46

بارش اور محبتوں کے اڑان………..خاطرات :امیرجان حقانی

بارش، قدرت کا ایک حسین تحفہ ہے جو نہ صرف بحر و بر کو فیضیاب کرتا ہے بلکہ دلوں کو بھی تازگی، فرحت اور سکون بخشتا ہے۔ آج پڑی بنگلہ میں جب ہلکی ہلکی بارش ہورہی ہے، تو فضا میں ایک رومانٹک سرور چھا گیا ہے۔ ہر بوند جو زمین پر گرتی ہے، جیسے کہ محبت کا ایک نرم لمس ہو جو دلوں کو گرما دیتا ہے۔ دل جب گرما جائے تو پھر دنیا ہی بدل جاتی ہے.

بارش کی رعنائی میں ایک عجیب سی کشش ہے۔ یہ سب کچھ بدل دیتی ہے، ہر منظر کو نئے رنگوں سے سجا دیتی ہے۔ درختوں کی پتے دھل جاتے ہیں اور وہ ایک نئے جیون کا احساس دیتے ہیں۔ شاید یہ ایام بھی جیون کے ملاپ کے ہیں. گلیوں، سڑکوں اور پانی کا نالیوں میں پانی کی ننھی ننھی ندیاں بہنے لگتی ہیں، جیسے کہ یہ محبت کی راہیں ہوں جو دلوں کو جوڑتی ہیں۔

جب بادل چھا جاتے ہیں اور بارش برستی ہے، تو ہر چیز کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے۔ لوگوں کے چہرے مسکرا اٹھتے ہیں، جیسے کہ وہ محبت کے نئے جذبے سے لبریز ہوں۔ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے، ہر منظر ایک دلکش تصویر بن جاتا ہے. اس وقت میں لکھ بھی رہا اور میرے صحن کے درخت اور پھول اور بیل بوٹے مجھے دیکھ کر اپنی ننھی ننھی ٹہنیاں ہلا ہلا کر اپنی محبت کا اظہار بھی کررہے ہیں. شاید وہ مجھے سلام کررہے ہیں. کچھ پرندے بھی ادھر ادھر پھدک رہے ہیں اور خوبصورت آوازیں نکال رہے ہیں. ۔ہر منظر دل کا بھا لیتا ہے.
بارش کے دنوں چھتریاں کھلتی ہیں، جیسے کہ محبت کے پھول کھل رہے ہوں۔ ان بارشوں میں رعنا جوان اور ضعیف بوڑھے چھتریوں کے پَر کھولے گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح ہر جانب حسن بکھیر رہے ہوتے ہیں.

اس وقت پڑی بنگلہ میں میرے سامنے ہلکی بارش ہورہی ہے. دھوپ نے بھی اپنا انچل دکھا دیا ہے اور میرے سامنے گرم گرم چائے کا ایک کپ پڑا ہے. ویسے آپس کی بات ہے کہ بارش کے دوران ایگ گرم کپ چائے یا کافی ، ایک رومانٹک ناول، اور ساتھ میں اپنے محبوب کی موجودگی، یہ سب مل کر ایک خوابیدہ دنیا کا منظر بناتے ہیں۔ میرے پاس رومانٹک ناول تو نہیں فی الحال تفہیم القرآن کی پہلی جلد ہے جس میں مقدمہ تفہیم القرآن کا مطالعہ ہورہا ہے. اردو تفاسیر میں تفہیم القرآن بھی رومان سے کم نہیں.
میں سماجی علوم کا دینی طالب علم ہوں. کوشش کرتا ہوں کہ سماجی اور فطری امور کو دینی علوم کی روشنی میں سمجھوں.
قران مجید میں فطرت کا فلسفہ بہت جامع اور گہرا ہے. اللہ تعالیٰ کی قدرت، حکمت، اور تخلیق کے مختلف پہلو قرآن میں بیان کیے گئے ہیں، جن میں بارش اور اس کے اثرات بھی شامل ہیں۔
بارش کو زمین کی زندگی کہا گیا ہے. بارش کو اللہ کی قدرت خاص بیان کیا گیا ہے اور فطرت کی علامت کہا گیا. بارش کے نزول کو توازن و اعتدال اور انصاف سے تعبیر کرکے انسان کو راہ اعتدال دکھایا گیا ہے. بارش رحمت اور حیات ہے.
قرآن کریم میں حضرت انسان کو فطرت کا محافظ قرار دیا گیا ہے۔ انسان کو فطرت کا خیال رکھنے اور اس کی حفاظت کرنے کی بھاری ذمہ داری سونپ دی گئی ہے. بارش سمیت دیگر قدرتی وسائل کو ضائع یا نقصان پہنچانے سے روکا گیا ہے.انسان کو پابند بنا دیتا ہے کہ وہ قدرت کا احترام کرے اور اس کی حفاظت کرے۔ بارش کا ذکر نہ صرف اللہ کی رحمت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ انسان کو فطرت کے ساتھ ہم آہنگی میں رہنے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ اگر آپ فطرت کیساتھ ہم آہنگی میں رہنا چاہتے ہیں تو بس اتنا ضرور کیجئے کہ بارش کی لمس اور نرمی و توازن کو محسوس کیجئے اور اسے خوب لطف اٹھائیں. لطف اٹھانے کا طریقہ ہر ایک کا مختلف ہوسکتا ہے.

بارش کے ساتھ ایک خاموشی ہوتی ہے، جو دلوں کو قریب لے آتی ہے۔ یہ لمحے زندگی کی وہ نرمی ہیں جو ہمیشہ یاد رہتی ہیں۔
آج پڑی بنگلہ میں رم جھم بارش ہونی چاہیے تھی مگر ہلکا بوندا باندی ہوئی جو کئی دنوں سے پیاسے کھیتوں اور درختوں کے لیے ناکافی ہیں.

یہ بارش کا حسن ہے، جو دلوں کو گرما دیتا ہے اور زندگی میں ایک نیا رنگ بھرتا ہے۔ جب بارش ہوتی ہے، تو یوں لگتا ہے کہ قدرت نے محبت کے پیغام کو زمین پر بھیج دیا ہو، تاکہ ہم سب کو یاد دلائے کہ محبت ہی وہ جذبہ ہے جو سب کچھ بدل دیتا ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ بارش کے ان دنوں میں گلگت بلتستان کے ہر فرد کے صالح جذبات بدل کر رہ جائیں گے اور نباتات، حیوانات اور جمادات محبتوں کے اڑان بھریں گے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں