چترال چارکم سن بچوں نے تریچ میرکے بابوکیمپ پہنچ کرتاریخ راقم کرلی۔۔۔۔تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر

فلک بوس پہاڑوں کے دامن میں واقع جنت نظروادی چترال کی اہمیت گرمیوں میں ٹھنڈے موسم اور سردیوں میں برف باری کے نظاروں کی وجہ سے ہے۔ یہاں ہر سو فطرت کے حسین مناظر بکھرے ہوئے ہیں۔یہاں کے چاروں طرف اُونچے پہاڑی سلسلے ،بہتے ہوئے دریا،درختوں سے ڈھکی وادیاں، صدیوں پرانا ثقافت ،اورتاریخی پس منظر دنیابھرسے سیاحوں کویہاں آنے پرمجبورکرتے ہیں ۔وادی چترال میں ہندوکش کی چوٹی تریچ میرسمیت 7ہزارمیٹرسے بلند52چوٹیان ہیں۔اس طرح 6ہزارسے بلندچوٹیوں کی تعداد سوسے زیادہ ہے ۔ دنیا کا بلند ترین پولو گراؤنڈ شندور12325 فٹ بلند،آبی ذخائر کے 65 بڑے گلیشیرز اور 8 قدرتی جھیلیں وادی چترال میں واقع ہیں۔ہمارے پہاڑسیاحت کی ترقی کے لئے خزانے کی اہمیت رکھتے ہیں ۔
گذشتہ روزاپرچترال کے چار کم سن بچوں نے4700 میٹر ( تقریبا ساڑھے چودہ ہزار فٹ )بلند ہندوکش کی چوٹی تریچ میر کے بابو کیمپ پہنچ کر چترال کی تاریخ میں کم عمر ترین مہم جو ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا ۔ جبکہ تریچ میر میں مہم جوئی کرنے والی بچوں کی پہلی ٹیم کی حیثیت سے بھی اپنا نام رقم کر لیا ہے ۔ترچ میر سلسلہ کوہ ہندوکش اورچترال پاکستان کی سب سے اونچی چوٹی ہے، یہ سطح سمندر سے 7708 میٹر 25,289 فٹ بلند ہے۔ یہ چوٹی ضلع چترال صوبہ خیبرپختونخوا پاکستان میں واقع ہے۔ اسے سب سے پہلے 1950ء میں ناروے کے مہم جوؤں نے سر کیاتھا۔
چترال سے تعلق رکھنے والے ان بچوں میں 9 سالہ ا نبیا عرفان دخترصاحب عرفان، ، 13 سالہ انوش عالم دخترصاحب عالم ،16 سالہ احیل دنیال ولدصاحب کمال ساکنان چنارمستوج اور13 سالہ انم خادم دخترانجینئرخادم اللہ رضاء خیل سکنہ وریجون موڑکھو نے د شوارگزارراستے اوراکسیجن کی کمی کے باوجوداپنی سات روزہ کامیاب مہم جوئی کے دوران فطرت کو بہت قریب سے دیکھا ۔ اور بھر پور لطف اندوز ہوئے ۔ان کم سن بچوں کی ہندوکش کی چوٹی تریچ میر کی طرف یہ ٹریکنگ اور مہم جوئی مستقبل میں چترال کے بچوں اور نوجوانوں کو اس فیلڈ کی طرف راغب کرنے کا نقطہ آغاز ہے ۔
چارکم سن بچوں نےاپنے ٹیم کے ہمراہ حالیہ مہم جوئی کا آغاز 30 آگست کو شاگروم تریچ سے کیا تھا ۔ 30 اگست کو شاگروم سے روانگی کے بعد شیغیاک ، شوغور بسین ،استورو نال کیمپ میں قیام کیا اور چوتھے روز بابو بیس کیمپ پہنچے ، جوکہ اس مہم کا آخری پڑاو تھا ۔جہاں پہنچ کر بچوں نے انتہائی خوشی کا اظہار کیا ۔ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرایا اورپورے جوش و جذبے سے پاکستان زنددہ باد کے نعرے لگائے۔ واپسی کے سفرمیں اگلے دن شوگرام واپس پہنچ گئے ۔ جہاں کے لوگوں نےاُن کی زبردست استقبال کیا ۔ بچوں کاکہناہے کہ اس مہم کا مقصد نوجوان طبقے کو ایڈوینچر ٹورزم اور کوہ پیمائی کی طرف راغب کرنا اور سیاحت کو فروغ دینا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ملکی اور غیر ملکی سیاح چترال میں سیاحت کیلئے آئیں ۔ اور لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں ۔بچوں کاکہناہے کہ ان کے ٹیم لیڈر اور قائد صاحب عالم نے اپنے تجربات کی روشنی میں پہلے انہیں تیار کیا ۔ اور اس ایڈوینچر کو کامیاب بنانے میں پل پل ان کی رہنمائی کی ۔ اور یہ ایک ایسا دلچسپ سفرتھا ۔ جس میں قدرت کے حسن کو دیکھنے ،محسوس کرنے اور مشاہدات و تجربات سے گزرنے کا موقع ملا
معروف مہم جو اور ٹور اپریٹر صاحب عالم نے بتایاکہ مہم جوئی ان کی زندگی کا حصہ ہے ۔ اور گذشتہ 26 سالوں سے وہ اس شعبے سے وابستہ ہیں ۔ ہمالیہ ،قراقرم اور ہندوکش سمیت کئی چوٹیوں کی مہم جوئی میں حصہ لیا ۔ اب میری کوشش ہے ۔ کہ چترال کے یوتھ اور نوجوان نسل کو اس شعبے میں تربیت فراہم کرکے چترال میں مہماتی سیاحت کو فروغ دیا جائے ۔ صاحب عالم کاکہناہے کہ ہماری خوشں قسمتی ہے تریچ میر کا شمار دنیا کے بڑی چوٹیاں میں ہوتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے چترال میں کوہ پیمائی کی روایت شروع سے نہیں ہے۔ حکومت اور مقامی لوگوں کی عدم توجہ کی سے کوہ پیما چترال کا رخ نہیں کرتے ہیں۔ حالانکہ دنیائے کوہ پیمائی میں تریچ میر کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔
ہندوکش ایکسپلورر کے چیف ایگزیکٹیو صاحب عرفان کے مطابق چترال میں کوہ پیمائی کیلئے بے پناہ مواقع اور چوٹیاں ہیں ۔ جنہیں ہم اجاگر کرکے کوہ پیماوں سے رائیلٹی کی مد میں آمدنی حاصل کر سکتے ہیں ۔ بڑی تعداد میں فارنر ماونٹینر ہندوکش کی چوٹیوں میں دلچسپی لے رہےہیں ۔ اور گذشتہ چند سالوں سے مہماتی سیاحت میں بہتری آئی ہے۔ حکومت کو چاہئے سہولیات دیکر سیاحوں کیلئے آسانیاں پیدا کریں تریچ میر کی خوبصورتی کو بڑھانے کے لیے مزید اقدامات کی سخت ضرورت ہے۔دنیا بھر کے پہاڑوں اور پہاڑوں کے قریب رہنے والی آبادیوں کی حالت بہتر بنانے اور ان کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے شعور اجاگر کرنا ہے۔
جفاکشوں کی سرزمین وادی چترال قدرتی حسن سے مالامال 14850مربع کلومیٹرپرپھیلاہواعلاقہ ہے ۔کے ٹو کے بعد پاکستان کی دوسری بلند ترین پہاڑی چوٹی تریچ میر یہاں واقع ہیں ۔وادی چترال کے خوبصورتی ،منفرد ثقافت اوریہاں کے مکینوں کی مہمان نوازی کے روایات کودنیاکے سامنے عیاں کرنے کی اشدضرورت ہے تاکہ دنیابھرسے سیاح ان دلفریب مقامات میں آکرقدرتی حسن کامزہ لے سکیں