228

گھریلو استعمال کے لیے پانی تک رسائی : بچیوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ  “

تحریر،۔عظمت حسین

” ایک طرف تو پانی رحمت ہے، زندگی ہے دوسری طرف یہ بچیوں کی تعلیم حاصل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، تورغر مینہ کے رہائشی فضل کا بیان
“بچیاں صبح سویرے گھر سے تعلیم کے لئے نہیں بلکہ گھر بھر کی پیاس بجھانے کے لئے نکلتی ہیں،” فضل نے کہا کہ ان کے گھر سے پانی کا چشمہ قریباً ڈھائی کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جس کے لئے انتہائی دشوارگزار رستے سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آس پاس کے تقریباً پچاس گھر جوکہ ایک گاؤں کی شکل میں رہتے ہیں اس ایک چشمے سے پانی لاتے ہیں اور اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے گاؤں یا محلے جوکہ تقریباً تین سو گھروں پرمشتمل ہیں ان کو بھی پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پانی ایک ایسی مجبوری ہے جس کا استعمال ہر حال میں کرنا پڑتا ہے کئی کئی گھروں میں حاملہ خواتین لمبے راستے پیدل طے کر کےسروں پہ پانی کے مٹکے بھر کر لاتی ہیں جو ان کی نارمل زچگی کو پیچیدہ کر سکتی ہے ۔
“واضح رہے کہ تور غر کو جون 2011 میں ضلع کا درجہ دیا گیا تھا اس سے پہلے اسے ایک آزاد ریاستی قبائلی ضلع کا درجہ حاصل تھا اور اپنے قبائلی نظام و طرز روایات کے ساتھ ساتھ وفاق سے منسلک تھا۔ تورغر کو “کالا ڈھاکہ” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جسے “کالا پتھر” بھی کہتے ہے ۔ جس طرح نام سے واضح ہے ضلع تورغر سنگلاخ بلندو بالا مگر خوبصورت و دلکش پہاڑوں پر مشتمل ضلع ہے جس کے دامن میں پاکستان کا مشہور دریا “دریائے سندھ” بہتا ہے جبکہ یہ ضلع ہزارہ اور ملاکنڈ ڈویژن کو بھی ایکدوسرے سے جوڑ دیتا ہے”۔
فضل کا کہنا تھا کہ کافی عرصہ پہلےکسی پراجیکٹ کے تحت پی وی سی پائپ بچھائے گئے تھے وہ بھی اب جگہ پھٹ چکے ہیں یا دھوپ کی وجہ سے خراب ہوچکے ہیں۔ انتظامی اور سیاسی قیادت میں کوئی بھی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔” ایسا لگتا ہے کہ دریائے سندھ ہم جیسے عام شہریوں کے ساتھ عورتوں اور بچیوں کے لیے پدر سری معاشرے کی روایات کو بر قرار رکھے ہوئے ہے۔ پانی تک رسائی نہ ہونا ہمارے جیسے علاقہ میں عورتوں اور بچیوں کا امتحان ہے،” فضل نے نہایت افسردگی سے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔
پاکستان کو اس وقت شدید قحط سالی کا سامنا ہے۔ صوبہ سندھ اور بلوچستان کے بیشتر اضلاع اس کی زد میں ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق پاکستان اس وقت پانی کی کمی کا سامنا کرنے والے خطرناک ترین ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے۔ دو ہزار نو میں فی کس 1500 کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا جبکہ 2022 میں گھٹ کرپانی کی دستیابی 1017 کیوبک میٹر تک رہ گئی ہے۔ ماہرین نے دو ہزار پچیس تک تک 500 کیوبک میٹر تک گھٹنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے جس سے ملک کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ماہرین یہ بھی بتاتے ہیں کہ اگر بروقت درست اور ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2040 تک جنوبی ایشیاء میں پاکستان خطرناک ترین ملک ہوگا جس کو سب سے زیادہ پانی کی کمی کا سامنا ہوگا۔
طالبون، ہیڈکوارٹر جدباء کے علاقےجہانگیر آباد کے رہائشی ہیں وہ کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے ایک اسکیم کے تحت ہمارے محلے میں پی وی سی پائپ بچھایا گیا تھا جو کہ وقت کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ۔ اب مجبوراً بچیاں باہر سے سروں پہ پانی بھر کر لاتی ہیں کیونکہ رستہ بازار سے گزرتا ہےاس وجہ سے بڑی عمر کی عورتیں چشمے تک نہیں جا سکتیں ۔ اس لیے بچیوں کو ہی پانی ڈھونے کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے جس سے ان کی تعلیم اور زندگی بہت برے طر یقےسے متاثر ہوتی ہے۔
طالبون کہتے ہیں کہ جب پانی کا استعمال زیادہ ہو ، محلے میں غمی شادی ہو یا گھر میں بیماری وغیرہ ہو تو بچیاں سکول سے چھٹی کرتی ہیں اور پھر سارا سارا دن پانی بھر کر لاتی ہیں۔ انہوں نے حکومت وقت اور نئے منتخب تحصیل چیئرمین سے مطالبہ کیا کہ ہمارےمحلے کے لئے پانی کی ایک جامع اسکیم منظورکی جائے تاکہ ان کی بچیوں کا مستقبل تاریکی میں ڈوبنے سے بچا جائے اور انہیں بھی ملک کے دیگر شہریوں کی طرح کی بنیادی زندگی کے بنیادی سہولیات میسر آئیں۔ یہ محلہ ساٹھ سے زائد گھروں پر مشتمل ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں 70 فیصد افراد کا پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں ہے۔ کل دستیاب پانی کی مقدار ڈھائی سو ارب کیوبک میٹر ہے۔ اس میں سے نوے فیصد پانی زراعت ، چار فیصد پانی صنعت جبکہ صرف چھ فیصد پانی گھریلو استعمال کی مد میں آتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں