داد بیداد…خیبر پختونخوا کے وسائل…ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
وسائل کا ذکر جہاں آتا ہے سب کا خیال قیمتی پتھروں کی طرف جاتا ہے، تیل اور گیس کی طرف جاتا ہے، لو ہے، تانبے، یو رینیم، سونے اور سنگ مرمر سمیت 63معدنیات کی طرف جاتا ہے انسانی وسائل کاذکر کوئی نہیں کرتا عالمی سطح کے پختون انجینر اور میٹریل انجینیئرنگ میں نام پیدا کرنےوالے پروفیسرڈاکٹر یاسین اقبال یوسفزی کے خیال میں سب سے اہم وسیلہ پتھر، تیل اور گیس نہیں بلکہ انسانی، دماغ، انسانی مہارت، انسانی عقل سے کام لینے والے نو جوانوں کا وسیلہ ہے ڈاکٹریا سین اقبال کہتے ہیں کہ اگر پتھر، تیل اور گیس کی دولت سے کوئی ملک ترقی کر سکتا تو افریقی ممالک دنیا کے سب سے دولت مند ملک ہو تے، جی۔7اور جی۔ 8کے سربراہی کر نے والے یہی ہوتے مگر افریقی ممالک کا براحال ہے، حالانکہ دنیا کی قیمتی معدنیات کا دوتہائی ان کے پاس ہے آج طاقت ور ممالک کون ہیں؟ وہ ممالک طاقتور ہیں جنہوں نے انسانی وسائل اور افرادی قوت کو ترقی دے کر ٹیکنالوجی حاصل کی دوسری جنگ عظیم میں جاپان تباہ ہوا تھا،جنرل ڈوگلس میک آرتھر نے جاپان کو انسا نی وسائل کی ترقی، سائنس، انجینئر نگ اور ٹیکنالوجی کاراستہ دکھایا اور 10سالوں میں جاپان دنیا کی بڑی طاقتوں میں شامل ہوا معدنیات کی وجہ سے یہ کامیابی نہیں ملی، ٹیکنا لوجی کی وجہ سے یہ کامیابی نصیب ہوئی اورٹیکنالوجی انسانی وسائل کی بر کت سے ہاتھ آگئی ڈاکٹر یاسین اقبال یوسفزئی پختونوں کے معاشرے سے ایک مثال دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کسی گاوں میں دو بھائی تھے ایک حادثے میں دونوں کی وفات ہوئی بڑے بھائی کے بیٹے نے باپ کی زمین فروخت کرکے شہر میں گھرلیا موٹر خریدی جب وہ بڑھا پے میں بیمارہوا تواس کے بچوں نے گھر بیچ دیا اب ان کے پاس کچھ بھی نہیں، چھوٹے بھائی کے بیٹے نے زمین پر سخت محنت کی، فصل اگائی،سبزیوں کی کاشت میں نا م پیدا کیا اور پھلدار درخت لگا کر پھل بیچنے لگا اس کی اولاد نے مزید زمین خرید کر جائیدا د میں اضافہ کیا آج اس کی اولاد کا شمارکامیاب زمینداروں میں ہوتا ہے، بنیادی فرق دونوں بھائیوں کی اولاد میں عقل اور دماغ سے کام لینے یاعقل اور دماغ سے فارغ ہونےکاتھا بڑے بھائی کا بیٹا عقل اور دماغ سے فارغ تھا اس نے کوئی محنت نہیں کی زمین بیچ کر کھانے کا آسان راستہ اختیار کیا اور افریقی ممالک کی طرح خوار ہوا، چھوٹے بھائی کے بیٹے نے عقل، دماغ اور ہاتھ پاؤں سے کام لیا، باپ کی جائیداد سے فائدہ اٹھایا اس پر مزید اضافہ کیا اور خوشحال ہواخیبر پختونخوا کے وسائل کا کوئی حساب اور اندازہ نہیں،اس پر ماہرین کی بڑی کتابیں مار کیٹ میں موجود ہیں ایمیزون میں بھی ملتی ہیں شمس مہمند کی کتاب حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے، ڈاکٹر یا سین اقبال یوسفزئی کی کتاب ایمیزوں پر دستاب ہے خلاصہ کلام یہ ہے کہ خیبر پختونخوا سے ناتراشیدہ پتھر، لکڑی، زمرد، یاقوت اور سنگ مر مر یا دیگر معدنیات باہر نہیں جانی چاہئیں بلکہ اپنے انسانی وسائل کے ذریعے کارخانے لگا کر تیار مال مارکیٹ کو دینی چاہئیے اگر مہمند اور بونیر کا سنگ مر مر باہر بھیجا گیا ہے تویہ ہمارا نقصان اور تاوان ہے اس کے مقابلے میں دیر کوہستان اور چترال کی معدنیات اگر اب تک کانوں اور پہاڑوں میں محفوظ ہیں تو یہ ہمارا فائدہ ہے جب مقا می نو جواں انجینیروں کا گروپ میداں میں آئے گا توان معدنیات سے اپنے کارخانوں کاتیار مال بنا کر مارکیٹ میں لائے گا روزگار بھی مقامی لوگوں کو ملے گا منافع بھی مقامی ابادی کاہوگا خیبر پختونخواہ کے وسائل پر اس نقطہءنطر سے بات ہونی چاہئیے انسانی وسائل اور افردی قوت کو ہر معاملے میں اولیت ملنی چاہئیے اس کے بغیر دیگر وسائل سے فائدہ نہیں اٹھایاجاسکتا ہے۔