائی مگر والدین، صدمے میں ہیں، یہ سوچ کر، ذیادہ بحث نہ کی مگر اس فرمائش کو دل ہی دل میں بہت برا کہا۔
پھر ایک اور ملک ہے جو اسلامی ملک کہتے ہیں، جہاں مسلمانوں کی بہتات ہے اور اس سے بھی زیادہ اسلام کے نعرے بلند ہو تے رہتے ہیں۔ جہاں کسی غیر مسلم کے مرنے پر اظہار افسوس بھی کر لیا جائے تو میان سے تلواریں نکل آتی ہیں۔ وہاں ایک بچی کو، اس کی مالکن نے، جس کے پاس اس کے ماں باپ چند روپوں کے عوض غلامی میں دے گئے تھے، پنجرے سے طوطا اڑا دینے پراتنا مارا کہ انسانیت کا نام ہی مٹ گیا۔ اس غریب بچی سے مرتے وقت تو کیا زندگی میں بھی کوئی پہلی خواہش پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ نہ کوئی ادارہ نہ کوئی انسان۔ وہ ایک اسلامی ملک میں ایک ایسی مسلمان عورت کے ہاں غلام تھی کہ جس کی فیس بک پوسٹیں اور وٹس ایپ میسجز درود شریف، اسلام کی سر بلندی، جمعہ مبارک اور کافروں پر لعنتوں اور جو مسلمان ہو کر بھی صرف انسانیت کی باتیں کریں ان پر کفر کے فتوؤں پر مشتمل ہو تے ہیں۔
اب اگر کو ئی میرے پاس آئے اور مجھے بتائے کہ پورٹو کا وہ کافر ڈاکٹر فوت ہو گیا ہے جس نے ایک مرتے بچے کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کو کیا کیا کچھ نہیں کیا تو میرے دل سے اس کافرکے لئے مغفرت اوراس کے لواحقین کے لئے صبر کی دعا نکلے گی۔ اور اگر کوئی مجھے اس خاتون کی موت کی خبر دے گا جس نے ایک ہنستی مسکراتی بچی کو چھوٹی سی غلطی پر مار مار کر ادھ مواکر دیا تھا تو مجھے لاکھ کفر کے فتوے مل جائیں، لاکھ قرانی آئیتوں اور احادیث کے حوالے دے دئیے جائیں میرے دل سے اس مسلمان عورت کے لئے مغفرت کی دعا نہیں نکلے گی۔
تو بس پو چھنا یہی تھا کہ کیا ایسا کر کے میں بھی کافر ہو جاؤں گی؟ اور مسلمان میرے لئے بھی جنت کے دروازے بند کر دیں؟
اگر کسی کا جواب مجھے کافر کہہ دینے میں ہے تو میں پھر بھی کہوں گی کہ یہ سودا مہنگا نہیں۔ جنت دوزخ کا معاملہ اللہ کی بابرکت اور مہربان ذات پر چھوڑ کر ہم دنیا کو انسانوں کے رہنے کے قابل بنا نے کے لئے کچھ کر سکیں اور اس بنا پر مجھے دوزخ بھی ملے تو گوارا ہے۔
میں نے اس سر پھری کوایسا سب کچھ کہنے سے روکنے کی بہت کوشش کی تھی۔۔ اس کو کافر قرار دئیے جانے کی دھمکیاں بھی دیں۔ مگر وہ بضد رہی۔ میں نے سوچا آج اس کے اندر غصے کی آگ ہے، آج اسے چھوڑ دو، کل کو آکر پھر سمجھاؤں گی۔ نہ سمجھی تو اس کو راہ ِ راست پر لانے کی دعا کر وں۔ میں نے یہ بات اپنی ایک پریکسٹنگ مسلمان دوست کے آگے رکھی اس نے مجھے اس سے دور رہنے کا مشورہ دیا اور نصیحت کی کہ ایسے لوگوں کی صحبت میں رہو گی تو ایمان سے جاؤ گی۔۔ اور اگر ایسا ہو گیا تو مر نے کے بعد تمہاری مغفرت پڑھنے والا کوئی نہیں ہو گا۔
اور میں سوچ رہی تھی کیا ان سب لوگوں کی دعائے مغفرت میں اتنی طاقت ہے کہ یہ کسی کو بھی بلیک میل کر سکتے ہیں؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں