باپ کی جدائی کا صدمہ وہی سمجھتا ہے جس کا باپ نہیں ہے/ آج والدمحترم کو ہم سے بچھڑےچارسال ہو گئے ۔۔۔۔۔تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر
باپ کی دولت نہیں سایہ ہی کافی ہوتا ہے
باپ کی جدائی کا غم ہر عمر میں انسان کو رلا دیتا ہے
آج والدمحترم کوہم سے بچھڑے ہوئے چارسال گزرگئے ۔ہرموڑپہ یادآتی ہے وقت کی رفتاربہت تیزہے سال دنوں کی طرح گزرجاتاہے ۔مجھے آج بھی 10دسمبر2020ء کی وہ دن جب یادآتی ہے تو سینہ غم سے تنگ ہوجاتاہے ،آنکھیں نم ہوجاتی ہیں، روح کانپ اُٹھتی ہے ۔ 10دسمبر2020کوبروزجمعرات دن دوبجے کے قریب ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹرہسپتال چترال کے پرائیوٹ روم نمبر3میں والدمحترم اپنے مالک حقیقی سے جاملے ۔ آج ہی کے دن میں اپنے والدمحترم کی سرپرستی اور شفقتوں سے محروم ہو گیا تھا ۔ چلچلاتی ہوئی دھوپ میں بادلوں کا سایہ میرے سرسے ہٹ گیا تھا، زمین قدموں کے نیچے سے سرک گئی ، یوں سمجھیں کہ ان کے چلے جانے کے بعد دنیا ویران نظر آتی ہے۔مگران کی یادوں کی خوشبوسے دل کاگلستان ہمیشہ مہکتارہے گا۔انشاء اللہ تعالیٰ۔
اس دن کی حدت میرے دل سے نہیں جاتی
جس دن تیراسایہ میرے سر اٹھاتھا۔
والدگرامی کواس دنیاسے رخصت ہوئے چارسال ہوگئے مگرآج بھی ان کی جدائی کایقین نہیں ہورہاہے یوں لگتاہے کہ وہ آئیں گے مگریہ ہمارے خیالات وتصورات ہی ہوسکتے ہیں ۔ باپ کی جدائی کا غم ہر عمر میں انسان کو رُلا دیتا ہے۔جب کسی کام میں تھک جاتا ہوں یاکسی کام میں مایوسی کے سائے غالب ہوتے ہیں تو باپ کی صورت میں ان کا چہرہ سامنے آجاتا ہے ، جو حالات سے لڑنے کا نیا حوصلہ دیتا ہے،جوہمیشہ حالات سے مقابلہ کرنے کا درس دیتاتھا ۔باپ کی جدائی کا دکھ وہی سمجھ سکتا ہے جو اس رشتہ سے محروم ہو ۔
باپ دنیا کا واحد رشتہ جو اپنی اولاد کو خودسے زیادہ کامیاب دیکھ کر خوش ہوتا ہے ۔ اُس کی محبت اور دعائیں ہمیں دنیا کے ہر امتحان اور حالات سے لڑنا سکھاتی ہیں۔باپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ انمول تحفہ ہے جس کے ہوتے ہوئے اولاد ہرڈرسے ناآشناہوتی ہے ،جوخواہش دل میں آتی ہے ادھر والدنے پورا کردیتاہے ۔اپنے لئے زندگی کی ہرآسائش اورسکون سے کنارہ کشی اختیاراکرتے ہوئے دن رات محنت مزدوری کرکے اولادکوخوش دیکھناچاہتاہے ۔
باپ کی جدائی کا صدمہ وہی سمجھتا ہے جس کا باپ نہیں ہے،والدمحترم کی زندگی میں جب بھی میں سفرپرنکلتاتھا ہر دس دس منٹ بعد ابو کے کالز آنا شروع ہو جاتیں، کہاں پہنچے؟ کبھی اپنے دل میں ایسابھی کہتاتھاکہ بار بار کال کرنے کی کیا ضرورت؟ مگراب جب بھی گھر سے دور سفر میں ہوتا ہوں تو اُن لمحات کی یاد ہمیشہ مجھے رولادیتاہے ،اُن کی جدائی کاغم نئے سرے سے تازہ ہوجاتاہے جس کے لئے دنیامیں کوئی مرہم نہیں۔باپ کی جدائی کادُکھ الفاظ میں بیان کرنا انتہائی مشکل ہے ،بے شک زندگی بہت کچھ کھوکرپانے کانام ہے ۔ میرے والد محترم بہت نرم مزاج اور مہربان انسان تھے، وہ غریبوں، ہمسایوں، یتیموں اور بیواؤں کا بہت خیال رکھتے تھے گاوں کے ہرمشکل دکھ درد میں پیش پیش ہوتے ہیں جسکی کمی کوآج بھی پورا گاوں محسوس کررہے ہیں۔
باپ کی دولت نہیں سایہ ہی اولاد کے لئے سب سے بڑی نعمت ہوتی ہے۔وہ دن رات محنت کرکے جب رات کوتھک کرجب بسترمیں لیٹاہے تواُ س کی تھکاوٹ ،بدن کادرداورتکلیف صرف خالق کائنات د یکھتاہے مگرپھربھی وہ ایک مضبوط چٹان کی مانند اپنادردکسی سے بیان نہیں کرتاہے تمام تکلیف اپنے ساتھ سمیٹ کرصبح اُٹھ کررزق کی تلاش میں مصروف ہوتاہے ۔ اولاد کی خوشیوں کے لیے ہر حد سے گزر جاتا ہے۔مگروقت کاپہیہ گھومتاہے اچانک اولاد کے سرسے والاکاسایہ اُٹھالیاجاتاہے اوراولاد کوزمانے کااصل روپ دکھاتاہے ۔والد کے بچھڑنے کے بعداحساس ہوتاہے کہ والدکے بغیرزندگی کتنی بے امان ہے ۔ پھر بچپن سے لے کر اس کے بچھڑنے کی آخری لمحے تک اس کی باتیں، اس کی یادیں، اس کی قربانیاں ، دعائیں،خوش اخلاقی ،نرم مزاجی،حسن سلوک، غریبوں کی مدد، عاجزی و انکساری ، خدمتِ خلق ،ان کی پیار اور خلوص سے بھری باتیں اب بھی کانوں میں گھونجتی محسوس ہوتی ہیں اور انسان کے پاس صرف آنسو ہی باقی بچتے ہیں۔ اللہ تعالی میرے والد محترم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے آمین ثم۔
وہ نہیں رہے میرے پاس اب تویہ الجھنوں میں ہے زندگی
وہ تھے زندگی میں توزندگی میں فقط سکون وقرارتھا
میری روح وجان کاقرارتھا،میری خواہشوں کاوقارتھا
یہ کڑکتی دھوپ ہے زندگی وہ شجرکہ سایہ دارتھا