297

اے کے ایچ ایس پی ( ایس ایم کے پراجیکٹ) کے زیر انتظام چترال کے دور افتادہ گاؤں پھستی میں فری میڈیکل کلینک کا انعقاد

چترال (خصوصی رپورٹ :ڈیلی چترال نیوز)اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف میں سے ایک اہم ہدف ہر عمر کے افراد کیلئے صحت مند زندگی کو یقینی بنانا شامل ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کے ایک فعال رکن ممبر کی حیثیت سے باقی تمام اہداف کے ساتھ اس ہدف کے حصول کیلئے بھی سنجیدہ کوششیں کررہا ہے۔ تاہم وسائل کی کمی، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، جعرافیائی حالات، قدرتی آفات اور دیگر مسائل کی وجہ سے دور دراز علاقوں تک صحت کی سہولیات پہنچانا حکومت کے لئے بڑا چیلنج ہے۔
وادی چترال پاکستان کے دور دراز علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں صحت کی سہولیات کی فراہمی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ہندوکش اور ہمالیہ پہاڑوں کے دامن میں واقع دو ضلعوں پر مشتمل یہ وادی سینکڑوں چھوٹی چھوٹی پہاڑی بستیوں پر مشتمل ہے، جس کی آبادی ایک اندازے کے مطابق 5 لاکھ سے زائد ہے۔ ان بستیوں تک صحت کی بہتر سہولیات پہنچانے کیلئے حکومت کو ناکافی افرادی قوت اور مالی مشکلات کا سامنا ہے۔

کچھ ادارے ہیں جو اس دور دراز علاقے میں صحت کی بہتر سہولیات کی فراہمی میں حکومت کا دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔ آغا خان ہیلتھ سروس پاکستان پچھلے نصف صدی سے زائد عرصے سے چترال کے طول و عرض میں صحت کی سہولیات فراہم کررہی ہے۔ جہاں جہاں اے کے ایچ ایس پی کی سہولیات میسر نہیں ہیں، وہاں ادارہ اپنے آوٹ ریچ ٹیموں کے ذریعے عوام کو صحت کی سہولیات پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔

گذشتہ روزچترال کے انتہائی دورافتادہ اورپسماندوادی پھستی میں آغاخان ہیلتھ چترال کے صحت مندخاندان (ایس ایم کے ) پراجیکٹ کے زیراہتمام ایک فری میڈیکل کیمپ کاانعقادکیاگیا۔ میڈیکل کیمپ پر مختلف شعبوں سے وابستہ ماہرین ڈاکٹرز کی موجودگی میں کیمپ پر آمدین نے فری کنسلٹنسی سے استفادہ حاصل کیا۔اہلیان علاقہ کی طرف سے میڈیکل کیمپ کے پوری ٹیم کوخراج تحسین پیش کیاگیااوراس اُمیدکااظہارکیاکہ یہ سلسلہ ائندہ بھی جاری رہے گا۔تاکہ یہاں کے مستحق افرادکاعلاج معالجہ گھرکی دہلیزپرہوسکے۔

80 گھرانوں پر مشتمل پھستی گاؤں چترال شہرکے شمال کی جانب تقریبا 60 کلومیٹر کے فاصلے پر کوہ ہندوکش کے پہاڑوں پر واقع ہے۔ دس ہزار سات سو (10700) فٹ کی بلندی پر واقع یہ گاؤں وادی کے دوسرے علاقوں سے کم از کم چالیس سال پیچھے ہے۔ صرف ماہر ڈرائیور ہی فور بائی فور گاڑی میں آپ کو اس گاؤں تک پہنچا سکتا ہے۔ نومبر سے اپریل کے آخر تک اس گاؤں تک گاڑی میں رسائی نا ممکن ہے ۔ شدید برفباری اور سڑکوں کی بندش کی وجہ سے یہاں کے باسی کم وبیش چھ مہینے باقی دنیا سے مکمل طور پر کٹے رہتے ہیں۔ عام حالات میں بھی ہفتے میں ایک بار یہاں سے جیپ چترال شہر جاتی ہے۔بیسک ہیلتھ یونٹ یہاں سے دو گھنٹے کے فاصلے پر ہے جبکہ ہنگامی حالات یا بیماری کی صورت میں ہزاروں روپے صرف بیمار کو ہسپتال تک پہنچانے میں لگ جاتے ہیں۔ لیکن یہ سہولت صرف گرمیوں کے موسم میں ہی میسر ہے۔ سردیوں کے چھ مہینے یا تو بیمار ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجاتے ہیں اور اگر گھر یا خاندان میں افرادی قوت موجود ہو تو بیمار کو بنیادی مرکز صحت تک لانے کیلئے چارپائی کا استعمال کیا جاتا ہے، جس میں کم از کم پانج گھنٹے لگتے ہیں۔
پھستی گاؤں میں ایک لیڈی ہیلٹھ ورکر ہے جو اس پورے علاقے میں زچہ وہ بچہ کی صحت کی ذمہ دار ہے۔ اس کے علاوہ اس گاؤں میں میڈیکل اسٹور تک کی سہولت میسر نہیں ہے۔ بچوں کو ٹیکہ لگانے کیلئے نزدیکی بی ایچ یو سے اسٹاف ہر مہینے اس گاؤں میں جاتا ہے۔ لیکن سردیوں میں ان کیلئے اپنا فرض نبھانا کے ٹو سر کرنےسے کم نہیں ہوتا۔ پھر بھی وہ کسی نہ کسی طرح ہر دوسرے مہینے پھستی پہنچ کر بچوں کی ویکسینشن کرتے ہیں۔

ایک پرائمری اسکول اس دورافتادہ گاؤں میں تعلیم کی روشنی پھیلارہا ہے، لیکن پانچویں کے بعد جب بچے کی عمر مشکل سے بارہ سال ہوتی ہے تعلیم کے حصول کیلئے ان کو اپنے گھروں سے دور جاکر بسنا پڑتا ہے۔ جن کے رشتہ دار شہر یا کسی بڑے گاؤں میں موجود نہیں ہوتے، وہ تعلیم کو خیرباد کہہ کر والدین کے ساتھ مال مویشی کا خیال رکھتے ہیں۔
ترقی کے اس دور میں یہ گاؤں بجلی جیسی نعمت سے بھی محروم ہے۔ لمبی اور شدید سردی کے موسم کی وجہ سے یہاں خود کو گرم رکھنے کیلئے جلانے کی لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ چونکہ زیادہ تر لوگ بازار سے جلانے کی لکڑی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے، اس لئے پہاڑوں سے صنوبر کی قیمتی لکڑی کاٹ کر اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں۔
حالیہ سیلاب کی وجہ سے پرئیت گاؤں سے پھستی جانے والی سڑک بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے یہ گاؤں تقریبا دو مہینے تک باقی علاقوں سے کٹا رہا۔ اس کے علاوہ بے وقت اور شدید بارشوں کی وجہ سے کھڑی فصلیں تباۃ ہوگئیں۔ جس کی وجہ سے نہ صرف یہاں اشیاء خوردونوش کی قلت پیدا ہوگئی اس کے ساتھ ساتھ صحت کے مسائل بھی جنم لینے لگے۔ خوراک کی کمی کی وجہ سے بچوں کی نشونما اور عمر رسیدہ افراد کی صحت متاثر ہوئی۔ خواتین جن کی رسائی پہلے ہی صحت کی سہولیات تک بہت محدود تھی، کیلئے مشکلات پہلے سے بڑھ گئیں۔

آغا خان ہیلتھ سروس پاکستان (چترال) نے صحت کے مسائل سے دوچار دور دراز کی کمیونیٹیز تک صحت کی سہولت پہنچانے کی اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ڈیپارٹمنٹ آف ہیلتھ ڈسٹرکٹ لوور چترال کے ساتھ مل کر پھستی گاؤں میں ایک فری میڈیکل کلینک کا انعقاد کیا۔ اس فری میڈیکل کلینک کا اہتمام اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ایف پی اے کے تعاون سے چلائے جانے والے پراجیکٹ “صحت مند خاندان”(ایس ایم کے پراجیکٹ) کے تحت کیا گیا تھا۔ اس کلینک میں خاتون ڈاکٹر شاہ زیبا جہان، ماہراطفال ڈاکٹر ضیااللہ خان اور جنرل فزیشن ڈاکٹر تاثیر نے مریضوں کا معائنہ کیا۔ اس کے علاوہ نرسنگ اسٹاف، ویکسینشن ٹیکنیشن اور فیملی پلاننگ کونسلربھی ٹیم کا حصہ تھے۔ اس فری میڈیکل کیمپ میں کل 198 مریضوں کا معائنہ کیا گیا، جن میں بچے، بوڑھے، خواتیں، حاملہ مائیں اور مرد حضرات شامل تھے۔خاتون فیملی کاؤنسلر نے خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے خواتین کو اگاہ کیا، جبکہ ویکسینیشن ٹیکنیشن نے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے۔ کلینک میں مریضوں کو مفت دوائیں بھی فراہم کی گئیں۔

علاقے کے معززین نے فری میڈیکل کیمپ کے انعقاد پر اے کے ایچ ایس پی اور ڈیپارٹمنٹ آف ہیلتھ کا شکریہ ادا کیا۔ علاقے کے ایک بزرگ رحمت خان نے کہا کہ پھستی ایک بہت ہی پسماندہ علاقہ ہے، یہاں صحت کی بنیادی سہولت تک دستیاب نہیں ہیں۔ ایسے علاقے میں فری میڈیکل کیمپ کرنا نعمت سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ علاقے میں صحت کے سنگین مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں ڈسپنسری کا قیام عمل میں لایا جائے۔

علاقے سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن حبیب اللہ کا کہنا تھا کہ پھستی مسائل کی اماجگاہ ہے، یہاں کے مسائل بے شمار ہیں۔ یہاں زندگی بہت مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگ یہاں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے۔اس پسماندہ اور انتہائی دور افتادہ گاؤں میں فری میڈیکل کیمپ کرنے پر ہم ادارے کے مشکور ہیں۔
میڈیکل کیمپ میں حصہ لینے والے سینئر ڈاکٹر، ضیاءاللہ خان کا کہنا تھا کہ بہت زیادہ اونچائی پر واقع ہونے کی وجہ سے لوگوں میں اینیمیا(خون کی کمی) کی شکایات ہیں۔ عوام میں صحت کے بارے آگاہی بہت کم ہے، اس لئے ہائپر ٹینشن کا مرض عام ہے، اور ساتھ دمہ اور نمونیا کے مریض بھی دیکھے گئے ہیں۔ ڈاکٹر شاہ زیبا جہاں کا خیال تھا کہ چونکہ یہاں بنیادی صحت تک کی سہولیات نہیں ہیں۔ زچگی کے دوران اگر کوئی پیچیدگی ہوئی تو مریض کو مرکز صحت تک پہنچانا بہت مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ حاملہ خواتین کو اپنی اور اپنے ہونے والے بچے کی صحت کے بارے آگاہی نہیں ہے، جس کی وجہ ماں اور بچے کی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں