داد بیداد…نئی اتھارٹی کا قیام…ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
تازہ خبر آئی ہے کہ ہوائی جہازوں کی آمدو رفت میں سہو لت کے لئے قائم کئے گئے سول ایسوسی ایشن اتھارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ملک کے تمام کمر شل ائیر پورٹ نو تشکیل شدہ پا کستان ائیر پورٹ اتھارٹی کا حصہ ہونگے اس طرح ائیر ٹرانسپورٹ، ریگو لیٹری شعبہ جا ت، فلائیٹ سٹینڈرڈ اور لائسنسنگ بدستور سول ایوی ایشن اتھارٹی کے پاس رہینگے تنظیم نو اور دونوں کی علیحد گی پر ما لی اخراجات کا اضافی تخمینہ 20ارب روپے لگا یا گیا ہے اس منصو بے کی منظوری شہباز شریف کی کا بینہ نے دی تھی اور اسمبلی میں اس حوالے سے ایک بل بھی منظور ہوا تھا اس بل کے تحت نگران حکومت نے نئی اتھارٹی قائم کی ہے بل میں کہا گیا ہے کہ نئی اتھارٹی کے قیا م سے کمر شل ہوائی اڈوں کے انتظا م اور انصرام و اہتمام میں مدد ملے گی، سول ایوی ایشن کے معا ملا ت درست ہونگے یہ سوال کسی نے نہیں پو چھا کہ اب تک ہوائی اڈوں کا انتظام ٹھیک کرنے سے کسی نے روکا تھا اور سول ایوی ایشن کے معا ملا ت میں گڑ بڑ کس نے پیدا کی تھی؟ خیر، اب ایسے سوالات کا موقع بھی نہیں فائدہ بھی نہیں، خو شی کی بات یہ ہے کہ نئی اتھارٹی کے قیا م کے ساتھ ہی بے روز گار نو جوانوں کے لئے 1200نئی آسامیاں پیدا کی جا ئینگی ان آسا میوں کی وجہ سے غر بت میں کمی آئیگی غریب عوام پر مہنگائی کا بو جھ کم ہو گا اگر غور کیا جا ئے تو اب تک پا کستان سٹیل، واپڈا، ریلوے اور پی آئی اے کو دیوالیہ کرنے والی سوچ یہی ہے کہ بے روزگار وں کو روز گار دو، جہاں 1500ملا زمین کی گنجا ئش ہے وہاں 12ہزار بے روز گاروں کی بھر تی کا انتظام کرو ہر ایم این اے کو ملا زمتوں کا کوٹہ دیدو نئی اتھارٹی کے قیام میں یہی سوچ کا ر فرما ہے اس لئے سٹیٹ بینک کے سابق گور نر ڈاکٹر عشرت حسین نے پا کستان کی معا شی صورت حا ل پر اپنی انگریزی کتاب کا نا م ”نظم و نسق سے عاری نظم و نسق“ (Governing the Ungovernable)رکھا ہے، ملک کے سابق سکرٹری داخلہ روئیداد خا ن نے ملکی سیا ست پر اپنی جا مع کتاب کا نا م ”بکھرا ہوا خواب“ (A dream gone Sour) رکھا ہے یہ ان لو گوں کے سال ہا سال کے تجر بات کا نچوڑ ہے، وزارت ثقا فت کے سابق جائنٹ سکرٹری اور لو ک ورثہ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عکسی مفتی نے اپنی کتاب ”کا غذ کا گھوڑا“ 2010میں شائع کی اس میں لکھا ہے کہ ہمارے ملک میں نئے ادارے بڑے بلند بانگ دعووں کے ساتھ قائم کئے جاتے ہیں لیکن چند سال بعد پتہ لگتا ہے کہ ان اداروں میں تنخوا ہوں اور بلوں کی ادائیگی کے سوا کوئی کا م نہیں ہوتا 2020ء میں آئی ایم ایف کی معائینہ ٹیم نے جو رپورٹ تیار کی تھی اُس میں پا کستان کی حکومت سے ملک پر قرضوں کا بوجھ کم کرنے اور وزارت خزانہ کو آئی ایم ایف کی قسطیں ادا کرنے کے قابل بنانے کے لئے وفاق کی سطح پر 7وزارتوں، 13ڈویژنوں اور 28غیر ضروری دفاتر کو بند کر نے کی سفارش کی گئی تھی ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے بعد وزیروں کی تعداد 92ہو گئی، ڈویژ نوں اور دفاتر کی تعداد میں سال بہ سال اضافہ ہو تا رہا گو یا ہم قرض لینے والے نہیں قرض دینے والے بن گئے ہیں یا دش بخیر میاں نواز شریف کی دوسری حکومت میں ایک محکمے کو تقسیم کر کے دوسرا محکمہ تشکیل دیا گیا تو معلو م ہوا کہ نیا محکمہ صرف ایک ایم این اے کو وزیر بنانے اور اس کے داماد کو سکرٹری کی آسامی پر لگا نے کے لئے قائم کیا گیا تھا اس طرح کی سطحی منصو بہ بند ی کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے لیکن ہم سوچتے نہیں وہی چال بے ڈھنگی کہ جو تھی اب بھی ہے