مالاکنڈڈویژن میں ٹیکسوں کے نفاذکے خلاف قریباََ دوماہ قبل سوات میں بھی تاجربرادری نے احتجاج کیاتھا تاہم اس حوالے سے چکدرہ میں فشنگ ہٹ کے مقام پر ایک کل جماعتی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں مالاکنڈڈویژن کے کئی اضلاع بالخصوص مالاکنڈایجنسی ،دیر لوئراوردیراپر کے سیاسی جماعتوں اور تاجر برادری کے نمائندے بشمول منتخب ممبران اسمبلی و منتخب ناظمین شریک تھے اور کانفرنس کے شرکاء کامتفقہ فیصلہ یہ تھاکہ وہ مالاکنڈڈویژن میں کسی بھی قسم کے ٹیکس کے نفاذ کے حکومتی اقدام کو تسلیم کرتے ہیں نہ ہی کریں گے اور اگر حکومت نے ایساکوئی بھی اقدم اٹھانے کی کوشش کی توسیاسی جماعتیں،تاجربرادری اور عوام بھرپورمزاحمت کریں گے۔مگر سیاسی جماعتوں اورتاجرتنظیموں کی جانب سے جس خوف اور خدشے کااظہارکیاجارہاتھااورمالاکنڈڈویژن میں ٹیکس کے نفاذکے حوالے سے جو پیشگوئیاں کی جارہی تھیں وہ بالاخرسچ ثابت ہوگئیں کیونکہ اب موصولہ مصدقہ اطلاع یہ ہے کہ صدر مملکت کی اجازت سے خیبرپختونخواکے گورنراقبال ظفرجھگڑاکی جانب سے خیبرپختونخوا کے زیرانتظام علاقہ (پاٹا)کے مالاکنڈڈویژن اور کوہستان میں کسٹم ایکٹ باقاعدہ طورپر نافذکردیاگیاہے اور اس حوالے سے محکمہ ہوم اینڈٹرائبل افیئرز کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن نمبرSO(JUD)HD/9-1/2016.VOL1 میں کہاگیاہے کہ گورنر خیبر پختونخوانے صدرمملکت کی اجازت سے صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقہ میں کسٹم ایکٹ1969 نافذکردیاہے جونوٹیفیکیشن کے اجراء کے دن سے ہی نافذالعمل ہوگا۔ نوٹیفیکیشن کی کاپی پشاورہائی کورٹ،ہائی کورٹ مینگورہ بنچ،کمشنر مالاکنڈڈویژن اور ڈویژن کے ساتوں اضلاع کے ڈپٹی کمشنر کوارسال کردی گئی ہے ۔مذکورہ اقدام کے بعد اب مالاکنڈڈویژن کے تمام اضلاع بشمول کوہستان میں ملک کے دیگر علاقوں کی طرح کسٹم قوانین نافذ ہوں گے۔ ادھر بتایاجاتاہے کہ مذکورہ نوٹیفیکیشن کی اِجراء کی روشنی میں ٹیکس نافذ ہونے پرمحکمہ انکم ٹیکس نے مالاکنڈڈویژن کے تمام اضلاع میں دفاتر کھولنے کا بھی فیصلہ کرلیا ہے۔ اٹھتا سوال یہ ہے کہ مالاکنڈڈویژن کاعلاقہ اگر پاکستان کاحصہ ہے اور یہاں دیگر ریاستی قوانین نافذالعمل ہیں تویہاں کے عوام کواب تک ٹیکس کی چھوٹ کیوں حاصل تھی اس کا مختصراََ جواب یہ ہے کہ نہ صرف قیام پاکستان سے قبل سوات ،دیر اورچترال الگ الگ ریاستیں تھیں اور یہاں ریاستی حکمرانوں کے وضع کردہ قوانین کاسکہ چلتا تھابلکہ1947ٗٗ ء میں جب وطن عزیزکا قیام عمل میں لایاگیا تویہاں کی ریاستی حیثیت تب بھی برقراررہی اور 60 کی دہائی میں جب یہ ریاستیں پاکستان میں ضم ہوگئیں اور1969ء کو ملک میں کسٹم ایکٹ لاگوہواتومالاکنڈڈویژن کوٹیکس فری زون قراردے کراس علاقے کوہر قسم کے ٹیکس سے چھوٹ دے دی گئی تھی اور یہ سلسلہ اب تک چلتا رہامگراب گورنرخیبرپختو نخوا کے حکم پرباقاعدہ نوٹیفیکیشن کے تحت یہاں ٹیکس کانظام لاگوکرکے 47سال بعد مالاکنڈڈویژن کے ٹیکس فری زون کی حیثیت پرسوالیہ نشان کھڑاکیاگیاہے جس سے یہاں کے عوام،سیاسی جماعتوں اورتاجربرادری کوبڑی پریشان کن صورتحال کاسامناہے۔ جیساکہ پہلے ذکر ہواہے کہ مالاکنڈڈویژن میں ٹیکسوں کے نفاذکے خلاف سیاسی جماعتوں،منتخب عوامی نمائندوں،تاجربرادری،ٹرانسپورٹرز اورعلاقائی مشران پرمشتمل ایک گرینڈجرگہ تشکیل دیاتھاجس کے بطن سے ایک ایکشن کمیٹی نے بھی جنم لیاتھااور دیکھناہوگاکہ ٹیکسوں کے نفاذ سے قبل اس کے خلاف احتجاج کرنے والوں کاردعمل اب کیاہوتاہے کیاوہ اس حکومتی فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرلیتے ہیںیااترآتے ہیں منظم اور مؤثراحتجاجی تحریک چلانے پر۔ادھرمالاکنڈایجنسی سے پیپلزپارٹی کے منتخب ایم پی اے محمد علی شاہ باچاٹیکس کے نافذالعمل ہونے پر اب اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہوں گے کہ نہیں جیساکہ ڈیڑھ دوماہ قبل وہ سنائی دیتے تھے کہ اگر یہاں ٹیکس کانظام نافذہواتووہ اسمبلی رکینت سے استعفیٰ دیں گے۔ البتہ ان کامستعفی ہونامؤثراس لئے نہیں ہوگاکہ نہ تو یہ صوبائی معاملہ ہے اورنہ ہی خیبرپختونخوااوروفاق میں ان کی جماعت برسراقتدارہے اور صوبائی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونااگراس معاملے پر اثراندازہوسکتاہے توبہتر ہوگاکہ مالاکنڈڈویژن سے تعلق رکھتے پی ٹی آئی کے ممبران صوبائی اسمبلی مستعفی ہوں تاہم اب آیااونٹ پہاڑکے نیچے کے مصداق یہ معاملہ یقینی طورپر نون لیگ کے اہم رہنماء اوروزیراعظم کے مشیر انجینئر امیر مقام کے لئے دردسربن گیاہے مستقبل میں خیبرپختونخواکے منصب اقتدارپر فائزہونے کے خواب دیکھنے والے امیرمقام ایسے چوراہے پر آکرکھڑے ہوگئے ہیں جہاں سے باہر نکلنے کے لئے انہیں راستہ مشکل سے ملے گاقوم کوجواب دہ امیرمقام کیایہ صفائی دیں گے کہ وفاق کانمائندہ اور مشیروزیراعظم جیسے ذمہ دارمنصب پر فائزہونے کے باوجودوہ اس معاملے سے لاعلم تھے؟یاوہ یہ بتاتے دکھائی دیں گے کہ باخبر سہی مگر وہ بے بس تھے۔بہر حال اب کیاہوگاکیاامیرمقام اپنی حکومت کوقائل کرنے اور کسٹم ایکٹ کااقدام واپس لینے پر مجبورکرپائے گی کہ نہیں،کیاوہ حکومتی اقدام کاساتھ دیں گے اورجوہواسوہواکی بنیاد پر نون لیگ سے سیاسی وابستگی جاری رکھتے ہوئے آگے بڑھیں گے یاقومی اورعلاقائی مفاداور عوامی دباؤکے تحت نون لیگ کو خیرباد کہہ کر نئی سیاسی بساط بنانے کوترجیح دیں گے اس بارے ابھی واضح طورپر کچھ کہانہیں جاسکتاالبتہ بعض حلقوں کی جانب سے یہ ضرورکہاجارہاہے کہ اگر نفاذِ ٹیکس کایہ اقدام واپس لیاجاتاہے تویہ نون لیگ کی سیاسی چال ثابت ہوگی جس کامقصدمالاکنڈ کے عوام کی ہمدردیاں سمیٹنا اور سیاسی فائدہ حاصل کرناتھامگر دوسری جانب 2اپریل کوگورنر ہاؤس کی جانب سے یہ وضاحت آناخیبرپختونخواکی صوبائی حکومت کی جانب سے اکتوبر2015میں صوبے کے زیرانتظام قبائلی علاقہ کوہستان اور مالاکنڈڈویژن میں کسٹم ایکٹ نافذکرنے کے لئے اس وقت کے گورنر کو سفارش کی گئی تھی جسے منظوری کے لئے صدرمملکت کو بھجوادیاگیابعدازاں 2016میں صدرمملکت کی منظوری سے مذکورہ علاقوں میں کسٹم ایکٹ نافذکیاگیاہے۔گورنر ہاؤس کی اس وضاحت کے بعد پی ٹی آئی کے کردارپر بھی سوالیہ نشان لگ گیاہے جب کہ اگر واقعی ایساہوتو صوبائی حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں قومی وطن پارٹی اورجماعت اسلامی بھی خود کو ذمہ داری سے مبراقرارنہیں دے سکتیں۔یہاں ایک بات تو طے ہے کہ اگر یہ فیصلہ برقراررہتاہے یاواپس لیاجاتاہے دونوں صورتوں مسلم لیگ نون اورپی ٹی آئی میں سے کوئی ایک جماعت سیاسی لحاظ سے ناقابل تلافی نقصان اٹھاسکتی ہے جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کواس معاملے میں سیاسی فائدہ اٹھانے کاایک اچھاموقع ہاتھ لگاہے۔