378

ہنزہ ضمنی انتخاب،تاریخ دہرائی جائے گی یا تاریخ بنائی جائے گی؟….ممتازحسین گوہر

 پہلے وہ خود پارٹی ٹکٹ حاصل کر لیتے ہیں، کامیاب ہوتے ہیں اور اسمبلی میں پہنچ جاتے ہیں پھر یک دم نظر خواتین کے لیے مختص سیٹوں پر ٹھہر جاتی ہے اور بادشاہ سلامت کو اس سیٹ کے لیے ہنزہ سے اپنی بیوی سے زیادہ قابل، باصلاحیت اور حقدار خاتون نظر نہیں آتی ہیں۔یوں وہ اسے بھی اسمبلی لے آتے ہیں۔ اس میرانی کے اسمبلی پہنچنے میں بادشاہ سلامت سے زیادہ میکے والوں کا کردار نظر آتا ہے۔ خیر اب اسمبلی میں حکومتی عہدوں کی تقسیم کا مرحلہ آتا ہے بادشاہ سلامت کو اس اسمبلی میں وزیر اعلی سے کم کا عہدہ بھلا کیسے منظور ہو سکتا تھا، سو اس کے لیے ہاتھ پیر مارنا شروع کر دیے۔ مگر دوسروں کو شہیدوں کے نام پر ووٹ لینے کے طعنے دینے والی جماعت کو اپنے ہی ایک شہیدکی قربانی سے بڑی قربانی اور اس سے بڑا کارڈ نظر نہیں آیا۔ یوں وزیر اعلی کے لیے حفیظ الرحمان سامنے آیا۔ بادشاہ سلامت کو یہ کیسے منظور ہو سکتا تھا کہ وہ ایک عام  رہنما کے زیر اثر رہ کر کام کرے۔

جب یہاں اس کی دال نہیں گھلنے لگی تو اس کی نظریں گورنر کی نشست پر جا ٹھہری۔اس عہدے کے لیے سرفہرست اکبر تاباں سمیت دیگر رہنماوں کو پیچھے دھکیل دیا اور بیوی کے ذریعے میکے والوں کو راضی کر لیا اور یوں خود اس مسند پر جلوہ افروز ہو گئے اور یہ پیغام دے دیا کہ بادشاہ سلامت حفیظ جیسے عام لیڈر کے ماتحت کام نہیں کر سکتا۔

بادشاہ سلامت کی خالی کی گئی نشست کافی مہینے خالی رہتی ہے بالآخر الیکشن کمیِشن کی جانب سے ضمنی انتخابات کے لیے تاریخ کا اعلان ہوتا ہے اور یوں سیاسی پارٹیوں کی جانب سے امیدواروں کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ آتا ہے حکمران جماعت بہتر اور مضبوط امیدوار کی تلاش کے لیے ڈپٹی سپیکر کی سرکردگی میں ایک ٹیم ہنزہ بھیج دیتی ہے وہ کئی دنوں کی جدوجہد کے بعد ایک جائزہ رپورٹ وزیر اعلی کو پیش کرتے ہیں یہ رپورٹ کافی حد تک زمینی حقائق پر مبنی بھی ہوتی ہے۔ اس رپورٹ میں موزوں قرار دئیے جانے والے امیدواران پرامید ہوتے ہیں کہ پارٹی پالیسی اور جائزہ رپورٹ کے مطابق جلد ان کے نام پارٹی ٹکٹ کا اعلان کیا جائیگا۔ لیکن معاملہ اس وقت ایک دلچسپ رخ اختیار کر لیتا ہے جب مرکز قیادت صوبائی قیادت کو ان کی حیثیت اور اوقات ایک بار پھر یاد دلا دیتی ہے انہیں مرکز یہ بتا دیتا ہے کہ پوری صوبائی قیادت اور پارٹی فیصلے سے بھی مقدم ان کے لیے ہنزہ میں مقیم ان کی “رانی” اور بادشاہ سلامت ہیں اور وہ ان کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں سو وہ پارٹی ٹکٹ وزیراعلی سمیت پوری صوبائی قیادت کو بائی پاس کر کے بادشاہ سلامت کے چہیتے شہزادے پرنس سلیم کو جاری کرتے ہیں۔

رائے ونڈ کے اس فیصلے پر حفیظ سرکار نے اب تک چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے کیوں کہ اس فیصلے کے بعد انھیں بھی اندازہ ہو گیا کہ ان کی اصل حقیقت اور اوقات کیا ہے۔ روز اخبارات میں اپنی حیثیت سے دس گنا بڑے اونٹ پٹانگ بیانات دینے والے صوبائی حکمرانوں کو اپنی وقعت کا اس فیصلے کے بعد کافی حد تک اندازہ ہوا ہوگا۔

لوگ کہتے ہیں کہ ہنزہ میں سو فیصد شرح خواندگی ہے۔ مجھے ایسی تعلیم اور خواندگی نہیں چاہئے جو اب بھی میروں کو سر پر چڑھائے ان کے پورے خاندان کو ایوانوں میں پہنچا دے۔ اس سے بہتر نہیں ہے کہ میں گلگت بلتستان کے سب سے پسماندہ علاقہ تھک اوربونر کے عوام کو سلام پیش کروں جو ایک عام اور اپنے درمیان سے ہی انگوٹھا چھاپ حاجی شاہ بیگ جیسے بندے کو اسمبلی پہنچاتے ہیں جو کم از کم بکتا نہیں ہے، جھکتا نہیں ہے، حق اور اپنے جیسے غریب لوگوں کی بات کرتا ہے محل میں نہیں رہتا ہے ایسے ہی ایک مکان میں رہتا ہے جہاں عام لوگ رہتے ہیں۔ اپنے خاندان کے بجائے اپنے علاقے کی بات کرتا ہے۔ جہاں ایک ووٹ کروڑوں میں بکتا ہو وہاں وہ ووٹ ایک روپیہ لیے بغیر دوسرے مسلک اور دوسری پارٹی کے امیدوار کو بغیر کسی شرط کے دیتا ہے۔

مرکزی حکمرانوں کے اس فیصلے سے اس بات کو مزید تقویت ملی ہے کہ اقتدار میں رائے ونڈ والے ہوں گڑھی خدا بخش والے یا بنی گالہ والے، گجرات والے یا پھر کوئی فوجی آمر، آخری فیصلہ انہی کا چلتا رہے گا اور اگر اس بات میں کسی کو تھوڑی سی بھی شک ہو تو ذرا چھ دہایوں کی تاریخ کھنگالیں ساری اصلیت واضح ہوجائے گی۔ ایسے فیصلے ہوتے رہے تھے، ایسے فیصلے ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔آپ لوگ جی حضوری، ہاں میں ہاں ملانے، ہر حکم پر لبیک کہنے، ہار اور ٹوپیاں پہنانے کی روایات کو برقرار رکھو… اقتدار میں رہنے کے لیے اور کیا بھی کیا جا سکتا ہے کیونکہ ہم نے یہاں اقتدار کے ساتھ “ضمیر” کو بہت کم ایک ساتھ دیکھا ہے۔

ہنزہ حلقہ 6 کے ضمنی انتخابات میں بہت سارے لوگ بابا جان کے اسمبلی جانے سے ڈرتے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگ کہتے ہیں جناب اقتصادی راہداری بن رہی ایسے میں بابا جان کا اسمبلی جانا بالعموم گلگت بلتستان اور بلخصوص ہنزہ کے عوام کے حق میں ٹھیک نہیں ہے۔ ایسے میں میرا سوال ان سے یہ ہے کہ جو بندہ وہاں کے عوام کے ساتھ چلتا پھرتا ہو، حق کے لیے آواز اٹھاتا ہو، اذیتیں برداشت کرتا ہو، ایک چھوٹے سے عام گھر میں رہ کر عام لوگوں کی حق کی بات کرتا ہو، عوام کے لیے آواز اٹھانے پر مقدمات بگھت رہا ہوکیا ایسا شخص عوام اور علاقے سے غداری کر سکتا ہے۔۔۔

اب ذرا دوسری طرف دیکھتے ہیں ایک ایسا بندہ جس نے کبھی غریب اور غربت کا نام تک نہ سنا ہو، جس کی پوری عمر محلات میں گزری ہو، ہر جگہ نوکروں کی لائنیں لگی ہوں۔ ایک عام شخص کی تکلیف تو دور کی بات کسی عام شخص کے ساتھ بیٹھا ہی نہیں ہو، جس کے اقتدار میں آنے کا مقصد عوام کے بجائے اپنے ذاتی کاروبار کی ترویج و تحفظ ہو اورجو اقتدار میں اپنی اہلیت، قابلیت کے بجاے اپنے ماں اور باپ کا سہارا لے کر آرہا ہو۔۔ اس کے باوجود بھی اگر ایسے شخص کو اسمبلی پہنچایا جاتا ہے تو یہ پڑھے لکھوں کی نشانی تو نہیں کوئی اور نشانی ضرور ہو سکتی ہے۔ ہاں ہنزہ اور بلتستان کی انتخابی تاریخ یہ ضرور بتاتی ہے کہ ابتدا سے ان دونوں علاقوں کے عوام نے ایسے نمائندوں کا انتخاب کیا ہے جن کی پارٹی پہلے سے مرکز میں اقتدار میں ہو۔ یہ اب ہنزہ کے عوام پر منحصر ہے کہ وہ تاریخ دوہراتے ہیں یا پھر نئی تاریخ بناتے ہیں۔

ان کے پاس بابا جان کے علاوہ عزیز احمد، وزیر بیگ، کرنل(ر) عبید اللہ بیگ، امن شیر اور دیگر کی شکل میں اچھے اور قابل امیدوار موجود ہیں۔

بقول غالب، ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن … کے مصداق ہم سب پر بھی اسمبلی کی حقیقت پہلے سے ہی عیاں ہے. پہلے سے موجود ممبران نے جو کمال کر دکھایا ہے تو اب ہنزہ سے جیتنے والا امیدوار تبدیلی لے آئے گا۔ مگر یہاں بات سچائی اور حقیقت پسندی کی ہو رہی ہے۔ لوگ سمجھتے تھے کہ غذر سے نواز خان ناجی ایوان میں گئے تو انقلاب آیئگا ذرا وہ انقلاب کوئی دکھا سکتا ہے کہاں ہے؟ اور ہاں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اب بابا جان اسمبلی میں جائیں گے تو انقلاب آئے گا تو یہ بھی ان کی بہت بڑی بھول ہوگی۔میرے حساب سے نواز خان ناجی کی جو اہمیت اور آواز میں جو اثر اس اسمبلی میں جانے سے پہلے تھاوہ اب نہیں ،اور یہی بات میں بابا جان کے حوالے سے بھی کہوں گا۔ اسمبلی میں حق پر بات کریں کچھ نہیں ہوگا، البتہ آپ مرکز کو خوش کرتے اور ایک “فرمانبردار بچے” کی طرح ان کا کہا مانتے رہے “بادشاہ سلامت” کی طرح ان پر بھی نوازشات ہوتی رہیں گی. پر یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

ہاں جس طرح نواز خان ناجی کی جیت اس وقت کی حکومت اور حکمرانوں کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ تھا بالکل اسی طرح بابا جان کی جیت بھی اسی طرح کا ایک طمانچہ ثابت ہوگا۔ نواز خان ناجی نے ایک پیر کے حلقے سے کامیابی حاصل کی تھی اور اب اگر بابا جان ایک میر کے حلقے سے کامیابی حاصل کرتے ہیں، تو یہ بھی کسی صورت کوئی چھوٹی بات نہیں رہے گی۔اگر عوام اسیر رہنماءبابا جان کو اسمبلی پہنچا دیتے ہیں تو ان کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے اس سے بہتر ثبوت اور کیا ہو سکتی ہے۔ اس سے حکومت کے دیگر اسیر رہنماوں پر درج مقدمات کی بھی قلعی کھل جائے گی۔ اب تک حکومتی حربے ناکام ہوتے آئے ہیں بابا جان و دیگر رہنماوئں کے راستے میں حائل اہم رکاوٹ بادشاہ سلامت نے اپنے شہزادے کو ٹکٹ دلوا کر دور کر دی ہے۔اب بس 28مئی کی شام کا انتظار کیجئے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں