332

#چترال_میں_ایک_اور_شندور_کاوجود_.#سوتکوریک_سے_جشن_شاقلشٹ_کا_انوکھا_سفر .قاضی نذیر بیگ

 بونی سے تورکہو کی طرف اگر آپ کو سفر کرنا ہو تو بونی تھانے سے متصل روڈ سے گزرنے والی ہر چوتھی یا پانچویں گاڑی کھوت کی طرف گامزن آپ کو دکھائی دے گی ۔ اور جہاں وادی کھوت کا نام آتا ہے وہاں محبت امن اور بھائی چارے کی انگنت مثالیں اپنی جگہ موجود تو ہیں ہی مگر گزشتہ کئی دہائیوں سے کھوت اپنی گاڑیوں کی وجہ سے بھی خاصا شہرت کا حامل رہا ہے ۔ کیونکہ علاقہ تورکہو کی تقریبا ساٹھ فیصد گاڑیاں وادی کھوت کے باسیوں کے پاس ہیں ۔ یعنی کہ کھوت جانے کے لئے کسی کو بھی کبھی ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کا مسئلہ درپیش نہیں ہوسکتا ہاں یہ الگ بات ہے کہ سیاسی نمائندے اور ممبران کی عدم توجہ کی وجہ سے یہ راستے پر پیج اور کٹھن ضرور ہیں ۔ کھوت پہنج کر سب سے پہلے آپ کو تاریخی مسجد گیسو کی زیارت کا شرف حاصل ہوتا ہے جو اپنے آپ میں ایک مقام رکھتی ہے ۔ یہاں کچھ کہاوتیں ایسی ہیں کہ گیسو مسجد کے اندر پیعمبر علیہ سلام کے گیسو مبارک موجود ہیں جس کی وجہ سے یہ نام ان گیسو شریف سے منسوب ہے۔ مگر اس بات پہ ابھی تک صداقت کم ازکم مجھے نظر نہیں آئی اور نہ ہی کہیں اس کی مستند دلائل موجود ہیں ۔

گیسو مسجد کی زیارت کے بعد شاہی بنگلہ اور کھوت پولوگراونڈ کی سیر کے بعد تمام سیاح کھوت کی تاریخی نہر راجوئے کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں جو کئی صدیوں سے کھوت کی اسی فیصد ابادی کو نہ صرف سیراب کرتی ہے بلکہ سینکڑوں گھرانے اس نہر سے پینے کا پانی بھی حاصل کرتے ہیں اور اس پانی کو ویرمینوغ کہتے ہیں جسے زرعی زمینات کے لئے کمیا بھی تصور کیا جاتا ہے۔ بلکہ اس پانی سے آج سے چند سال پہلے تک اتنی عقیدت ہوا کرتی تھی کہ جب پہلی دفعہ اس نہر میں پانی چھوڑا جاتا تھا تو اس پانی سے محروم علاقے کے لوگ بالٹی بھر کر ایک ایک قطرہ اپنی زمینوں پہ اس نیت سے ڈالا کرتے تھے کہ ویرمینوغ کی تاثیر ان کی زمینوں پر بھی ہو اور ان زمینوں کی فصلوں میں برکت ہو ۔

 راجوئے کی ایک الگ ہی تاریخ ہے ۔

#راجوئے_کی_تاریخ

 بزرگ کہتے ہیں کہ جب قدیم الایام میں جب کھوت کے لئے نہر کھودی جا رہی تھی اس وقت انجنئیر اور مشینری نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بہت تکلیف سے دوچار ہوگئے تھے اور تقریبا شکست مان کر گھروں کو لوٹنے والے ہی تھے تو اچانک ایک پرندہ جس کو مقامی زبان میں اشقوڑہ کہا جاتا ہے ۔ آتاہے اور جہاں تک نہر نکالی گئی تھی وہاں سے کچھ دوری پہ آکر بیٹھ جاتا ہے ۔ ان محنت کشوں میں چند ایک سیانے بھی تھے جو اس وقت اپنے تجربات کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اس پرندے کا پیچھا کرو اور جہاں جہاں بیٹھ جائے وہاں نشان لگایا کرو تاکہ ہم اس نہر کو کامیاب بناکر کھوت کی آدھی ابادی کو پانی سے خودکفیل کر سکیں گے اور آنے والی نسلوں کے لئے پانی کا انتظام ہوسکے ۔ اس مجمع میں کچھ لوگوں نے اس بات کا مذاق بھی اڑایا مگر اکثر نے حامی بھرلی تو چند لوگوں کو مخصوص اوزاروں کے ساتھ اس پرندے کے پیچھے روانہ کر دیا گیا یہ لوگ اس پرندے کے پیچھے پیچھے چلتے جہاں وہ بیٹھ جاتا وہاں پہ نشان لگاتے جاتے اور اسی طرح کھوت راجوئے کے سروے مکمل ہوگیا اور اس زمانے کے دلیر اور محنت کش لوگوں نے ایک ناممکن کو ممکن بناکر تاریخ رقم کردی ۔ اب تک کھوت میں جب بھی سیاح آتے ہیں تو اس نہر کی سیر کرتے ہیں جہاں سے نہر کا آغاز ہوتا ہے وہاں دو محصوص وال کے زریعے پانی کو چھوڑا اور بند کیا جاتا ہے وہاں تک سیر سپاٹے کی نیت سے سیاح چلے جاتے ہیں اور لطف اندوز ہوجاتے ہیں ۔ اس کو مقامی زبان میں مدوک کہتے ہیں جو شاریگرم جامع مسجد سے چند قدم کی دوری پہ واقع ہے ۔

#بل_صفائی_مہم کھوت کی اس مشہور نہر کی صفائی مارچ کے آخری دنوں میں شروع ہوجاتا ہے اور تقریبا ایک ہفتے لگاتا کام کرنے کے بعد پائہ تکمیل کو پہنچتا ہے ۔ اس مہم کے لئے بھی باقاعدہ قواعد و ضوابط لاگو ہیں جن کی پیروی ہر ایک پہ لازم و ملزوم ہے ۔ بل صفائی مہم کا طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ اس نہر سے فائیدہ ٹھانے والوں کی کوئی اٹھارہ سے بیس تک مختلف گروپ تشکیل دی گئی ہے جو روز ازل سے اس گروپ میں ہیں اور ہر گروپ میں میں اٹھارہ بیس گھرانے ہوتے ہیں اور اس ایک گروپ کو ایک (پھی) کہتے ہیں ۔ اور دوران صفائی ہر (پھی) یعنی گروپ کو پیمائش کے حساب سے زمہ داری دی جاتی ہے جیسا کے ایک مخصوص جگے کو دکھایا جاتا ہے کہ یہاں سے وہاں تک فلان (پھی) کی زمہ داری ہے اسی طرح ہر (پھی) اپنے اپنے مقررہ جگے کی صفائی کرکے شام کو گھروں کو لوٹتے ہیں ۔ اور اسی طرح سات یا آٹھ دنوں میں بل صفائی موسم مکمل ہوجاتا ہے اور ایک دن مقرر کرکے اس نہر میں پانی چھوڑا جاتا ہے ۔

#کھوت_غاری

مدوک سے اگر گاڑی کا سفر ہو تو صرف چالیس منٹ کی مسافت کے بعد آپ کھوت کی مشہور چراگاہ پتیان پہنچ جاتے ہیں ۔ اور یہ کھوت میں بسنے والے تمام باسیوں کی ذاتی ملکیت ہے ۔ اور ہر برادری اور قبیلے کے نام الگ الگ علاقے اور چراگاہیں موجود ہیں جو آپس میں امن اور بھائی چارے کی وجہ سے تاحال منقسم نہیں بلکہ پورا کھوت کے عوام آپس میں مل بانٹ کر اس سے جہاں فائیدہ اٹھانا ہو وہاں فائیدہ اٹھاتے ہیں ۔ ورنہ گرمی کے دنوں میں گائے بیل اور دوسرے جانور وہاں پہ چرنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں جو تقریبا چار سے پانج مہینوں تک وہاں پہ چرتے ہیں اور سردیاں آتے ہی ان کو واپس نیچے بستیوں کی طرف لایا جاتا ہے۔

#غاری_نیسک یا #غاریوغ کھوت میں تین الگ الگ نالے ہیں جن کو غاری کہا جاتا ہے ۔ جن میں ووزگ ، اوجو اور پتیان شامل ہیں ۔ یہاں جس غاری کی بات ہورہی ہے یہ پتیان ہے ۔

یہ حدالنظر وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ایک درہ ہے جس کے وسط میں مشہور گراؤنڈ شاقلشٹ واقع ہے ۔

جولائی کے اوائل میں کھوت کے چند خاندان جو مال مویشیوں کی دیکھ بال زمینوں کے لئے کھاد اور سردیوں کے لئیے ایندھن جمع کرنے کی غرض سے دو مہینے کے لئے غاری کا رخ کرتے تھے ۔ جس کے لیے ایک دن مقرر کیا جاتا تھا جس دن پورا کھوت کے مرد و خواتین اپنے مال مویشیوں کو لیکر غاری چھوڑنے جاتے ۔ خواتین اپنے مال مویشیوں کے ساتھ اور مرد ہر دور کے حساب سے گانے اور میوزک کا اہتمام کرتے ۔ مثلا آج سے اگر چالیس یا پچاس سال پیچھے جائیں تو ڈف بجا کر خود سے گانا گاتے ۔ اور شاقلشٹ پہنچ کر پولو اور بوڈی دیک جیسے کھیلوں کا انعقاد ہوتا اور شام ڈھلتے ہی واپس نیچے بستی کی طرف چلے آتے ۔ پھر زمانے کے ساتھ ساتھ سازو سامان بھی بدلتے گئے ڈف کی جگہ سونی اور پینوسونک اور نیشنل کے جاپانی ٹیپ ریکارڈر نے لے لیے اور ایک دور ایسا آیا کہ غاریوغ کے دن ہر کسی کے کندھے پہ مقامی دستکاری سے تیار کردہ رنگ رنگیلے کور میں ملبوس ٹیپ ریکارڈر جن میں اس زمانے کے مشہور گانے بج رہے ہوتے تھے ۔ غاری کی طرف چلے جاتے تھے۔ مذکورہ مقام شاقلشٹ میں جاکر فٹبال، ولی بال اور کرکٹ کھیل کر شام کو واپس آجاتے تھے۔

 اور جو لوگ دو مہینے کے لئے وہاں سکونت اختیار کرتے تھے وہ بھی ان دو مہینوں میں چار الگ الگ تہوار منایا کرتے تھے جنکو #تیل_اشٹاریک #چھیر_اشٹاریک #تیلیکی اور #سوتکوریک کہاجاتا تھا ۔

#تیل_اشٹاریک:

جب گاؤں کے باسی دوسرے کھوت کے مال مویشیاں لیکر غاری میں دو مہینے گزارنے کے لئے چلے جاتے تھے تو ایک ہفتے تک وہ نہ ہی چائے میں دودھ استعمال کرتے تھے اور نہ ہی کھانے میں دیسی گھی اور مکھن استعمال کرسکتے تھے مقامی اصولوں کے مطابق ان چیزوں پر پابندی عاید ہوتی تھی تاہم ایک ہفتے یعنی گنتی کے ساتھ دن بعد تیل گھی اور مکھن وغیرہ پر سے پابندی ہٹ جاتی تھی اس دن گھی یا مکھن کا بناہوا ہوا طعام کا انتظام ہوجاتا تھا اور تمام اڑوس پڑوس والے مل بانٹ کر کھاتے تھے جس کو تیل اشٹاریک کہاجاتا تھا ۔

#چھیر_اشٹاریک :

دو ہفتوں یعنی چودہ دن بعد دودھ پر سے بھی پابندی ہٹ جاتی تھی اور پہلی دفعہ دودھ والی چائے بناتے اور دودھ سے بنے ہوئے مختلف قسم کے لذیذ کھانے جیسا چھیر گرینج۔ چھیرا شاپک ، وعیرہ بنا کر کھاتے اور اس دن کو چھیر اشٹاریک کہاجاتا تھا۔

#تیلیکی:

 جو بھی نئی نویلی دلہن یا کسی کا نومولود بچہ اگر پہلی دفعہ غاری میں آئے تو ان پر لازم تھا کہ ایک محصوص دن وہ ایک دیکچی میں چاول اور ایک دیکچی میں مقامی مٹر جس کو شاکوچھون کہا جاتا ہے ۔ پکاکر ایک مخصوص جگئے پہ لاکر خواتین مل بیٹھ کر کھالیتی تھیں البتہ اس میں مردوں کا حصہ نہیں ہوا کرتا تھا ۔ جسکو تیلیکی کہاجاتا تھا ۔

#_سوت_کوریک

غاری میں بسنے والے جتنے بھی لوگ ہیں وہ ایک خاص دن پورے کھوت کے لئے دعوت خاص کا انتظام کرتے تھے ۔ جس کا طریقہ کار کچھ یوں تھا ۔ کہ غاری میں بسنے والے ہر گھر کے ذمے ایک چھوٹے سے برتن میں دہی (مچھیر) جمانا ہوتا تھا ۔ اور جن جن کے پاس کھوت سے باہر کے مال مویشی ہوتے تھے ان کے ذمے ایک بڑی پلیٹ میں مقامی کھانا (سناباچی) پکاکر پیش کرنا ہوتا تھا ۔ غاریوغ کے بیس سے پچیس دن بعد سوتکوریک کا اعلان ہوا کرتا تھا جو گیسو مسجد سے ہی جمعہ کے روز اعلان ہوتا تھا اور پورے کھوت میں نمازیوں کے زریعے پیغام (پہنچیا جاتا تھا) اور پھر پانج دن کے اندر پورے کھوت سے مرد حضرات جن میں بچے نوجوان اور بزرگ بھی “جو چل کر پہنچ سکتے تھے” ایک بار پھر عاری کا رخ کرتے تھے۔ اور شاقلشٹ پہنچ کر ان چالیس پینتالیس گھرانوں سے مقامی دہی جسکو مچھیر کہا جاتا ہے ۔ شاقلشٹ پہ جمع کرتے اور پورے عوام مل کر اسے کھاتے اور حسب روایت پولو اور بعد ازاں جب گھوڑے پالنے کا رواج معدوم ہوگیا تو فٹ بال ولی بال اور کرکٹ کھیل کر شام کو واپس گھروں کو لوٹ آتے ۔

وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدل گیے۔ جہاں سوتکوریک کے نام پہ یہ تہوار منایا جاتا تھا ۔ وہ معدوم ہوتا چلا گیا وہ رونق نہیں رہی اور نہ ہی کھوت کے باسیوں میں وہ جذبہ اور سکت باقی رہی کہ گہما گہمی کے لمحات میں کچھ وقت نکال کر اس نایاب تہوار کو منانے آتے ۔

بہرحال اس رونق بھری تہوار کو یوں معدوم ہوتا ہوا دیکھ کر کھوت کے چند جوانوں نے ملکر کر یہ تہیہ کرلیا کہ اس تہوار کو تھوڑی سی وسعت دیکر کم ازکم تورکہو کی حد تک منایا جائے ۔ ان نوجوانوں میں ماسٹر امتیاز علی خان جو اسوقت سکول میں تھے ۔ کچھ بچوں کو لیکر جشن شاقلشٹ کے نام سے ایک ٹورنمنٹ کا انعقاد کیا ۔ اور دھیرے دھیرے اس کو شہرت ملتی گئی ۔ شروعات میں تقریبا کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ مگر سدا بہار نوجوان قاری نجم الدین ۔ شیر فراز ، میر کمال الدین ، نظام الدین ، مقبول حسین ، سجاد حسین اور ایسے ہی کافی ترقی پسند نوجوانوں نے ٹھان لی کہ شاقلشٹ کو ترقی کی منزل پہ پہنچا کر دم لینا ہے ۔ مگر کسی بھی کام کو بہتر طریقے سے کرنے کے لئے حکومت کی پشت پناہی نہ ہو تو وہ کام ممکن نہیں ہوسکتا، مگر ان نوجوانوں نے ہمت نہیں ہاری سالہا سال جشن شاقلشٹ کو بہتر کرتے گئے اور آخر کار شاقلشٹ ویلفئیر سوسائٹی معرض وجود میں آئی ۔ اور تا حال کھوت اور شاقلشٹ میں سپورٹس کے حوالے سے صف اول پہ کوشاں ہے ۔ اس تنظیم کے چیئرمین امتیاز علی خان ہیں ۔ صدر قاری نجم الدین ، نائب صدر شیر فراز, مہنور علیشاہ جنرل سیکریٹری اور قاری امام الدین فینانس سیکریٹری ہیں ۔ امسال بھی ان ہیروں کی محنت اور جستجو کی بدولت بڑے ہی پروقار انداز میں جشن شاقلشٹ اختتام پزیر ہوا ۔ اور اگلے سال کے لئے ہمارے نمائندوں اور ممبران پر چند سوالات چھوڑ گیا ۔ وہ یہ کہ انصاف کی حکومت جو ابھی تک ٹورزم کے حوالے سے بڑے بلند بالا دعوے کرتی آئی ہے ۔ مگر شاقلشٹ جیسے ایک انمول ٹورسٹ سپورٹ ابھی تک حکومت کی آنکھوں سے اوجھل کیوں ہے ؟ آج سے غالبا دو سال پہلے شاقلشٹ کے روڈوں کے حوالے سے سمری بھیجوادی گئی تھی وہ آج تک کیوں لاپتہ ہے ؟ اگر ماحول میں نشے اور دوسرے غلط کاموں کی روکھتام اور بچوں میں صحت مند زندگی کو عام بنانے کے لئے کوشاں اس تنظیم کو کوئی سپورٹ کیوں کرنہیں کرتا؟

یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب آج نہیں تو کل ہمارے نمائندوں کو دینا ہی پڑے گا اور جس انداز سے نوجوانوں میں سپورٹس کا جنون بڑھ رہا ہے کھوت کے نوجوانان شاقلشٹ میں اپنے سامنے ایک بہت بڑے سٹیڈیم کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ جو مستقبل قریب میں اپنے ووٹوں سے بھی مشروط کرسکتے ہیں ۔

#شاقلشٹ_کا_محل_وقوع_اور_سیاحت

تین سے چارمربع کلومیٹر پہ پھیلا ہوا یہ سرسبز ہرا بھرا میدان جس کے ایک کونے پہ محکمہ موسمیات کا ٹاور نصب ہے جس کا لاہور کے ساتھ ہوائی رابطے ہیں کے شمال اور جنوب کی طرف خوبصورت پہاڑی سلسلہ جسکو اشپیرو زوم کہاجاتا ہے یہ سلسلہ براستہ کھوتان کھوت اور یارخون کو چند گھنٹوں کی مسافت کے بعد آپس میں ملاتا ہے ۔ اس زمانے کے تندرست اور توانا لوگ صبح کھوت میں گھر سے کسی رشتہ دار کی تعزیت یا مبارکباد کے لئے نکلتے تھے تو شام کو واپس آبھی جاتے تھے اور وہ سلسلہ ابھی تک تسلسل کے ساتھ جاری ہے البتہ اسی دن واپس آنے والے لوگ شاید دنیا میں نہیں رہے مصنوعی خوراک اور نازک مزاجی کے باعث موجودہ دور کے لوگ یہاں سے اکثر بائی روڈ گاڑیوں کے زریعے بونی سے ہوتے ہوئے یارخون چلے جاتے ہیں ۔ اگر کوئی کھوتان کے راستے سے پیدل چلا بھی جائے تو وہ دو دن سیر سپاٹے کے بعد ہی واپس اسی راستے سے لوٹتا ہے ۔

حلانکہ مستحکم حکومت ہو اور اگر اس پر خاطرخواہ رقم خرچ کئے جائیں تو وہ دن دور نہیں کہ لڑکے موٹر سائیکل میں کھوتان لشٹ بازار سے سودا سلف لیکر کچھ ہی دیر میں واپس آجائیں گے۔ یا کوئی ایسا اقدام ہو کہ تین سے چار کلومیٹر کی سرنگ کھوت اور یارخون کو بالکل ایسا ہی قریب لے آئے گی جیسے ٹاؤن چترال اور اویون ۔ یہ باتیں بس مشورے کی حد تک ہیں باقی شاقلشٹ کی بات کرتے ہیں ۔

شاقلشٹ سیاحت کی نیت سے جانے والے کھوت سے صرف ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد شاقلشٹ پہنچ جاتے ہیں اور وہاں پہ اپنا کیمپ لگا کر اگر صبح آٹھ بجے آرام سے اٹھکر آہستہ آہستہ چل کر صرف دو گھنٹے کی مسافت کے بعد کھوتان پہنچ جاتے ہیں اور کھوتان میں جہاں بھی وہ بیٹھے پورا یارخون ، کارگن ، دیوان گول ، بریپ، استچ، دیزگ ، خورزگ، مہتنگ ، بیرزوز، بنگ پائن ، بنگ بالا، یوکوم ، شیچ، دیوان گول، میراگرام نمبر 2, پاور ، پترنگاز ، اور اسی طرح شوڑ کوچ اور وسوم تک کا نظارہ بہت اچھی طرح کرنے کے بعد ایک گھنٹے میں واپس شاقلشٹ پہنچ جائیں گے ۔ اس سے سیاحت کی سیاحت اور ورزش کی ورزش بھی ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح شاقلشٹ سے متصل کئی اور درے ہیں جن میں خوبصورت چوٹیاں ، ہرے بھرے گھاس ، دودھ جیسے بہتے ہوئے آبشار اور کئی کئی کلومیٹر میدان بس سیاحوں کی آمد کا منتظر ہیں ۔

اکثر پہاڑی علاقوں میں جنگلی جانوروں کا ڈر رہتا ہے مگر یہاں یہ علاقہ حد نظر وسیع اور کھلا ڈھلا ہونے کی وجہ سے جنگلی جانور بھی نایاب ہیں ۔ بہت کم بھیڑیے لومڑیوں کے علاؤہ ایک اور جانور پایا جاتا ہے جن کو مقامی زبان میں بیشندی کہاجاتا ہے ۔

شاقلشٹ کے تینوں طرف بہتی ندیاں ہیں جس کی ایک طرف بہت چھوٹی مقدار میں دریا بہتا ہے جو گرمیوں میں تیرنے کے لئے انتہائی موزوں ہے ۔

میں کبھی شندور گیا نہیں ہوں مگر جس طرح لوگوں سے سنا ہے کہ شاقلشٹ کا میدان شندور سے کافی حد تک بڑا ہے اور ۔ شاقلشٹ تک رسائی شندور سے کئی گنا آسان ہے ۔ بونی سے سے صرف پانج گھنٹے میں شاقلشٹ پہنچا جاسکتا ہے ۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے کے مصداق میں بھی اس خیال کے ساتھ یہ لکھ رہا ہوں کہ کیا پتہ کوئی تو ہو جو ایک دفعہ محبت کی نظر سے اس بہترین مقام کی طرف دیکھے، جس پر تھوڑے سے پیسے خرچ کرے تو حکومت پاکستان کے لئے بہترین ٹورسٹ سپوٹ بن کے سامنے آسکتا ہے اور اس کی بدولت کھوت کے باسیوں کے لئے روزگار کے مواقع فراہم ہوسکتے ہیں اور یہاں سیاحت کا نظام اصولی بنیادوں پہ ہو، یہاں پہ سٹیڈیم بنایا جائے تو آنے والی نسل اسپورٹس کے میدان میں اچھا خاصا نام کماسکتے ہیں اور علاقے کی نمائندگی نیشنل لیول پہ کرسکتے ہیں ۔ اور اگر تھوڑی سی محنت کی جائے تو انشاءاللہ صرف تیس سے پینتیس منٹ کی دوری پہ یارخون وادی کی سیر بھی ممکن ہوسکتی ہے ۔

فی الحال ۔ حکومت وقت کو چاہئیے کہ شاقلشٹ تک روڈوں کی بحالی کو ممکن بنانے کوشش کرے اور سب سے ضروری شاقلشٹ میں کم ازکم ایک چھوٹا سا گیسٹ ہاؤس تعمیر کیا جائے تاکہ مستقبل میں کسی مہمان کی آمد متوقع ہو ۔ اور یہاں کے ماحول کو ملحفوظ خاطر رکھ کر یہاں محصوص مقامات پر لیٹرین تعمیر کیے جائے تاکہ شاقلشٹ کی خوبصورتی ہمیشہ ایسی ہی برقرار رہے ۔

  آخر میں بس اتنا سا گزارش ہے کہ جشن شاقلشٹ کو پروموٹ کرنے کے لئے ہر پاکستانی کو ایک دفعہ ضرور تشریف لانا چاہئیے تاکہ جلد سے جلد جشن شاقلشٹ عالمی سطح پہ سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرے ۔

قاضی نذیر بی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں