گلگت بلتستان میں منشیات کی وبا: مسائل اور حل خاطرات :……….امیرجان حقانی
ہمارے دوست اور قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت کے پروفیسر برادر ضیاء اللہ شاہ نے راقم کو تجویز دی کی منشیات کی روک تھام اور یونیورسٹیوں میں منشیات کلچر پر ایک تحقیقاتی کالم لکھوں. یہ بات انہوں نے ایک کمنٹس کے جواب میں تحریر کی تھی. شاہ جی کی تجویز و مشورہ صائب اور بروقت ہے. تحقیقاتی کالم لکھنے کے لئے وقت اور ڈیٹا دونوں ضروری ہیں. اگر شاہ جی یا کوئی دوسرا فرد یا ادارہ درست معلومات مہیا کریں تو مفصل کالم لکھا جاسکتا ہے، تاہم سردست منشیات کی لعنت کو روکنے کے لیے چند تجاویز پیش خدمت ہیں جن کو اپنا کر کسی حد بہتری لائی جا سکتی ہے.
یاد رہے کہ گلگت بلتستان میں منشیات کی وبا ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے جس نے خاص طور پر نوجوان نسل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے.ہر طرف منشیات کا دور دورہ ہے۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی بیان کے مطابق، منشیات کی فراہمی کا سلسلہ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات تک پہنچ چکا ہے۔ اس خطرناک رجحان کو روکنے کے لیے حکومت، انتظامی ادارے، اساتذہ، اور دیگر متعلقہ فریقین کو فوری اور مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے درج ذیل تجاویز پیش کی جا رہی ہیں:
1. سخت قوانین اور ان کا نفاذ
حکومت کو منشیات کی فروخت اور استعمال کے خلاف سخت قوانین بنانا اور ان کا مؤثر نفاذ کرنا ہوگا،. اگر قوانین موجود ہیں تو ان کا فوری اطلاق ضروری ہے۔ منشیات فروشوں کے خلاف سخت کاروائی اور سزاؤں کا تعین کیا جانا چاہیے۔ یہ ایک ایسی خطرناک لعنت ہے جو ہم سب کو برباد کرکے رکھ دے گی.
2. خصوصی فورسز کا قیام
منشیات کے خلاف لڑنے کے لیے خصوصی فورسز کا قیام ضروری ہے جو کہ منشیات فروشوں کے نیٹ ورک کو توڑ سکیں اور نوجوانوں کو منشیات سے دور رکھ سکیں۔گلگت بلتستان جیسے چھوٹے سے علاقے میں یہ کام آسانی سے کیا جاسکتا ہے.
3. آگاہی سیمینارز اور مہمیں
اساتذہ، طلبہ اور والدین کو منشیات کے نقصانات کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے باقاعدہ سیمینارز اور مہمات چلائی جائیں۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کے خلاف لیکچرز، ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد کیا جائے۔ حکومتی ادارے اور این جی اوز اس مد میں تعلیمی اداروں کے ساتھ فوری طور پر کام شروع کرسکتے ہیں.
4. کمیونٹی کا معاونتی سسٹم
مقامی کمیونٹی کی مدد سے ایک سپورٹ سسٹم بنایا جائے جہاں نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں میں مشغول کیا جائے۔ کھیل، ثقافتی پروگرامز اور دیگر صحت مند سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے۔ جب تک ہر یونین اور علاقے میں کمیونٹی کو فعال نہیں بنایا جائے گا، منشیات فروشوں کو شکست دینا ممکن نہیں. سماج کی بہتری میں کمیونٹی کا کردار سب سے حاوی ہوتا ہے.
5. کونسلنگ اور نفسیاتی مدد
منشیات کے عادی افراد کے لیے کونسلنگ اور نفسیاتی مدد کی فراہمی کی جائے تاکہ وہ اپنی زندگی کو دوبارہ صحیح راستے پر لا سکیں۔ یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں کونسلنگ سینٹرز قائم کیے جائیں۔ یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے. بڑے شہروں میں کچھ اچھے سینٹر موجود ہیں. ان کو گلگت بلتستان میں لایا جاسکتا ہے.
6. خفیہ اطلاعاتی نظام
منشیات فروشوں کے خلاف کاروائی کے لیے خفیہ اطلاعاتی نظام کو مضبوط کیا جائے۔ عوام کو بھی اس میں شامل کیا جائے تاکہ وہ بلا خوف و خطر منشیات فروشوں کی اطلاع دے سکیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اتنے "خفیہ” کے لوگ موجود ہیں جو منشیات فروشوں کا پتہ نہیں لگا پا رہے ہیں. خفیہ والو! تمہیں تھوڑی سی شرم آنی چاہیے. کہیں تم خود اس کالے دھندے میں ملوث تو نہیں؟ اگر نہیں تو ہر سطح پر ان کالی بھیڑیوں کی کمر کیوں نہیں توڑ دیتے؟ پلیز جاگ جاؤ میرے "خفیہ” کے بھائیو.
7. تعلیمی اداروں اور مساجد کا کردار
تعلیمی ادارے منشیات کے خلاف پالیسیز اپنائیں اور طلبہ و طالبات کی نگرانی کریں۔ غیر نصابی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے تاکہ نوجوانوں کا وقت مثبت سرگرمیوں میں صرف ہو۔ اس حوالے سے تعلیمی اداروں کا کردار بھی زیرو فیصد ہی ہے. مساجد میں بھی اس حوالے سے تعلیمات اسلامی کو عام کرنا چاہیے. لگی بندھی تقاریر سے ایسے ہم سماجی موضوعات پر تقاریر اور خطبات دیے جانے چاہئیں. کاش علماء و خطباء حضرات بھی ایکٹیو ہوجائیں.!
8. والدین اور سرپرستوں کی تربیت
والدین اور سرپرستوں کو اپنے بچوں کی نگرانی اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے بارے میں تربیت دی جائے۔ والدین کو آگاہ کیا جائے کہ وہ اپنے بچوں کے دوستوں اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ اس کا ہمارے ہاں شدید فقدان ہے. تعلیمی ماہرین اس کا کوئی بہترین حل نکال لیں تو بہتر ہوگا.
9. مقامی اور سوشل میڈیا کا کردار
میڈیا کو اس مسئلے پر روشنی ڈالنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ ٹی وی، ریڈیو، اور اخبارات اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے منشیات کے نقصانات اور اس کے تدارک کے بارے میں آگاہی پھیلائی جائے۔ سوشل میڈیا کے جملہ ٹولز بھی خوب استعمال کیے جاسکتے ہیں. غیر ضروری سیاسی و مذہبی اور علاقائی منافرت پر مبنی بحثوں کی بجائے منشیات کے خلاف جنگ جیسے ضروری موضوعات پر مکالمہ کا رواج ڈالنا بہت اہم ہے. مقامی میڈیا کے احباب اور سوشل میڈیا کے صارفین اور انفلوئنزر کو بھی میدان میں آنا چاہیے.
10. بین الاقوامی اداروں سے تعاون لینا
حکومت، سماجی ادارے منشیات کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے بین الاقوامی اداروں کا تعاون حاصل کرسکتے ہیں۔ دیگر ممالک کی تجربات اور وسائل سے فائدہ اٹھایا جائے اور مشترکہ کاروائیاں کی جائیں۔
تلک عشرۃ کاملۃ یعنی سردست یہ دس تجاویز کافی ہیں.
گلگت بلتستان میں منشیات کی وبا کو روکنے کے لیے حکومت، انتظامی ادارے، اساتذہ، والدین اور کمیونٹی کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ مذکورہ بالا تجاویز پر عمل درآمد کرکے ہم نوجوان نسل کو اس خطرناک وبا سے بچا سکتے ہیں اور انہیں ایک محفوظ اور صحت مند مستقبل فراہم کر سکتے ہیں۔
احباب سے گزارش ہے کہ اس بحث کو طول دیں. اپنی تجاویز شئیر کریں. مکالمہ کا ماحول پیدا کریں. ہم اپنے حصے کا کام کریں. باقی اللہ مالک ہے. شاہ جی آپ کا بہت شکریہ، آپ نے ہمیں متوجہ کرکے اپنے مختصر خیالات شئیر کرنے کا موقع عنایت کیا.